نیب اور آئی بی سمیت دیگر اداروں نے جے آئی ٹی الزامات مسترد کردیے

اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف علی نے پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو درپیش مشکلات سے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ متعدد حکومتی ادارے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے ‘شواہد اکھٹا کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں’۔

جے آئی ٹی نے الزام لگایا تھا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ریکارڈز کی حوالگی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جبکہ یہ تمام ادارے متعلقہ دستاویزات میں جعلسازی اور چھیڑ چھاڑ کے بھی مرتکب ہیں۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔

آج عدالت عظمٰی میں اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرائے جانے والے جواب میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورہو (نیب)، وزارت قانون، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وزیراعظم ہاؤس کا موقف شامل کیا گیا۔

جواب کے مطابق وزیراعظم ہاؤس نے جے آئی ٹی کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی درخواست میں فون ٹیپ اور گواہان کی مانیٹرنگ کا اعتراف کیا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس نے جواب میں موقف اختیار کیا کہ فون ٹیپ کرنا اور گواہوں کی مانیٹرنگ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

جواب کے مطابق انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے جے آئی ٹی ممبر بلال رسول اور ان کے اہل خانہ کے فیس بک اکاؤنٹ ہیک کرنے کے الزامات مسترد کردیے اور موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ وزارت قانون نے بھی جے آئی ٹی کے تمام الزامات مسترد کردیے اور کہا کہ قانونی معاونت سے متعلق خط تین دن میں جاری کردیا گیا تھا۔

دوسری جانب ایف بی آر، ایس ای سی پی اور نیب نے بھی پاناما لیکس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کےالزمات مسترد کردیے۔

ایف بار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے چار مرتبہ 40 سال پرانا ریکارڈ مانگا تھا اور متعلقہ ریکارڈ کم از کم وقت میں جے آئی ٹی کو فراہم کردیا گیا۔

نیب کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے رکن عرفان منگی کو عدالتی احکامات کی روشنی میں جے آئی ٹی تشکیل دینے سے قبل نوٹس دیا گیا جب کہ ان کے علاوہ نیب کے دیگر 77 افراد کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔

ایس ای سی پی نے جواب میں موقف اپنایا کہ ریکارڈ میں ٹمپرنگ اور جعلسازی سے متعلق جے آئی ٹی کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے مواد اکھٹا کرنے میں کم وقت اور توانائی صرف کی ہے اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنے، آرٹیکل پڑھنے اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ میں اپنا وقت لگایا ہے’۔

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو جے آئی ٹی کی ایک درخواست پر جواب دینا تھا، جس میں ٹیم نے عدالت کو خود کو درپیش مسائل اور تحقیقات میں سرکاری اداروں کی مداخلت کی نشاندہی کی تھی، جس پر عدالت نے اے جی کو جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے اور اس حوالے سے اقدامات کے لیے تجاویز پیش کرنے کو کہا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس کیس کی سماعت کو منگل (20 جون) تک کے لیے ملتوی کردیا جائے تاہم عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر پیر (19 جون) کو دوبارہ بات ہوگی۔

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے