میں چل پڑا تو مرے یار شور کرنے لگے

چاند ہمیشہ سے سب کا من پسند رہا اور ہر ایک کی توجہ کا محور ہے چاند جب بھی اپنے جوبن پر ہوتا ھے تو پورا عالم اسے دیکھتا ہے۔ایک عام شخص صرف اسے دیکھ کر اسکی تعریف کر سکتاہےجبکہ ایک شاعر ایک ادیب کسی ایک ہی مصرعے میں اس پورے چاند کو سمیٹ لیتا ہے اس کا ذکر اپنی نظموں غزلوں اور تحریروں میں منفرد انداز سے ہی بیان کرتا ھے۔

یا پھر کوئی واقع رونما ہوتا ھے تو ہر شخص آبدیدہ ہوتادرہے مگر ایک شاعر یا ادیب اپنے الفاظ میں ہر کسی کے افکار کو سمیٹ کر نہایت سلیقے سے بیان کر دتا ہے۔

کسی سچے قلم کار کو سوچنے سےروکنا ممکن نہیں اور اگر سوچنے والا کوئی شاعر اور ادیب ہو تو اسے لکھنے اور بولنے سے کوئی روک نہیں سکتا اگر وہ شاہجہان سالف ہو تو وہ کھل کر کہتا ہے وہ تمام باتیں بھی جو بہت سے لوگ سوچتے ہیں مگر کہہ نہیں سکتے ۔

لہجہ کبھی منتقل نہیں ہوتا بلکہ ہمارے ارد گرد کے برتاؤ سے ہی ترتیب پاتا ھے جیسے شاہجہان سالف کا لہجہ اس نے ارد گرد ہوتی ہوئی نا انصافیوں کو دیکھ کر ایک منفرد لہجے میں آواز اٹھائی جو اور کوئی دوسرا نہیں اٹھا پایاپھر اس کی آواز کو دبا دیا گیا۔

ہم شاید اس دور میں جی رہے ہیں جہاں سانس لینے پر تو پابندی نہیں مگر سوچ پرپابندی لگائی جا رہی ہےظلم دیکھ کر اس کے خلاف سوچنا بھی جرم ھے اور بولنا بھی۔

5 اپریل 2017 کو شاہجہان سالف کو اسکے گھر والوں دوستوں احباب چاھنے والوں تمام کی آنکھوں سے دور کردیا گیاآج 69 دن بیت جانے کے بعد بھی اسکی کوئی خبر نہیں اس کے دوست احباب ماں باپ بہن بھائی سب کے سب خود اپنے گلے لگ لگ کر روتے رہے کسی کو اس کے گمشدہ ہونے کا دکھ کسی کو اسکی جدائی کا دکھ کسی کو اس کی آواز کے دب جانے کا دکھ کسی کو اسکی محبت کا دکھ کیونکہ محبت آفاقی ہو کر بھی کہیں کہیں ہمیں محدود کردیتی ھے۔

ہر کوئی مجبور اور بے بس دکھائی دیا چاھتے ہوئے بھی کوئی اسے واپس نہ لا سکاواپس لانا تو بعید کسی کو علم تک نہ ہوسکا کہ وہ ھے کہاں اور کس حال میں ھےٗکچھ ہمارے جیسے جو کسی کے سامنے رو بھی نہیں سکتے تھے دعاوں میں ہاتھ باندھے اپنے رب کے آگے روتے سسکتے اسکی بازیابی اور لوٹ آنے کی دعائیں کرتے رھے۔

اکثر نے اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا چاھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی کہ کہیں اس آواز اٹھانے کے جرم میں اسے بھی نہ اٹھا لیا جائےاور جنہوں نے بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی ان میں سے زیادہ تر وطن سے باھر تھےکیونکہ اس ملک میں نا انصافی پر آواز اٹھانا بنت ِ حوا ہونے سے بھی بڑا جرم ھے۔

یا یوں کہہ لیں کہ جو اس کے ساتھ حد سے زیادہ مخلص تھےاور اسکے لئے ہر رسک لینے کو تیار تھے انہوں نے آوازتو اٹھائی مگر کسی کی آواز کسی کے کانوں میں نہیں پڑیشاعر برادری یہ سوچ کر خاموش رہی کہ اسے اس سے پہلے بھی تو اٹھا لیا گیا تھا پھر سے غائب ہوگیا اوہ! مگر ہمارے آواز اٹھانے سے بھلا فرق بھی کیا پڑے گا چیختے چلاتے خود ہی ہار جائیں گے اور کچھ نے سوچا کہ ہم کیوں آواز بلند کریں آخر ہماری بھی فیملی ہے بچے ہیں آ ہی جائے گا اور اگر نہ بھی آئے تو کائناتی مدار میں کوئی جھول نہیں ائے گا۔

مگر کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اگر وہ مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے جو سزا ہے سب کے سامنے سنائی جائے یوں اسکی آواز کو دبا دینا ٗلاقانونیت کا مظاہرہ کرناٗیہ بھلا سب کیا اور کیوں ؟

اگر سالف نے ملکی سالمیت کے خلاف کوئی اقدامات کیے ہیں تو اسے عدالت میں لا کر سزا دی جائے یا اسے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا جائےٗاگر وہ مجرم ھے تو اسے بے شک سزا سنائی جائے۔

بقول احمد فراز

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

مجھے سالف کے اتنے دن لاپتا رھنے کا دکھ ہے
اور سالف سے زیادہ ایک آواز کے دبنے کا دکھ ہے

سالف، ہم ، اور آپ ایسے افراد ھیں کہ ہمارے چلے جانے سے تو شاید کائناتی مدار میں کوئی جھول نہیں آئے گا ہاں مگر خاموش ہوجانے سے انسانی تہذیبی و معاشرتی مدار میں جھول آ ہی جائے گا ٗکیا اگر کوئی بڑا آدمی غداری کرے تو وہ ہمارے ملک پر حکمرانی کرے گا اور اگر کوئی معمولی شاعر ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے جکڑ لیا جائے گا اور نہ معلوم مقام پر منتقل کر دیا جائے گا ؟

اور جو دن دہاڑے انسانوں کے خون سے سڑک کناروں کو رنگ رہے ہیں ٗجو سکولوں میں معصوم بچوں کو دھماکوں میں ہلاک کر رہے ہیںٗ نا جانے کتنی مائیں ہزارہ میں لاشیں سڑک کنارے سر عام خون میں ڈوبی اپنی بے بسی کا ماتم کر رھی ہیں کیا انکے قاتلوں کو پکڑنے والا کوئی نہیں ۔

اگر اس پر یہ ایلی گیشن بھی ہے کہ اس نے یورپ کی ایک خاتون کیساتھ شادی کرنے کا جرم کیاتو یہ جرم ہمارے بہت سے دلعزیز کریکٹرز نے بھی کیا آخر انہیں کیوں نہیں اٹھایا گیا۔

آج بھی وہ مختلف کھیلوں کے پروگرامز میں اپنے آپکو تماشابنا کر ہماری عوام کو محظوظ کر رہے ہیںٗ کچھ دھرنے دے رہے ہیں اور کچھ دبئی میں جائیدادیں بنانے میں مصروف ہیں۔

کیا شاہجہان سالف کا جرم ان سب سے بھی بڑا ہے؟یا فرق بس اتنا سا ہے کہ وہ ایک عام شاعر حق اور سچ لکھنے والا ! ہاں شاید وہی بڑا مجرم ہے کیونکہ اس نے ہمیشہ حق کے لئے آواز اٹھائی ہے اور غریب غربا کا ساتھ بنا کسی لالچ کے دیا ہے ۔

اور اس سے بڑے مجرم تو ہم خود ہیں جو یہ جاننے کے باوجود کے ہمارے الفاظ بہری سماعتوں میں کھو کر جاں بحق ہوجائیں گے پھر بھی شور مچا رھے ہیں جیسے چوزوں کے دڑبے سے کسی ایک کو بلی جھپٹ کر لے جاتی ہے تو باقی چوں چوں چوں چوں کرکے شور مچاتے ہیں اور کافی دیر تک چیختے رھتے ہیں پھر چیخ چیخ کر ان کا گلا بیٹھ جاتا ھے آواز مندمل ہوجاتی ھے اور پھر وہ سب کے سب ور پھر وہ سب کے سب خاموش ہوجاتے ہیں۔

مگر ہم ہم تو انسان ہیں اسلئے تب تک شور مچاتے رہیں گے جب تک اسے واپس نہ کردیا جائے۔

ہوا کا زور تھا اشجار شور کرنے لگے
میں چل پڑا تو مرے یار شور کرنے لگے

تنک مزاج ہوا گرد اڑانے آئی تھی
چراغ طاق میں بیکار شور کرنے لگے

ہمیں تو کر دیا خاموش حسنِ یوسف نے
ہماری جیب کے دینار شور کرنے لگے

کبھی تو ایسا کوئی وقت زندگی دیکھے
میں چپ رہوں مِرا کردار شور کرنے لگے

نسیمِ صبحِ بہاراں گزرنے والی تھی
بلائے حبس کے آزار شور کرنے لگے

شبِ فراق مری آنکھیں شور کرتی رہیں
شبِ وصال تھی، رخسار شور کرنے لگے

مکان آگ نے مصلوب کر دیا سالف
مکیں تھے چپ، در و دیوار شور کرنے لگے

شاہجہان سالف

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے