وزیراعظم نواز شریف پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف پاناما پیپرز کے دعوؤں کے مطابق اپنے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوگئے۔

وزیراعظم نواز شریف کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر دفاع اور وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز بھی موجود ہیں۔

یاد رہے کہ وزیراعظم کو جاری کیے گئے نوٹس کے مطابق انہیں ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ بطور گواہ طلب کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جوڈیشل اکیڈمی میں پیشی سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید سمیت دیگر وزراء اور پارٹی رہنماؤں نے وزیراعظم ہاؤس میں نواز شریف سے ملاقات کی۔

خیال رہے کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رحمٰن ملک کو بھی رواں ماہ پوچھ گچھ کے لیے طلب کررکھا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف سے قبل جے آئی ٹی ان کے دونوں صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز سے شریف خاندان کے اثاثوں سے متعلق تحقیقات کرچکی ہے، ان کے علاوہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران درپیش مسائل اور ارکان کو موصول ہونے والی دھمکیوں سے متعلق سپریم کورٹ میں الگ درخواست بھی دائر کررکھی ہے۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات

وزیراعظم نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر جوڈیشل اکیڈمی اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔

نواز شریف کی آمد سے قبل آئی جی اسلام آباد اور وزیراعظم کا سیکیورٹی اسٹاف جوڈیشل اکیڈمی پہنچا اور تمام سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔

دوسری جانب وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کے لیے بلٹ پروف ڈائس کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ملحقہ سڑکوں پر مختلف بینرز اور پوسٹرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں جن میں نواز شریف کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کارکنوں کو جوڈیشل اکیڈمی جانے سے روک دیا تھا تاہم اس کے باوجود لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد نے اکیڈمی پہنچنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے لیگی ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو جوڈیشل اکیڈمی کے قریب جانے سے روک دیا۔

پاناما انکشاف
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ملکی سیاست میں ہلچل اور سپریم کورٹ میں کارروائی

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

وزیراعظم کے صاحبزادوں کی پیشی
جے آئی ٹی نے اثاثوں کی تفتیش کے لیے سب سے پہلے وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو طلب کیا تھا، جو پانچ بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

حسین نواز گذشتہ ہفتے پانچویں مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، اس موقع پر انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوالات سے نہیں لگتا، جے آئی ٹی جب بھی بلائے گی میں آؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے مجھے نہیں جے آئی ٹی والوں کو مطمئن ہونا ہے، جے آئی ٹی کو کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملے گا، اگر کوئی ثبوت ملے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

دوسری جانب حسن نواز بھی دو مرتبہ پیش ہوئے اور جے آئی ٹی نے ان سے آخری مرتبہ تقریباً 5 گھنٹے طویل تفتیش کی تھی۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ
یاد رہے کہ حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

بعدازاں حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پہلی پیشی کی ایک تصویر لیک ہوئی جس پر انھوں نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے شکایت کی۔

خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں حسین نواز نے کہا کہ تصویر لیک کر کے آئندہ طلب کیے جانے والوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں حسین نواز نے موقف اختیار کیا کہ تصویر کا لیک ہونا اور ویڈیو ریکارڈنگ ضابطہ اخلاق اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔

نیشنل بینک کے صدر بھی جے آئی ٹی سے نالاں
دوسری جانب جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نے بھی رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پاناما پییرز کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات میں بننے والی جے آئی ٹی کے ارکان کے رویے کی شکایت کی۔

سعید احمد کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق جے آئی ٹی ارکان نے انھیں 5 گھنٹے تک انتظار کروایا جبکہ کچھ ارکان کا رویہ دھمکی آمیز اور تحمکانہ تھا۔

سعید احمد نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ ‘میں نے جے آئی ٹی کو اطلاع دی تھی کہ میں (کچھ وجوہات کی بنا پر) مقررہ تاریخ پر پیش نہیں ہوسکتا، لہذا میں اگلی مرتبہ پیش ہوگیا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے معاملے کی سماعت کرنے والے معزز جج صاحبان کے سامنے یہ تاثر دیا کہ جیسے میں جان بوجھ کر اس معاملے کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتا ہوں’۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ملاقات کا وقت صبح 11 بجے طے تھا، میں مقررہ وقت پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی پہنچ گیا، لیکن 3 سیشنز پر مشتمل انٹرویو کے سلسلے میں پہلے انٹرویو کے لیے مجھے تقریباً 5 گھنٹے تک انتظار کروایا گیا’۔

واضح رہے کہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں ملوث ہونے کی بناء پر جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا تھا۔

اس سے قبل سعید احمد کا نام اُس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب 1998 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے فوجی بغاوت کے بعد، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے انھیں ‘اپنا قریبی دوست’ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شریف خاندان کے مالی معاملات کو ‘ہینڈل’ کرنے کے لیے سعید احمد کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔

اکتوبر 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کو کرپشن کے 3 ریفرنسز میں ملوث کیا تھا جن میں سے ایک حدیبیہ پیپر ملز کیس تھا، تاہم 2014 میں احتساب عدالت نے اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔

حدیبیہ پیپرز ملز کیس وزیراعظم کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کا احاطہ کرتا ہے، پاناما جے آئی ٹی کو فراہم کیے جانے والے ریکارڈ میں 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل ہے۔

اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر 1.2 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا ‘اعتراف’ کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

فی الوقت سعید احمد نیشنل بینک کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں، اس سے قبل وہ اسٹیٹ بینک میں ڈپٹی گورنر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے