شرم کرو

یہ سیاست ہے یا مقابلۂ یا وہ گوئی؟ جس سیاست دان کی پھیلائی گئی تشکیک سے تشویش اور تشنج میں جتنا اضافہ ہو وہ اپنے آپ کو اتنا ہی زیادہ مقبول سمجھتا ہے کیونکہ اسے ایک ڈرائونے خواب کی طرح ٹیلی وژن اسکرینوں پر زیادہ سے زیادہ رونمائی ملتی ہے۔

ہر ظالم اپنے آپ کو ظافر سمجھتا ہے لیکن ظفریابی اور عالی ظرفی میں بڑا فرق ہوتا ہے سیاست میں ظافر تو بہت ہیں عالی ظرف بہت کم۔

اخلاق اور برداشت نامی خوبیاں آٹے میں نمک کے برابر محسوس ہوتی ہیں۔

اختلاف رائے کا جواب دلیل کی بجائے اونچی آواز میں تضحیک آمیز لب ولہجے میں دینے والا اپنے آپ کو ظفریاب سمجھتا ہے۔

کل رات کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ زیر گردش تھا۔

یہ چھوٹا سا ویڈیو کلپ اس کوزے سے کم نہ تھا جس میں ایک دریا سمٹ گیا تھا۔

کئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے نامور صحافی عمرچیمہ سے چوہدری فواد حسین نام کا ایک شخص بار باریہ پوچھ رہا تھا کہ تمہاری کیا کریڈیبلٹی ہے ؟

تم یہ بتاؤ کہ فوج نے تمہیں جوتے کیوں مارے ؟

چوہدری فواد نامی شخص آج کل تحریک انصاف کا ترجمان کہلواتا ہے۔

یہ اندازہ نہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے گھوم کر آنے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے رہنے والا یہ شخص عمران خان کیلئے مزید کتنی دیر قابل برداشت رہے گا لیکن یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان کے ارد گرد ابن الوقت اور مردار خور قسم کے سیاست دانوں کے جمگھٹے نے تحریک انصاف کے حامیوں اور ہمدردوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

جس ویڈیو کلپ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں ایک ٹاک شو کے دوران تحریک انصاف کا ’’ترجمان‘‘ اس صحافی کا مذاق اڑا رہا ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان میں پاناما کیس کو بے نقاب کیا اور جو اس انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلٹس کا حصہ ہے جس کا ذکر عمران خان کی ہر تقریر اور انٹرویو میں سنائی دیتا ہے۔

یہ وہی عمرچیمہ ہے جو پاناما کیس کی انکوائری کیلئے بنائے جانے والی جے آئی ٹی میں پیش ہوا اور اس نے ان تمام دستاویزات کی تصدیق کی جن کی بنیاد پر وزیراعظم نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے کچھ افراد کو جے آئی ٹی نے تحقیقات کیلئے طلب کیا۔

یہ وہی عمر چیمہ ہے جس نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوششوں پر تنقید کی تو محترمہ مریم نواز نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ ان تمام صحافیوں کو پاکستان کے خلاف ایک گھنائونی سازش کا حصہ قرار دیدیا جنہوں نے پاناما کیس کی تحقیقات میں حصہ لیا۔

عمرچیمہ کی رائے سے اختلاف ہر پاکستان کا آئینی حق ہے لیکن اختلاف کے نام پر فوج کا خودساختہ ترجمان بن کر یہ کہنا کہ تم یہ بتاؤ کہ فوج نے تمہیں جوتے کیوں مارے تھے، دراصل فوج کا وقار مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

کچھ سال پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عمرچیمہ کو اغواء کرکے تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا۔

اس زمانے میں چوہدری فواد نامی شخص پیپلز پارٹی کی حکومت کا غیر منتخب مشیر تھا اور ٹاک شوز پر مکے لہرا لہرا کر آصف زرداری صاحب کا دفاع کیا کرتا تھا۔

عمر چیمہ کے اغواء کی تحقیقات کیلئے حکومت نے ایک انکوائری کمیشن قائم کیا تھا لیکن اس کمیشن کی انکوائری رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔

ہمیں نہیں معلوم کہ رپورٹ میں کیا لکھا ہے لیکن اس وقت حکومت کے ایک مشیر نے تشدد کا الزام فوج پر عائد کر دیا ہے۔

اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔

اس وقت تو کسی وزیر یا مشیر نے اپنی زبان نہیں کھولی آج یہ زبان کیوں کھل رہی ہے ؟

پیپلز پارٹی کی حکومت کے بہت سے وزیراور مشیر تحریک انصاف کی ڈرائی کلین مشین سے گزرنے کے بعد اپنے آپ کو بڑا صاف ستھرا سمجھ رہے ہیں لیکن یہ نہائے دھوئے گھوڑے خاطر جمع رکھیں۔

جب عام انتخابات آئیں گے اور یہ گھوڑے اپنے گلے میں تحریک انصاف کا ٹکٹ لٹکا کر اپنے حلقوں میں ووٹ مانگنے جائیں گے تو کوئی اور نہیں تحریک انصاف کے کارکن انہیں جوتے دکھائیں گے۔

چوہدری فواد نامی شخص ہم جیسے صحافیوں کو اس زمانے سے غدار سمجھتا ہے جس زمانے میں یہ شخص پرویز مشرف کا ترجمان ہوا کرتا تھا۔

میرا خیال تھا کہ پاناما کیس کی وجہ سےیہ شخص تحریک انصاف میں نمایاں ہوا لہٰذا پاناما کیس کو سامنے لانے والا عمر چیمہ اس شخص کے نزدیک محب وطن ہوگا لیکن افسوس کہ عمرچیمہ کے متعلق چوہدری فواد کی رائے وہی نکلی جو مریم نواز کی ہے۔

مریم نواز صاحبہ نے جب عمر چیمہ جیسے صحافیوں کو پاکستان کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیا تھا تو میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ آپ عمرچیمہ کے خلاف ثبوت سامنے لائیں یا اپنے الفاظ واپس لیں۔

وزیر اعظم کی صاحبزادی نے اپنے الفاظ واپس لئے نہ ہی کوئی ثبوت سامنے لائیں۔

یہ پاکستان کے آزاد منش صحافیوں کا ا لمیہ ہے۔ ہر کوئی انکی زبان وقلم سے اپنی مرضی اور اپنی پسند کی بات سننا چاہتا ہے۔

وہ کسی سیاسی نکتہ نظر کی حمایت کر دیں تو جمہوریت پسند اور حق گو کہلاتے ہیں لیکن وہ کوئی تلخ سوال اٹھا دیں یا اختلاف رائے کی گستاخی کر دیں تو جمہوریت دشمن کہلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک جو صحافی صادق القول ہوتا ہے اختلاف رائے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کا خوب مخول ہوتا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر کچھ سیاست دانوں نے سیاست کو گالی بنایا ہے تو کچھ ٹی وی اینکرز اور صحافیوں نے بھی صحافت کو گالی بنا دیا ہے۔

کچھ صحافی اپنی زبان و قلم سے بڑے صالح بنتے ہیں لیکن قول وفعل کا تضاد انکی صحافت کو ظرافت بنا دیتا ہے۔

وقت کے حکمران کو احتساب کے کٹہرے میں بلالیا جائے تو انہیں جمہوریت خطرے میں نظرآتی ہے۔

انہیں اس وقت جمہوریت نامی دوشیزہ کی عزت خطرے میں نظر نہیں آتی جب وقت کا حکمران اپنے تمام دعوئوں اور اصولوں کو بھول کر آئین سے غداری کے ملزم کو پاکستان سے بھگا کر اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

حکمران بھول جاتا ہے کہ اسے قدرت معاف کریگی نہ تاریخ معاف کریگی۔

پھر یہ اقتدار ہی اس کیلئے عذاب بن جاتا ہے اور اسے اپنی ہی حکومت کے گریڈ 21کے افسروں کے سامنے جواب دینے کیلئے پیش ہونا پڑتاہے۔

اس کے دربار میں پیش ہونے والے صحافی اسے مظلوم بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے خفیہ اداروں کی سازشوں کا ہدف قرار دیتے ہیں پھر پتا چلتا ہے کہ وقت کا حکمران جے آئی ٹی کے ارکان کو اپنے زیر انتظام خفیہ ادارے کے ذریعہ ڈرا دھمکا رہا تھا۔

وہ حربے جو پرویز مشرف نے غداری کے مقدمے سے بچنے کیلئے اکرم شیخ کے خلاف استعمال کئے آج نواز شریف حکومت کی طرف سے وہی حربے جے آئی ٹی کے اراکین کے خلاف استعمال کئےجا رہے ہیں۔

ایک غلطی جے آئی ٹی سے بھی ہوئی، حسین نواز کی تصویر لیک نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن اس جے آئی ٹی کے ساتھ پاکستان کے زرخرید درباری میڈیا نے جو کیا ہے وہ قابل شرم ہے اور اب مریم نواز کا سوشل میڈیا سیل میرے ساتھ وہی کرے گا جو چوہدری فواد نے عمر چیمہ کے ساتھ کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے