کیا ہزارہ برادری کی ”نسل کشی” ہو رہی ہے؟

پچھلے دنوں بی بی سی اردونے پاکستانی دانشورں سےسوال کیاتھا کہ "کیا پاکستان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے؟ اسکے جواب میں معروف صحافی نسیم زہرہ نے کہاتھا
"جب میں یہ لفظ (نسل کشی) سنتی ہوں تو مجھے پریشانی ہوتی ہے کیونکہ درحقیقت پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان میں میرے نزدیک کسی کی نسل کشی ہو رہی ہے تو وہ ہزارہ ہیں کیونکہ انہیں ایک علاقے سے نکالنے یا ان کے خاتمے کی باقاعدہ منظم کوشش کی جا رہی ہے”۔
آیئے سب سے پہلےعلمی لحاظ سے "انسانی نسل کشی” کی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسائکلوپڈیاآف برٹینیکا میں نسل کشی کی یہ تعریف کی گئی ہے "کسی بھی انسانی گروہ کی دانستہ طور پر منظم انداز میں نسلی، گروہی اور عقیدے کی بنیاد پر ہلاکتوں کو نسل کشی کہا جاتاہے”۔
جبکہ اقوام متحدہ کی تعریف میں درج بالااقدامات کے علاوہ "جا نی اور ذہنی نقصان پہنچانے اور اجتماعی زندگی پر کلی یا جزوی منفی طورپر اثرانداز ہونے جیسے اقدامات کو بھی نسل کشی کے زمرے میں شامل کیا ہے”۔
اب اس بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ تعریف کی روشنی میں دیکھتےہے کہ پاکستان اور بطورخاص بلوچستان میں گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری ہزارہ قتل عام کے سلسلے کو "ہزارہ نسل کشی”کا نام دیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔

A man prepares graves for the burial of victims of Saturday’s bomb attack in a Shi’ite Muslim area, in the Pakistani city of Quetta February 17, 2013. Pakistan’s unpopular government, which is gearing up for elections expected within months, faced growing anger on Sunday for failing to deliver stability after the sectarian bombing in the city of Quetta killed 81 people. REUTERS/Naseer Ahmed (PAKISTAN – Tags: CIVIL UNREST CRIME LAW POLITICS RELIGION TPX IMAGES OF THE DAY) – RTR3DWYP

1۔کوئیٹہ میں "ہزاروں” پر پہلا دہشت گردانہ حملہ6 اکتوبر 1999 کو رکن بلوچستان اسمبلی اور اس وقت کے صوبائی وزیرتعلیم سردار نثارعلی ہزارہ پر بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائی کورٹ بلڈنگز کےعین سامنے دن دھاڑے ہوا جسمیں اسکا ڈرائیور ہلاک جبکہ وہ خود اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ شدید ہوئے۔اس واقعہ کےبعد دہشتگردی کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا جو رکنے میں نہیں آرہا جس میں اب تک 1500 سے زاید ہزارہ شہید اور سا ڑھے تین ہزار سے زاید زخمی ہوچکے ہیں جنمیں زن ومرد،پیر و جوان یہاں تک کہ شیرخوار بچےبھی شامل ہیں جبکہ باقیوں کو قتل کی سنگین دھمکیوں کا سامنا ہیں۔لیکن اس طویل عرصے اور اتنی بھاری جانی نقصانات کے با وجود کسی ایک دہشت گرد کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ اگران دہشت گردانہ حملوں کی نوعییت کا جایزہ لیاجاے تو یہ حقیقت کھل کر سامنےآتی ہے کہ دہشت گرد صرف” یک نکاتی ایجنڈہ”پر کاربند رہے ہیں اور وہ یہ کہ بلوچستان،بطورخاص کویئٹہ میں آباد ہزارہ قوم کو ہرلحاظ سےمفلوج کرکے پاکستان چھوڑنے پر مجبورکیاجاے۔ اسی لیے وہ عام راہ چلتے ہزارہ سے لیکر سبزی فروشوں اور بڑےتاجروں سے لیکر مختلف شعبہ ہاے زندگی سے وابسطہ ممتاز شخصیات کو محض دیکھتےہی (رینڈملی) یا پھر منصوبہ بندی کرکے دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس حقیقت کا برملا اظہار لشکرجھنگوی نے 6 مئی 2011 کو ہزارہ ٹاون پر اپنے پہلے براہ راست منصوبہ بند حملے کےبعدایک پمفلٹ کے ذریعےکیا ۔یادرہے کہ اس دن راکٹ لانچرز اوربھاری مشن گنوں سمیت جدید ترین اسلحوں سے لیس گاڑیوں پر سوار درجنوں دہشت گردوں نے براہ راست ہزارہ ٹاوؑن پر دن کی روشنی میں حملہ کرکے مارننگ والک پر آے 8 بےگناہ "ہزاروں” کو شہید اور دیگر 15 کو زخمی کرنےبعدسیکوریٹی فورسیز کے آنے سے پہلےآسانی سے حسب معمول فرار ہونےمیں کامیاب بھی رہے تھے حالا نکہ دہشت گردی کی یہ کاروائی ایک گھنٹے سے زایددیرتک جاری رہی تھی۔ غورطلب نکتہ یہ ہے کہ مغربی بائی پاس سے متصیل، حملےکی زد میں آنےوالے ہزارہ ٹاوؑن کے اس حصے سے ایف-سی چیک پوسٹ محض چندسومیٹرزکی دوری پرہے جبکہ بروری پولیس تھانہ اور ایف-سی ہیڈکوارٹر(ایوب سٹیڈیم) تین اور پانچ کلومیٹر کےفاصلےپرواقع ہیں، یعنی حملہ آور دہشت گردوں کے پاس فرار کی کوئی گنجایش ہی نہیں۔

2۔ 2012کے اوایؑل میں لشکرجھنگوی نےمزید آگے بڑھتے ہوئے 2012 میں "ہزاروں”کو بلوچستان سے نکل جانے اوراس پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں سینگین نتائج بھگتنے کا الٹی میٹم جاری کردیا جسکا بعدازآں وقتاۤ فوقتاۤ مختلف دہشت گردانہ حملوں کےبعد اخبارات کے ذریعے یاددہانی بھی کراتی رہی۔

3۔ 10جنوری 2013 کو علمدار روڈ سےمتصیل حاجی رحمت اللہ روڈکے ایک سنوکرکلب میں یکےبعد دیگرے پہلے خودکش اوربعداز آں امدادی کارکنوں کی آمد پرریموٹ کنٹرول کاربم حملےکرائے گئے جسمیں کم از کم سو لوگ شہید اور 280 سے زاید زخمی ہوگئے جنکی بڑی اکثریت "ہزاروں” پر مشتمل تھی،جسکےبعد لشکرجھنگوی کی طرف سے بیان آیا کہ "چونکہ انکی طرف سے 2012 تک ان کو بلوچستان سے نکل جانے کی الٹی میٹم کی مدت ختم ہوچکی ہے لہذا اب انہیں بلوچستان سےنکلنے کی اجازت نہیں دیجائیگی بلکہ انہیں صفحہؑ ہستی سےمٹانے(نسل کشی)کیلیے کاروایوں کا سامنا کرنا پڑیگی۔ یاد رہے کہ اس دوران ہزارہ قوم، پاکستان میں جاری اپنی اس نسل کشی کے خلاف دنیابھر کے 20 ممالک کے 30 سے زاید شہروں میں کم از کم دوبار اپنا بھر پوراحتجاج ریکارڈ کراکر پاکستان پر موثر سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی دباوؑ ڈالنے میں کامیاب ہوچکی تھی جس کی وجہ سے طاقتور فوجی اسٹبلیشمنٹ کے یہ پروردہ پراکسی محض دنیا کو گمراہ کرنے کیلیےاپنے اخباری بیانات میں ماضی کے برعکس "ہزارہ” کی بجاے لفظ "شعیہ” استعما ل کرنے لگےتھے حالا نکہ صاف ظاہر ہیں کہ:-

الف۔ لشکرجھنگوی یا اس سے منسلک کسی بھی دیگر دہشت گرد تنظیم نے پاکستان کےکسی اور کونے میں کسی بھی شیعہ کمیونٹی کواس طرح اپنی تمام ہست و بود یعنی کئی نسلوں کی کمائی کو یونہی چھوڑ کر نکل جانے یا پھر نسل کشی کیلیے تیار رہنے کا الٹی میٹم جاری نہیں کیاہے کیونکہ انہیں معلوم کہ اگر عام شعیہ صرف اپنا محلہ تبدیل کریں تو انکی شناخت ناممکن ہوجاتی ہے لہذا ان کی طرف سےاس طرح کی دھمکی ایک حماقت ہوگی، جبکہ "ہزاروں” کیلیے اپنی منگولیائی شناخت کو چھپانا ہی ناممکن ہیں ۔

ب۔ عام لوگوں کو "ہزاروں” سے میل جول رکھنے،دکانداروں کولین دین کرنے اور ٹرانسپورٹرز کو انہیں لے جانے کی ممانعت کردی گئی ہیں۔

ج۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران بلوچستان کی ہزارہ آبادی، صوبائی دارلحکومت کوئیٹہ کے دو گیٹوز (محلوں) علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاوؑن کے چند مربع کلومیٹرکے رقبےمیں محاصرے کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں لیکن اسکے با وجود ان پر انہی محصور ؐمحلوں میں ایک درجن کے قریب خودکش حملے ہوچکےہیں۔ وہ ان گیٹوز سے اپنے روزمرہ کاموں کے سلسلےمیں اپنی زندگی کو داوؑ پرلگاکر اس چھوٹے شہر کےمحض 10 فیصدعلاقےتک دن کی روشنی میں یوں جا آ سکتے ہیں کہ انہیں خواہ مرد ہوں یا خواتین ہر بارسخت سیکوریٹی چیکینگ کے مراحل کو گذارنا ہوتےہیں۔ شہرکے باقی 90 فیصد علاقے ان کیلیے” نوگو” (ممنوعہ) بن چکے ہیں جس کے ہر کونے کدرے میں مسلح دہشتگرد قاتل انکے تاک میں رہتے ہیں جنکی کہیں تلاشی نہیں لی جاتی حالا نکہ بقول وفاقی وزیر داخلہ، "کوئٹہ ملک کا سب سے زیادہ سکیورٹی رکھنے والا شہرہے جہاں ہر 100 میٹرز کے فاصلے پر کسی نہ کسی سیکوریٹی ایجنسی کا چیک پوسٹ ضرورہے "ٗ صوبے کے دیگر علاقے تو بہت دور کی بات ہے۔ گویا اس وقت کوئٹہ کی چھ لاکھ کی ہزارہ آبادی کو بیک وقت نسل کشی (قتل یا قتل ہونےکی سنگین دھمکیوں) کے علاوہ سیاسی، اقتصادی،سماجی اور تعلیمی تنہایئوں کا بھی سامنا ہیں جو دیگر شیعہ افراد بشمول پاڑہ چنار یا اقلیتی گروہوں (احمدی،کرسچن، ہندو وغیرہ) کو ایسی مخدوش صورتحال کا سامنا نہیں۔
4۔ انہی تلخ حقایق کی بنیاد پر بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ پاکستان میں جاری شعیہ قتل عام کے تناظر میں "ہزارہ نسل کشی” کو72 صفحات پر مشتمل ایک علحدہ جامع رپورٹ "ہم زندہ لاشیں ہیں ” کے ٹائیٹل سے مرتب کریں،جسمیں تفصیل کے ساتھ ایکیسویں صدی کے اس انسانی المیے کو بیان کیا گیا ہے ۔

قارئین کرام! اگر”نسل کشی” کی ذکرشدہ مسلمہ تعریف کو مدنظر رکھیں اور درج بالا بنیادی نکات کی روشنی میں پاکستانی ہزارہ کے ساتھ روا رکھنے والے گذشتہ پندرہ سالہ انسانیت سوزواقعیات کا جایزہ لیں توواضح طور پاکستان میں جاری ہزارہ ٹارگٹ کلنگ، "نسل کشی” کے زمرے میں آتی ہے،جسکی صداقت میں کوئی کلام نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے