قراردادِ پاکستان، مغالطے، حقیقت اور شامی صاحب

پاکستان کی تاریخ میں دو تین ہی مجیب مشہور ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کے بانی، جنرل مجیب الرحمٰن جنرل ضیاء کے وزیر اطلاعات جن کا کام اطلاعات پر قدغن اور بندش لگانا تھا نہ کی اُن کی آزادانہ فراہمی، تیسرے اپنے مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہیں۔

شامی صاحب بلند پایہ صحافی، لکھاری اور شعلہ بیان مقرر ہیں۔ تقریر و تحریر کا یکساں ملکہ رکھتے ہیں۔ اُن سے کبھی بھی قریبی تعلق نہیں رہا مگر وہ جب بھی ملے بہت عزت سے ملے۔ دو تین سال قبل لاہور میں جب ایم کیو ایم کی ایک مرحومہ ایم این اے صاحبہ سے سرِ راہ جھگڑا ہو گیا تو میں نے پولیس کو قانونی کارروائی کے لیے درخواست دے دی جس کے جواب میں میرے ادارے نے مجھے زیر بار لانے کے لیے ملازمت سے معطل کر دیا۔ دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ شامی صاحب کو بھی میں نے صورت حال سے آگاہ کیا تو انھوں نے میرے حق میں اپنے پروگرام ’’نقطہ نظر‘‘ میں آواز اُٹھائی۔ یہ اُن کا مجھ پر ذاتی احسان ہے۔

بعد ازاں میری کتاب’’میڈیا منڈی‘‘ چھپی جس میں اُن کا بھرپور انٹرویو شامل تھا ساتھ ہی ساتھ اُن کے کاروباری حریف روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اسلام آباد کے ایڈیٹر سردار خاں نیازی کا انٹرویو بھی شامل تھا۔ جس میں نیازی صاحب نے شامی صاحب پر بہت سے الزامات

مجیب الرحمان شامی

لگائے تھے۔ علاوہ ازیں میری اپنی تحقیق اور متعدد حوالہ جات بھی کتاب میں شامل تھے جن میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ پر ’’قبضے‘‘ کے حوالے سے کافی مواد تھا۔

اپنے ایک دوست کے ہمراہ ’’میڈیا منڈی‘‘ میں خود اُن کی خدمت میں پیش کرنے گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ جتنے صاحبانِ علم و دانش نے مجھے انٹرویوز دیے ہیں میرا فرض بنتا ہے کہ میں اُن کا خود جا کر شکریہ ادا کروں اور اگر اُن سے ملاقات نہ ہو سکے تو کم از کم کتاب انھیں بھیج دوں۔ شامی صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ حسبِ روایت بہت تپاک سے ملے لیکن بعد ازاں اُن کے تاثرات سے اندازہ ہوا کہ وہ ’’میڈیا منڈی‘‘ سے خوش نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود گذشتہ سالوں میں جتنی بھی عیدیں گزری ہیں اُن کے تہنیتی پیغامات میرے دونوں ٹیلی فون نمبروں پر موصول ہوتے رہے۔ یہ بات بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ بہت دید لحاظ والے انسان ہیں۔

دوسری طرف ڈاکٹر مبارک علی صاحب ہیں جو سراپا حلم و محبت ہیں۔ وہ جتنے بڑے عالم اور تاریخ دان ہیں اُتنے ہی منکسر المزاج، شُستہ لب و لہجہ اور دھیمی شخصیت کے مالک ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ڈاکٹر صاحب جیسے اکیلے فرد نے پاکستانی معاشرے میں بغیر کوئی سمجھوتا کیے سوچ کے نئے روزن وا کرنے میں اتنا بھر پور کردار ادا کیا ہے جو کسی تحریک سے بھی بڑھ کر ہے۔ جس طرح انھوں نے تاریخ کا دوسرا پہلو دکھانے اور سوال اٹھانے کی روایت ڈالی ہے پاکستان کی آئندہ نسلیں بھی اُن کا یہ قرض ادا نہیں کر سکیں گی۔

اب آتے ہیں اُس مناقشہ کی طرف جس کا آغاز 23مارچ 2017ء کو کامران خان کے پروگرام سے ہوا۔ 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کے حوالے سے کامران خان نے ڈاکٹر مبارک علی کو آن لائن لیا۔ اس لائیو پروگرام میں ڈاکٹر صاحب کو مذکورہ اینکر نے بات بھی پوری نہ کرنے دی اور لائن کاٹ دی۔ اگلے دن جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے 26 مارچ 2017 کو روزنامہ دنیا میں ’’دماغ میں بُت خانہ‘‘ لکھ مارا۔ جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے بھی

ڈاکٹر مبارک علی

ایک ’’شریفانہ‘‘ سا جواب لکھ دیا مگر اُس کے بعد اُن کے خلاف ایک محاذ قائم ہو گیا اور کئی کالم اُن کے خلاف مختلف اخبارات میں چھپے جن میں صرف حقائق پر بات کرنے کے بجائے اُن کی تضحیک کی گئی اور مذاق اڑایا گیا۔ اس سارے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں لیکن پہلے کامران خان اور ڈاکٹر مبارک علی کی 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کے حوالے ہونے والی گفتگو کا مکمل متن ملا حظہ کریں۔

’’تاریخ کے بارے میں ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ تاریخ کا جو بیانیہ ہے وہ نئے مآخذ یا نئی ریسرچ آنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں تو پہلی بات اُسی قرارداد کے حوالے سے ہے۔ کچھ نئی چیزیں سامنے آئی ہیں ان کی روشنی میں اس قرارداد کو دیکھا جائے تو ایک دوسرا ہی خاکہ ہمارے سامنے آتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ یادگار دن عام طور پر قوموں میں تاریخ کے تسلسل میں منائے جاتے ہیں تا کہ قوم کے اندر ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا جائے۔ چونکہ پاکستان ایک بالکل نیا ملک تھا اور اُن کے پاس ابھی کوئی ایسے اہم دن نہیں تھے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب 1956ء کا آئین بنا ہے تو اُس وقت جا کے 23مارچ کی اہمیت ہوئی ہے اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس دن کو یومِ جمہوریہ کے طو رپر منایا جائے۔

اس قرارداد کے حوالے سے جو نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق اس قرارداد کے مسودے کو ہندوستان کے وائسرائے کی مرضی سے ڈرافٹ کیا گیا تھا اور اس کی منظوری برطانوی حکومت سے لی گئی تھی۔ اس مسودے کو قائد اعظم محمد علی جناح کو دکھا دیا گیا تھا۔ یہ مسودہ جب منٹو پارک لاہور کے اجلاس میں پیش ہونے کے لیے بہت دیر سے آیا تھا۔ عاشق حسین بٹالوی نے بیان کیا ہے اس قرارداد کافی البدیہہ ترجمہ (مولانا) ظفر علی خان نے کیا تھا ورنہ یہ قرارداد پہلے سے مسلم لیگ کے پاس ہوتی تو اس کا اردو ترجمہ بھی پہلے سے لکھ لیا جاتا۔ لہٰذا ایک خیال تو یہ ہے کہ یہ قرارداد برطانوی حکومت کی مرضی سے آئی ہے اور خاص وقت پہ آئی ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ بھی اُسی وقت کیا گیا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی بات کاٹتے ہوئے کامران خان نے سوال کیا کہ ہم اس اکائونٹ کو کتنا مستند سمجھیں؟۔ ظاہر ہے تاریخ کے مختلف پہلو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب، ہم اپنا حتمی نتیجہ تو قائم نہیں کر سکتے؟۔

جواباً ڈاکٹر صاحب نے کہا’’نہیں، نہیں، بالکل نہیں کیونکہ جیسا میں نے کہا تاریخ بدلتی رہتی ہے‘‘۔ نئے مآخذ سامنے آتے ہیں۔ نئے پہلو (Interptrtitions) سامنے آتے رہتے ہیں لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ جب مزید شہادتیں ملیں گی تو پھر اس بیانیے کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ مستند ہے‘‘۔

اس گفتگو میں کہیں بھی ڈاکٹر صاحب اصرار نہیں کر رہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ حتمی سچائی ہے بلکہ اس حوالے کے مستند ہونے کے حوالے سے بھی وہ کہہ رے ہیں کہ ’’نہیں، نہیں بالکل نہیں کیونکہ جیسا میں نے کہا تاریخ بدلتی رہتی ہے‘‘ نئے مآخذ اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پروڈیوسر اور ایڈیٹرز کا ادارہ کمزور ہونے کے سبب اینکر ہی پروگرام کا مالک و مختار ہو چکا ہے۔ اگر کامران خان شتابی نہ دکھاتے اور ڈاکٹر صاحب کی بات پوری ہونے دیتے تو شاید قرارداد لاہور کے حوالے سے جو طوفانِ بدتمیزی کچھ نام نہاد اصحابِ علم و دانش نے برپا کر رکھا ہے وہ نہ ہوتا۔ اب آتے ہیں 23مارچ کو بطور قومی دن منانے کی طرف اور اُس کے بعد قراردادِ پاکستان پر بات کریں گے۔ 23مارچ 2017ء کو روزنامہ ایکسپریس کے خصوصی ایڈیشن میں پروفیسر یوسف حسن کا بہت عمدہ مضمون چھپا جس میں انھوں نے 23مارچ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

’’ڈومینین اس ماتحت سیاسی درجے کا نام ہے جو اگست 1947میں پاکستان اور ہندوستان کی دونوں ریاستوں کو برطانوی شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ گویا 14اگست 1947ء کہ ہمیں کامل آزادی نہیں ملی تھی بلکہ ڈومینین سٹیٹس ملا تھا جس کا اصطلاحی ترجمہ نو آبادیاتی درجہ یا مستعمراتی درجہ بھی کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کا سرکاری ترجمہ ’’استقلال‘‘ کیا گیا اور ہمارے قومی ترانے میں بھی آزادی کا لفظ موجود نہیں ہے اور اس کے آخری بند میں بھی پہلے جو ’’جانِ استقلال‘‘ کے الفاظ ہوا کرتے تھے ان کا مطلب بھی یہی ’’ڈومینین کی جان‘‘ تھا۔

ترجمان ماضی شانِ حال
جان استقلال
سایہ خدائے ذوالجلال

23مارچ 1956ء کے بعد ’’استقلال‘‘ کو ’’استقبال‘‘ کر دیا گیا۔ کامل آزادی کے بجائے نو آبادیاتی درجے کے دور میں ’’استقلال‘‘ کے نام سے ایک سرکاری رسالہ بھی شائع ہوتا رہا۔ کامل آزادی کی جگہ نو آبادیاتی درجے کا حصول اور اس کا تقریباً نو سال تک وجود ایک تاریخی حقیقت تھی۔ جس کے گہرے اثرات ہماری قومی تاریخ پر نمایاں طو رپر نقش ہیں۔ جن کو کسی طور چھپایا نہیں جا سکتا مگر اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت کو اب تک چھپایا جا رہا ہے اور خاص طور پر اردو نصابات اس تاریخی حقیقت کے بیان سے خالی چلے آ رہے ہیں‘‘۔

’’آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کے ساتھ جو نو آبادیاتی درجہ 1947ء میں پایا، اس کا مطالبہ اس نے پہلی بار 1916میں کیا تھا لیکن اس کے بعد کی دہائیوں میں قومی آزادی برطانوی سامراج کے خلاف عوام کی جدوجہد تیز سے تیز ہوتی گئی اسی کے دبائو میں آ کر انڈین نیشنل کانگریس نے 26جنوری 1929ء کو نو آبادیاتی درجے کے بجائے مکمل آزادی کو اپنا نصب العین بنایا اور آل انڈیا لیگ نے 23 مارچ 1940 کو مکمل آزادی کا نصب العین اختیار کیا‘‘۔

’’اگست 1947ء میں پاکستان کو جو نو آبادیاتی درجہ حاصل ہوا وہ مکمل آزادی کے نصب العین سے پسپائی تھی۔ اس میں پاکستان کا قیام تو ایک بڑا مبارک تاریخی اقدام تھا لیکن اس نو آبادیاتی درجے کی وجہ سے برطانوی شہنشاہ جارج ششم ہی پاکستان کی ریاست کا سربراہ رہا اور اس کے بارے بُنیادی قومی اداروں کے ساتھ رائل کا سابقہ بھی موجود رہا جیسے

رائل پاکستان سول سروس

رائل پاکستان نیوی

رائل پاکستان ایئر فورس اور

رائل پاکستان آرمی

اور پھر صرف رائل کا سابقہ ہی نہیں، ان سارے بنیادی اداروں میں سامراجی برطانوی افسران بھی موجود رہے‘‘

’’اس نو آبادیاتی درجے کے باعث ہی پاکستان برطانوی دولتِ مشترکہ میں شامل ہوا اور برطانوی، امریکی سامراج بلاک میں شریک رہا‘‘۔

’’مارچ 1951 کے پنجاب کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے امیدواروں کو ناکام بنانے کے لیے جو راولپنڈی سازش کیس بنایا گیا تھا اس کے ملزموں پر سب سے پہلا الزام یہ لگایا گیا تھا کہ انہوں نے شہنشاہ معظم جارج ششم کے خلاف بغاوت کی ہے‘‘۔

’’بھارت نے تو جنوری 1951 ہی میں اپنا آئین بنا کر نو آبادیاتی درجے سے نجات پالی تھی مگر نہ جانے پاکستانی حکمران طبقوں نے اپنا آئین بنانے اور نو آبادیاتی درجے سے نجات پانے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ بہر حال فروری 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین جو 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا اور اسکے ساتھ ہی پاکستان ایک نو آبادیاتی درجے کی ریاست سے ایک اسلامی ری پبلک آف پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔

گویا ایک مکمل آزاد ریاست بن گیا۔ یہی دن ہمارا یوم جمہوریہ ہے۔ یہ یوم جمہوریہ 1956، 1957 اور پھر 1958ء میں بھی بڑے جشن کے ساتھ منایا گیا مگر اکتوبر 1958ء میں ملک گیر مارشل لاء لگ گیا تو اس کے بعد یومِ جمہوریہ منانے کا یہ قومی سلسلہ ٹوٹ گیا اور اب تک یوم جمہوریہ کے بجائے یومِ پاکستان چلا آ رہا ہے۔ کسی جمہوری سیاسی جماعت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ اپنا ایک آئینی اور عظیم دن یعنی یوم جمہوریہ مناسکے۔ اب صرف اور صرف خود جمہوریت پسند عوام ہی اس عظیم روایت کو بحال کر سکتے ہیں‘‘

26مارچ 2017ء کو روزنامہ دنیا میں چھپنے والے اپنے کالم میں اسی پس منظر کو مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے یوں بیان کیا ہے۔

’’23مارچ اور فوجی پریڈ کا گہرا تعلق یوں ہے کہ پاکستان کو 1956ء میں پہلا دستور دے کر جمہوریہ بنانے اور مارچ برطانیہ سے رسمی تعلق توڑنے کی سعادت حاصل کرنے والے انتہائی شریف النفس اور زیرک وزیر اعظم چودھری محمد علی (مرحوم) نے مجھے بتایا تھا کہ اگست کا مہینہ بارشوں کے ساتھ خاص تھا۔ برسات کا موسم شروع ہوتا اور 14 اگست کو فوجی پریڈ کا انعقاد (اکثر) مشکل ہو جاتا۔ دستور ساز اسمبلی نے اپنا کام مکمل کر لیا تو فیصلہ کیا گیا کہ اسے 23 مارچ کو نافذ کیا جائے، اس دن کی قرارداد لاہور کے حوالے سے تاریخی اہمیت تو تھی ہی، اسے یومِ جمہوریہ بھی قرار دے دیا جایا کہ اس روز فوجی پریڈ منعقد ہو سکے گی۔ مارچ میں بارش کا خطرہ نہیں تھا۔ پاکستان تو دنیا کے نقشے پر اگست 1947ء میں طلوع ہو گیا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان نے 23 مارچ 1956ء کو جنم لیا۔ گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے تاجِ برطانیہ سے علیحدگی کا عمل مکمل کر دیا گیا‘‘۔ ’’جنرل ایوب خان نے جب اپنے مربی و دوست اور صدرِ مملکت کے بلند منصب پر فائز ہو جانے والے میجر جنرل سکندر مرزا کے ساتھ مل کر آئین کو منسوخ کیا تو پھر 23 مارچ کا بڑا حوالہ ختم ہو گیا اور یہ قراردادِ لاہور کے ساتھ مختص ہو کر رہ گیا‘‘۔

حقائق پر بات اپنی جگہ مگر شامی صاحب نے اپنے اس کالم ’’دماغ میں بت خانہ‘‘ میں ڈاکٹر مبارک علی صاحب کے حوالے سے انتہائی نا مناسب زبان استعمال کی جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

ڈاکٹر مبارک علی نے مذکورہ کالم کے جواب میں ’’در جوابِ آں غزل‘‘ کے عنوان سے مختصر سا جواب دیا۔ جو یکم اپریل 2017ء کو روزنامہ دنیا میں چھپا۔

’’1940ء کی قراردادِ لاہور کو ایک دلکش داستان بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے کئی سال بعد شروع ہوا۔ ابتداء میں 23مارچء کو یومِ جمہوریہ منایا جاتا تھا لیکن جب فوجی حکومتوں نے جمہوریت کو پامال کیا تو ہمارے طبقے یوم جمہوریہ کو بھول گئے۔ جب ان کی ناکامیاں زیادہ بڑھیں تو پھر یوم جمہوریہ کو یوم پاکستان بنا کر لوگوں کو ایک بار پھر اپنی نام نہاد جدوجہد سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ 1940ء کی ریزولوشن کے بارے میں کہانیاں بیان کی گئیں۔ 1940 ء کی ریزولوشن کی اصل داستان تاریخی دستاویزات میں محفوظ ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی یہ معلومات دی گئی ہیں۔ ان کے مطابق انڈیا کے وائسرائے Lord Linlithgow نے یہ قرارداد چودھری محمد ظفر اللہ سے لکھوائی، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، بعد میں یہ مسودہ قائد اعظم محمد علی جناح اور برطانوی حکومت کی توثیق کے بعد 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ لاہور میں ہونے والے جلسہ عام میں پیش کیا گیا۔ چونکہ قرارداد کا مسودہ شملہ سے دیر سے پہنچا، اس لیے اس کا اردو ترجمہ فوری طور پر مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا کہ جب قرارداد کو انگریزی میں پیش کیا گیا تو حاضرین مجلس نے اسے ہاتھ اٹھا کر یا ہاں کہہ کر منظور کیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس کے دوسرے دن ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سکندر حیات نے یہ اعلان کر دیا کہ مسلم لیگ پنجاب سے ہاتھ اٹھا لے۔ سندھ کے الٰہی بخش سومرو نے بھی اس سے لاتعلق ہونے کا اظہار کیا۔ بنگال کے فضل حق جنہوں نے قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی مسلم لیگ کے بجائے کانگریس سے بات چیت کر رہے تھے۔ بعد میں قرارداد کے متن کی خلاف ورزی بھی کی گئی اور آزاد و خود مختار ریاستوں کے حوالے کو نظر انداز کر دیا گیا‘‘۔

اپنے اس جواب کے آخر میں ڈاکٹر مبارک نے ایک فقرہ لکھا کہ میں ایک محقق اور اسکالر ہوں اس لیے قابلِ اعتراض زبان سے پرہیز کرتا ہوں‘‘۔

یار لوگوں نے اس جملے پر بھی خاصی بَھد اُڑائی۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی نے جواب الجواب میں 15 اپریل 2017ء کو ’’قراردادِ لاہور کا مصنف‘‘ کے عنوان سے ایک اور کالم تحریر فرمایا جس میں زبان تو قدرے سنبھل کے استعمال کی گئی مگر لہجہ اور انداز وہی تُوتکار والا تھا۔

ڈاکٹر صفدر محمود جو بزعم خود تاریخِ پاکستان کے واحد مستند مورخ اور’’ٹھیکیدار‘‘ ہیں بعد ازاں اُن کا ایک کالم ’’پاکستان کی بُنیاد اور قائد اعظم پر حملے‘‘ کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں 4اپریل 2017ء کو شائع ہوا۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

’’ہماری بدقسمتی کہ پاکستان لکھاریوں میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جسے پاکستان کی نظریاتی بُنیادوں کو تہہ و بالا کرنے، نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں بد گمانیوں کا زہر گھولنے اور قائد اعظمؒ کے کردار کو مشکوک بنانے پر مامور کر دیا گیا……حیرت کی بات نہیں کہ انہیں ہندوستان کی محبت اور سرپرستی میسر ہے اور ہندوستانی حکومت انہیں خطابات و اعزازات سے بھی نوازتی ہے وہ خود بھی سیکولرزم سے اس قدر وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو پاکستان میں نظام تعلیم کے اسلامی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہندوستان میں زیور تعلیم سے آراستہ کرواتے ہیں‘‘۔

جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے ایک کالم روزنامہ جنگ کو لکھ کر بھیجا مگر صحافتی اقدار کو پسِ پُشت ڈال کر کئی روز تک وہ کالم شائع نہیں کیا گیا بلکہ وہ کالم ’’روزنامہ جہانِ پاکستان‘‘ کو بھیج دیا گیا جو 9اپریل کو مذکورہ اخبار میں چھپا (ڈاکٹر مبارک علی اس اخبار میں باقاعدہ کالم بھی لکھتے ہیں)

اس کالم میں ڈاکٹر مبارک نے ڈاکٹر صفدر محمود کے الزامات کا جواب یوں دیا۔

’’یہ درست ہے کہ 2002ء میں ہندوستان کی ایک نجی سوسائٹی نے مجھے کمیونل ہارمنی ایوارڈ (Communal Harmony Award) دلائی لامہ کے ہاتھوں دلوایا۔ میرے ساتھ دوسرے پاکستانی جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا وہ عبد الستار ایدھی تھے لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ وہ بھی ہندوستانی حکومت کی ایما پر پاکستان میں فلاح و بہبود کا کام کر رہے تھے۔

دوسری یہ بات بھی درست ہے کہ میری ایک بیٹی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی جو امریکا اور یورپ کی مہنگی جامعات کے مقابلے میں سستی اور معیاری ہے۔‘‘

ڈاکٹر مبارک علی مزید لکھتے ہیں کہ:

’’تاریخ کوئی ٹھہرا ہوا علم نہیں‘‘۔ شواہد اس کے بیانیے کو بدلتے رہتے ہیں۔ نئی دریافت شدہ دستاویزات پرانے معانی و مفہوم کو تبدیل کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے ریاستی مورخوں اور دانشوروں کے لیے تاریخی بیانیہ کی یہ تبدیلی اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ انھوں نے جو تاریخ تشکیل کر دی ہے اگر اس کو چیلنج کیا گیا، ان کے حقائق کو بے نقاب کیا گیا تو اس سے وابستہ جو ہیروز ہیں وہ اپنا انتہائی اعلیٰ رُتبہ کھو دیں گے اور زمین دوز ہو جائیں گے نہ صرف یہ بلکہ وہ طبقے بھی جو اس بُنیاد پر مراعات حاصل کیے ہوئے ہیں۔ مالی فوائد اُٹھا رہے ہیں وہ سب اپنی سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ اس لیے پاکستان میں تاریخ کا ایک ہی بیانیہ ہے۔ جس پر مورخ لوٹ پھر کے بار بار کہے جاتا ہے اور یہی سب کُچھ ہماری نصابی کتابوں میں ہے جو نوجوانوں کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے کر سوچ اور فکر کے تمام دروازے بند کر دیتی ہے‘‘۔

’’کوئی تحقیق بھی ہمیشہ کے لیے مستند نہیں ہوتی۔ اگر اس نقطہ نظر کے خلاف کوئی دوسرا نقطہ نظر آتا ہے تو اس کو زہریلا کہنا اور یہ لکھنا کہ یہ نوجوانوں کو گُمراہ کرنے والا ہے اس لحاظ سے صحیح نہیں کیونکہ ہماری ریاستی تاریخ تو پہلے ہی سے نوجوانوں کو گمراہ کر چکی ہے‘‘۔

’’کوئی بھی سیاسی شخصیت مکمل نہیں ہوتی۔ اس میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اس تناظر میں رکھیے اور انھیں مقدس بنا کر لوگوں سے دور کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ انھوں نے تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا، اب نیا زمانہ ہے، نئی نسلیں ہیں، انہیں ان کی خواہشات پر اور زمانے کے تقاضوں کے تحت پاکستان کی تشکیل کرنے دیجئے‘‘۔

اسی دوران زاہد منیر عامر اور منیر احمد منیر کے کالم بھی چھپ گئے جن میں ڈاکٹر مبارک علی پر طعن و تشنیع کی گئی تھی۔

’’ڈاکٹر مبارک علی چند معروضات‘‘ کے عنوان سے خرم علی شفیق کا ایک پرانا مضمون ’’دلیل‘‘ ویب سائٹ نے بھی چھاپ دیا۔ مضمون ہذا میں ڈاکٹر مبارک علی کی طرف سے علامہ اقبال پر اٹھائے گئے فکری اعتراضات کا جواب بہت سطحی انداز میں دیا گیا تھا۔ صاحب مضمون انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے لیے ڈاکٹر مبارک علی کا انٹرویو غالباً 2002ء میں کر چکے ہیں۔ مذکورہ انٹرویو میں حضرت نے ڈاکٹر صاحب کی خوب تعریف و توصیف کی۔ پچھلے چند سالوں سے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ سے وابستہ ہیں اور اصل ’’مآخذ‘‘ سے استفادہ کر رہے ہیں۔

اسی اثنا میں حامد میر بھی ڈاکٹر مبارک علی کے خلاف میدان میں کود پڑے اور ’’لائیو ٹی وی مناظرہ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ مارا۔ جس میں دلائل سے زیادہ جذباتیت حاوی تھی حالانکہ وہ خود اسی رویے کا شکار ہو چکے ہیں جو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے لیے اپنایا۔

ابھی حامد میر کے کالم کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ سجاد میر نے 20اپریل کو ڈاکٹر صاحب کے خلاف ’’بیمار ذہنوں کی کہانی‘‘ کالم لکھ دیا جس میں انتہائی سطحی زبان استعمال کی گئی۔

ڈاکٹر صفدر محمود کے روزنامہ جنگ میں 16اپریل کو چھپنے والے ایک اور کالم ’’لا علمی قابل معافی ہے لیکن بد نیتی نہیں‘‘ کے جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے ایک جوابی کالم’’دامن کو ذرا دیکھ‘‘ روز نامہ جنگ کو بھیجا جو بہت رد و کد اور تردد کے بعد آخر کار 28اپریل کو روزنامہ جنگ نے چھاپا۔ کالم ہذا کے بعد ڈاکٹر صفدر محمود نے 30اپریل کو ایک اور کالم’’ سچ اور صرف سچ بولیں‘‘ روزنامہ جنگ میں لکھا۔ حسب روایت جس میں پارسائی اور اپنا سچاہی صرف سچ ہے کا راگ الاپا گیا تھا۔

مذکورہ تمام صحافتی چاند ماری پر بعد میں بات کریں گے پہلے ذرا قرارداد لاہور کے منظر اور پس منظر کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

تخلیق پاکستان کے حوالے نامور محقق زاہد چوھدری کا کام بہت قابل ستائش ہے۔ زاہد چوھدری اور حسن جعفر زیدی کی مرتَّبہ کتاب’’پاکستان کی سیاسی تاریخ(جلد5)‘‘

’’مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء‘‘(1849ء۔1947ء) کا باب نمبر9قراردادِ لاہور پر تفصیلاً روشنی ڈالتا ہے۔ ’’قراردادِ لاہور کس طرح قراردادِ پاکستان بنی؟‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر 281سے صفحہ نمبر 312تک قراردادِ لاہور کا پورا منظر اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔

باب ہٰذا میں بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ اُس زمانے میں برصغیر میں اور عالمی سطح پر حالات کس نہج پر جا رہے تھے۔ کیسے قائد اعظم، مسلم لیگ اور دیگر مسلم قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ برصغیر کے مسلمان علیحدہ مملکت کا مطالبہ کریں۔

پے در پے عالمی جنگوں میں شمولیت کے باعث برصغیر پر انگریز کی گرفت کمزور ہو رہی تھی اور مقامی سیاسی قیادت آزادی کے لیے زیادہ متحرک ہوتی جا رہی تھی۔ اسی طرح کانگریس کی کوتاہ نظری اور تنگ ذہنیت کے باعث علیحدگی کی گئی سکیمیں پہلے ہی زیر بحث تھیں۔

جولائی 1937ء میں ہندو اکثریت کے صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں نے جو سلوک مسلمانوں سے روا رکھا اُس کی وجہ سے اُن کا انداز فکر بدلا۔
سندھ کے سر عبد اللہ ہارون نے اکتوبر 1938ء میں حیدر آباد (دکن) کے ڈاکٹر سید عبد الطیف کی کتاب کے دیباچے میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کو دو فیڈریشنوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک فیڈریشن مسلم اکثریت کی آئینہ داری کرے اور دوسری ہندو اکثریت کی آئینہ دار ہو۔ مسلم فیڈریشن ہندوستان کے شمال مغربی صوبوں اور کشمیر پر مشتمل ہو۔ اس کی اس تجویز میں بنگال اور آسام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جبکہ ڈاکٹر لطیف نے اپنی کتاب میں ہندوستان کو 15ثقافتی زونوں میں تقسیم کیا تھا۔ گیارہ ہندوئوں کے اور چار مسلمانوں کے اس کا خیال تھا کہ تبادلئہ آبادی ناگزیر ہے تا کہ ہر زون میں ہم آہنگی ہو۔ ہر زون میں خود مختار حکومت ہو گی جسکے اختیارات وسیع ہوں گے لیکن وہ آل انڈیا فیڈریشن کے ساتھ بھی منسلک ہو گی۔ اس کے مجوزہ چار زون یہ تھے:۔

(1) سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد اور خیر پور و بہاولپور کی ریاستیں۔

(2) مشرقی بنگال اور آسام۔

(3) دہلی، لکھنئو بلاک۔

(4) دکن بلاک، ساری ہندوستانی ریاستیں اپنے ثقافتی تقاضوں کے مطابق مختلف زونوں میں ضم ہو جائیں گی۔ سر عبد اللہ ہارون نے نومبر اور دسمبر 1938ء میں سر آغا خان کے نام اپنے خطوط میں بتایا تھا کہ ’’مسلم لیگی حلقوں کا رجحان اب مسلم ریاستوں اور صوبوں کی علیحدہ فیڈریشن کی طرف ہو رہا ہے تا کہ ہم ہندوئوں کی دست درازی سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائیں‘‘۔

اسی زمانے میں سندھ مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ کراچی نے ایک قرارداد میں یہ حتمی رائے ظاہر کی کہ ’’ہندوستان کے وسیع و عریض علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اور مسلمانوں اور ہندوئوں دونوں ہی قوموں کی آزادانہ ثقافتی ترقی، معاشی و معاشرتی بہتری اور سیاسی حق خود اختیاری کے لیے یہ قطعی طور پر ضروری ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ اس سارے سوال پر نظر ثانی کرے کہ ہندوستان کے لیے کس قسم کا آئین مناسب ہو گا جس کے تحت انہیں باعزت اور جائز حیثیت مل سکے۔ لہذا یہ کانفرنس آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کرتی ہے کہ وہ ایک ایسی آئینی سکیم مرتب کرے جس کے تحت مسلمانوں کو مکمل آزادی مل سکے‘‘۔

اس واقعہ کے تقریباً دو ماہ بعد جب دسمبر 1938ء میں پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا تھا تو اس میں ایک قرارداد کے ذریعے جناح کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی ایسے متبادل آئین کے امکان پر غور کریں جس کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو سکے۔

یو۔ پی کے ایک تعلّقہ دار نواب سر محمد یامین خان کے بیان کے مطابق اس وقت تک صدر مسلم لیگ محمد علی جناح بھی برصغیر کی تقسیم کے اصول کو محض کانگریس سے سودا بازی کرنے کی غرض سے اپنانے پر مائل ہو گئے تھے۔ نواب یامین خان اپنی یکم مارچ 1939ء کی ڈائری میں لکھتا ہے کہ :

’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھ کو، مسٹر جناح، سر ظفر اللہ خان، سید محمد حسین بیرسٹر الہ آباد کو بلایا۔ میرے ایک طرف مسٹر جناح بیٹھے تھے اور دوسری طرف سر ظفر اللہ خان ۔ مسٹر جناح کے دوسری طرف سید محمد حسین تھے اور سرظفر اللہ خان کی دوسری طرف ڈاکٹر ضیاء الدین احمد۔ لنچ کھاتے میں سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر جیسے کہ ان کی عادت ہے کہنا شروع کیا کہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کر دیئے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغان یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے سر ظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ سر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے۔ مسٹر جناح دونوں کی تقریر غور سے سنتے رہے پھر مجھ سے بولے کہ اس کو ہم کیوں نہ اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا کریڈ(Creed) بنائیں۔ ابھی تک ہماری کوئی خاص مانگ نہیں ہے اگر ہم اس کو اٹھائیں تو کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں کریں گے۔ میں نے کہا مغربی علاقہ کے واسطے یہ کہہ رہے ہیں مشرقی علاقے کا کیا ہو گا۔ مسٹر جناح نے ذرا غور کیا اور بولے کہ ہم دونو ں طرف کے علاقوں کو علیحدہ کرنے کا سوال اٹھائیں گے۔ بغیر اس کے کانگریس قابوں میں نہ آئے گی۔ میں نے کہا کہ ابھی کئی دن ہوئے بھائی پرمانند نے یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا اور آپ نے جواب ٹھیک دیا تھا۔ اگر بار گیننگ یعنی سودے بازی کے لیے یہ مسئلہ لیگ کا کریڈ یعنی اصولی مانگ بنا کر اٹھایا جائے تو پھر ہٹنا مشکل ہو گا۔ مسٹر جناح نے کہا کہ ہم کانگریس کا رد عمل دیکھیں گے۔ اس پر یہ معاملہ ختم ہو گیا چونکہ یہ کھانے کی میز کی گفتگو تھی‘‘۔

نواب یامین خان کی یہ کتاب 1970ء میں شائع ہوئی تھی۔ مسٹر ظفر اللہ خان اس کے پندرہ برس بعد تک زندہ رہا لیکن اس نے کبھی اس واقعہ کی تردید نہیں کی۔ 19 جنوری 1940 کو لندن کے ہفت روزہ اخبار ٹائم اینڈ ٹائڈ میں جناح کا ایک مضمون شائع ہوا۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا پہلا اور آخری مضمون تھا جس میں انہوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ ’’ہندوستان میں جمہوری پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ جس ملک میں دو قومیں، ہندو

نواب یامین خان

اور مسلمان آباد ہوں، ایک کی دائمی، مستقل اور ناقابل تبدیل اکثریت اور دوسری کی دائمی، مستقل اور ناقابل تبدیل اقلیت ہو وہاں اس قسم کی حکومت اصولاً قائم نہیں ہونی چاہیے۔ ہندوستان میں جماعتی حکومت موزوں نہیں ہے۔ مرکز اور صوبوں کی ساری حکومتوں میں سارے فرقوں کے نمائندے شامل ہونے چاہئیں۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے نفاذ کے بعد کانگریسی وزارتوں کا ہمیں جو تلخ تجربہ ہوا ہے اس کی روشنی میں ہندوستان کے آئندہ آئین کے بارے میں ازسر نو غور ہونا چاہیے۔ کانگریس اس عرصے میں طاقت کے نشے سے بدمست ہو گئی تھی اور کانگریس کے مجلس عاملہ نے ایک متوازی مرکزی حکومت کی پوزیشن اختیار کر لی تھی جس کے سامنے اس کی صوبائی حکومتیں جوابدہ تھیں کانگریس نے ریجنل ڈائریکٹر مقرر کئے تھے اور صوبائی حکومتیں مکمل طو رپر ان کے حکام کی تابع تھیں۔ ان کی منظوری کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی تھی پھر انہوں نے جو تھوڑی بہت مخالفت کی تھی اس کو کچلنا شروع کیا۔ مسلم لیگ ہندوستان کی آزادی کی حامی تھیں لیکن وہ ایسے وفاق کے قطعی خلاف ہے۔ جس میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے نام پر اکثریت کی ایک دائمی حکومت قائم ہو جائے۔ برطانیہ کو آئندہ مسلم لیگ کی منظوری کے بغیر کوئی آئین نہیں بنانا چاہیے اور نہ موجودہ آئین میں کوئی تبدیلی کرنی چاہیے۔ ہندوستان کے لیے ایسا آئین بننا چاہیے جس میں یہ تسلیم کیا جائے کہ اس ملک میں دو قومیں آباد ہیں۔ ہندو اور مسلمان۔ دونوں کو اپنے وطن کا نظام حکومت چلانے میں برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ اس قسم کا آئین بنانے کے لیے مسلمان، برطانوی حکومت، کانگریس یا کسی بھی فریق سے تعاون کرنے پر آمادہ ہیں تا کہ موجودہ تلخیاں ختم ہوں اور ہندوستان اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کر سکے‘‘۔ اس مضمون سے ظاہر ہے کہ جناح نے 19جنوری 1940ء تک اپنے ذہن میں برصغیر کی تقسیم کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کی ناقابل تبدیل حکومت قائم نہ کی جائے اور مسلمانوں کو آئندہ کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں جائز حصہ دیا جائے۔ 15 فروری کو جناح نے دہلی میں آل نڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں پھر یہی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ:

’’ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہم برطانیہ اور گاندھی میں سے کسی کو بھی مسلمانوں پر حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ میں مسلمانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو منظم کریں اور لیگ کونسل کے ممبروں سے کہتا ہوں کہ جائو مسلم لیگ کا پیغام بچے بچے تک پہنچا دو‘‘۔ دراصل مسلم لیگ کا پیغام مسلمانان ہند کے بچے بچے تک پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ یہ مسلم لیگ کونسل کی کوششوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ کانگریسی لیڈروں کی کوتاہ اندیشی کا ثمر تھا۔ محمد علی جناح کو لاہور کے ایک نوجوان میاں فروز الدین احمد نے قائد اعظم نہیں بنایا تھا بلکہ کانگریسی لیڈروں نے اپنی رعونت کے باعث انہیں یہ اعلیٰ مقام بخشا تھا۔ جناح تو نومبر 1939ء میں بھی مخلوط وزارتوں کی بنیاد پر کانگریس سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ تھے لیکن جواہر لال نہرو کو ’’کانگریس اور مسلم لیگ میں کوئی چیز مشترک نظر نہیں آتی تھی‘‘۔

اور گاندھی کو ’’مخلوط وزارتوں میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا تھا‘‘۔ ان حالات میں پنجابی مسلمانوں کے تعلیم یافتہ عناصر مسلم لیگ کے سوا کسی اور جماعت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ سر سکندر حیات خان کی یونینسٹ پارٹی اور زمیندارہ لیگ جاگیرداروں کی تنظیمیں تھیں۔ ان کا شہری مسلمانوں کے درمیانہ طبقہ سے قدرتی تصناد تھا۔ مجلس احرار چار پانچ سال تک قادیانی فرقہ کے خلاف شورش برپا کرنے کے بعد مسجد شہید گنج کے ملبے میں دفن ہو چکی تھی۔ مجلس اتحاد ملت کا وجود، اس کے بانی مولانا ظفر علی خان کی سیاسی متلّون مزاجی کے باعث، تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ البتہ عنّایت اللہ مشرقی کی خاکسار جماعت کا کچھ چرچا تھا کیونکہ اس کے نچلے درمیانہ طبقہ کے بیلچہ بردار رضاکار نہ صرف شہری مسلمانوں میں ولولہ پیدا کرتے تھے بلکہ وہ عامتہ المسلمین میں راشٹریہ سیوک سنگھ، اکالی دل اور اس طرح کی دوسری متعدد غیر مسلم مسلح تنظیموں کے خلاف احساس تحفظ بھی پیدا کرتے تھے۔ مارچ 1940ء کو جبکہ لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی زور شور سے تیاریاں ہو رہی تھیں علامہ نے فیصلہ کیا کہ اس کے رضاکار سر سکندر حیات خان کی حکومت کی طرف سے نیم فوجی تنظیموں پر عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی کریں گے۔

چنانچہ 19مارچ 1940 کو 313 بیلچہ بردار خاکساروں کے ایک جیش نے اندرون بھاٹی دروازہ فوجی نوعیت کی پریڈ شروع کر دی۔ جب یہ جیش ہیرا منڈی کے چوک نزدیک پہنچا تو اس کا تصادم پولیس سے ہو گیا۔ جانباز خاکساروں نے اپنے بیلچوں کے ساتھ رائفلوں سے مسلح پولیس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جس میں پولیس کے چند افسر بری طرح زخمی ہوئے اور ایک انگریز پولیس افسر مارا گیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد جب مسلح پولیس کی کمک موقعہ پر پہنچ گئی تو اس نے خاکساروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے حکومت کے اعلان کے مطابق 36 خاکسار جاں بحق ہوئے لیکن غیر سرکاری اندازہ پچاس سے کم نہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد شہر میں ہڑتال ہو گئی۔ دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور کرفیو لگا دیا گیا۔ اخبارات پر سنسر بٹھا دیا گیا اور پورے شہر میں فوج گشت کرنے لگی اور اس طرح چارو ںطرف دہشت طاری ہو گئی۔ حکومت پنجاب نے خاکسار جماعت کو خلاف قانون قرار دیدیا اور 184 سرکردہ خاکساروں کو گرفتار کر لیا۔ ادارہ علیہ پر حکومت نے قبضہ کر لیا اور علامہ مشرقی کو کراچی سے گرفتار کر کے لاہور لایا گیا جبکہ سنہری مسجد اور شہر کی بعض دوسری مسجدوں میں خاکساروں نے جمع ہو کر حکومت کے خلاف تقریروں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ انہیں کھانا وغیرہ عوام الناس کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا اور وہ کبھی کبھی شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں پریڈ بھی کرتے تھے۔ بالآخر جولائی 1940ء میں پولیس نے آدھی رات کے بعد چھاپے مار کر مسجدوں میں سے سارے خاکساروں کو گرفتار کر لیا گیا اور اس طرح پنجاب میں دس سالہ خاکسار تحریک کا زور ٹوٹ گیا اور بالآخر یہ تنظیم تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت کی وجہ سے مفلوج ہو گئی۔ خاکساروں اور پولیس کے درمیان اس خوفناک تصادم کے صرف دو دن بعد یعنی 21 مارچ کو صدر مسلم لیگ محمد علی جناح لاہور پہنچے تو پروگرام کے مطابق ان کے اعزاز میں جلوس نہ نکل سکا کیونکہ شہر کی فضا بڑی سوگوار تھی۔ اسی دن شام کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ایک سبجیکٹس کمیٹی کے تشکیل کی گئی۔

دوسرے دن یعنی 22مارچ کو لیگ کا کھلا اجلاس ہوا جس میں جناح نے اپنی طویل صدارتی تقریر میں پہلے تو جولائی 1937ء سے لے کر اکتوبر 1939ء تک کانگریسی وزارتوں کی فرقہ پرستانہ کارروائیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں۔ وہ ہندوئوں سے الگ ایک قوم ہیں اور ان کی گیارہ میں سے چار صوبوں میں اکثریت ہے۔ مسلمانوں میں ایک علیحدہ قوم کے سارے اوصاف موجود ہیں لہذا ان کے لیے ایک الگ وطن، الگ علاقہ اور الگ ریاست کا ہونا ضروری ہے۔ جناح نے اپنے اس موقف کی تائید میں پنجاب کے ایک سرکردہ ہندہ لیڈر لالہ لاجپت رائے کا ایک خط پڑھ کر سنایا جو اس نے 1924ء میں بنگال کے ایک وسیع المشرب لیڈر سی۔ آر۔ داس کو لکھا تھا۔ لاجپت رائے کے اس خط کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ’’مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جنہیں ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک قوم بنانا ممکن نہیں‘‘۔ عاشق بٹالوی لکھتا ہے کہ ’’لالہ لاجپت رائے چونکہ ہندو قوم کی ذہنیت کے صحیح علمبردار سمجھے جاتے تھے ان کے اس خط نے لوگوں کو ششدر کر دیا۔ ملک برکت علی سٹیج پر بیٹھے تھے۔ ان کے منہ سے نکل گیا کہ لالہ لاجپت رائے نیشنلسٹ ہندو تھے۔ قائد اعظم نے زور سے کہا کہ کوئی ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا۔ ہر ہندو اول و آخر ہندو ہے۔ اس پر پنڈال میں خوب تالیاں بجیں۔

22مارچ کی شام کو سبجیٹکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوابزادہ لیاقت علی خان نے مشہور و معروف قرار داد پاکستان پیش کی۔ عاشق بٹالوی کی اطلاع کے مطابق اس قرار داد کا مسودہ 21 مارچ کی رات کو نواب ممدوٹ کے مکان پر لکھا گیا تھا۔ قرارداد کی ترتیب و تدوین و تصنیف میں چار آدمیوں یعنی قائد اعظم، نواب محمد اسماعیل خان، سر سکندر حیات خان اور ملک برکت علی نے حصہ لیا تھا۔ سر سکندر حیات خان ایک بنی بنائی قرارداد کا مسودہ اپنے ساتھ ورکنگ کمیٹی میں لائے تھے جو کم و بیش ان کی زونل سکیم کے خاکے پر مرتب کیا گیا تھا۔ لیکن ورکنگ کمیٹی نے اسے منظور نہ کیا۔ منظور شدہ قرارداد کا مسودہ یہ تھا ’’آل انڈیا مسلم لیگ کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے 27اگست، 17،18ستمبر، 22اکتوبر 1939ء اور 3فروری 1940ء کو آئینی امور کے بارے میں جو قراردادیں منظور کی تھیں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ان کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے نہایت پر زور طریقے سے واضح کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں جس فیڈریش کی سکیم پیش کی گئی ہے وہ موجودہ حالات میں قطعی بے سود اور ناقابل عمل ہونے کے باعث مسلمانان ہند کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ اجلاس مزید پرزور اعلان کرتا ہے کہ وہ اعلان تسلی بخش ہے جو ملک معظم کی حکومت کی طرف سے وائسرائے نے 18اکتوبر 1939ء کو کیا تھا اور جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ہندوستان کی مختلف جماعتوں، فرقوں اور مفادات سے مشورہ کرنے کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پر غور کیا جائے گا۔ با ایں ہمہ مسلم انڈیا اس وقت تک مطمئن نہیں ہو گا جب تک تمام دستوری خاکے پر از سر نو غور نہیں کیا جاتا۔ مسلمان کسی دستوری خاکے کو جو ان کی رضا مندی اور مرضی کے بغیر مرتب کیا جائے گا، منظور نہیں کریں گے۔ قرار دیا جاتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ سوچی سمجھی ہوئی رائے ہے کہ مسلمانان ہند صرف اس دستوری خاکے کو قبول کریں گے جو زیادہ بنیادی اصولوں پر مرتب کیا جائے گا۔

’’جغرافیائی طود پر متصلہ وحدتوں (یونٹ) کے منطقے اس طرح وضع کیے جائیں کہ ضروری علاقائی ردو بدل کے ساتھ جن خطوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے۔ مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی زون۔ ان کو باہم ملا کر خود مختار ریاستیں بنا دی جائیں جن کے ترکیبی یونٹ آزاد و خودمختار ہوں گے۔ وحدتوں (یونٹ) اور منطقوں میں رہنے والی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور انتظامی حقوق اور دیگر مفادات کے لیے ان اقلیتوں کے مشورے سے دستور میں مناسب قانون اور پرزور تحفظات رکھے جائیں گے۔ یہ اجلاس ورکنگ کمیٹی کو اختیار دیتا ہے کہ ان بنیادی امور کے مطابق ایک دستور کی سکیم کرے جس کی رو سے انجام کار یہ جملہ منطقے ان تمام اختیارات کو اپنے قبضے میں لے لیں جن کا تعلق دفاع، امور خارجہ، مواصلات، کسٹم اور دیگر ضروری محکموں سے ہے‘‘۔
یہ قرارداد اگلے دن یعنی 23 مارچ کو 3 بجے سہ پہر منٹو پارک میں لیگ کے کھلے اجلاس میں تقریباً ایک لاکھ حاضرین کے سامنے بنگال کے مولوی اے۔ کے فضل الحق نے پیش کی اور یو۔ پی کے چودھری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی۔ تائید مزید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگزیب خان، سندھ سے سر عبد اللہ ہارون، مدراس سے عبد الحمید خان، سی۔پی سے عبد الرئوف شاہ، بمبئی سے اسماعیل ابراہیم چندریگر اور بہار سے نواب محمد اسماعیل خان نے کی اور اگلے روز یعنی 24 مارچ کو یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ اس طرح برصغیر کی سیاست میں ایک بالکل نیا باب کھل گیا۔

یہ قرارداد 1921ء کے بعد تاریخی ہندو مسلم تضاد کی شدت میں مسلسل اضافے، جولائی 1937ء کے بعد کانگریس کی ہندو قیادت کی رعونت، غلط اندیشی اور تنگدلی، مسلم اقلیت کی روز افزوں معاشرتی اور معاشی پسماندگی اور برطانوی سامراج کی تفرقہ انگیزی کا منطقی نتیجہ تھی۔ اگر کانگریس کی بورژوا قیادت میں قدرے سیاسی دور اندیشی، دریا دلی اور انصاف پسندی کا جذبہ ہوتا تو مسلم لیگ کی جانب سے اس قسم کی قرارداد کی منظوری کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ 1939ء سے قبل صدر مسلم لیگ محمد علی جناح کے سیاسی نظریے کی بنیاد کبھی بھی دو قومی نظریے پر نہیں رہی تھی۔ وہ ہندو مسلم اتحاد اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے عظیم علمبردار تھے۔ وہ کھلم کھلا کہا کرتے تھے کہ ’’میں پہلے انڈین ہوں اور اس کے بعد مسلمان ہوں‘‘۔ وہ نومبر 1939ء تک یہ کوشش کرتے رہے تھے کہ مخلوط وزارتوں کے اصول کی بنیاد پر کانگریس اور مسلم لیگ میں سمجھوتہ ہو جائے لیکن کانگریس کی کوتاہ اندیش قیادت نے بالآخر انہیں مجبور کر دیا کہ وہ برصغیر کی مسلم اقلیت کے درمیانہ طبقہ کی علیحدگی پسندی کے قائد اعظم بن جائیں۔ مسلمانوں کے درمیانہ طبقہ میں علیحدگی پسندی کا یہ رجحان تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد گذشتہ تقریباً پندرہ سال سے پروان چڑھ رہا تھا۔ محمد علی جناح 1938ء میں مسلم درمیانہ طبقہ قائد اعظم اس وقت بنے تھے جب انہوں نے اپنی تقریروں اور بیانات میں اس رجحان کو اپنانے کا عندیہ دیا تھا۔

کیا قرارداد لاہور کے الفاظ کی بدولت پاکستان وجود میں آیا تھا؟

’’چودھری خلیق الزمان، عاشق بٹالوی اور نواب یامین خان جیسے بعض ایسے عناصر یہ کہتے ہیں کہ اس قرارداد کے الفاظ مبہم اور ناقص تھے‘‘۔ اس میں شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں کے مسلم اکثریت والے صوبوں کے نام نہیں لکھے گئے بلکہ یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ضروری علاقائی ردوبدل کے بعد جن خطوں میں عددی اکثریت ہے ان کو باہم ملا کر خود مختار ریاستیں بنا دی جائیں‘‘۔ چودھری خلیق الزمان کا دعویٰ ہے کہ قرارداد میں یہ ابہام و نقص محض اس لیے رہ گیا

عاشق حسین بٹالوی

تھا کہ یہ قرارداد اس نے نہیں لکھی تھی اگر حسب سابق قرارداد لکھنے کا کام اسے دیا جاتا تو قرارداد کا مفہوم نہ بگڑتا۔ اسے افسوس ہے کہ کاش ورکنگ کمیٹی کے ارکان اس کی آمد کا انتظار کرتے کہ وہ اپنے وسیع سیاسی تجربے کی بنا پر قرارداد صحیح الفاظ میں مرتب کر سکتا۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی کی وجہ سے 21 مارچ سے پہلے لکھنئو سے روانہ نہیں ہو سکا تھا۔

عاشق بٹالوی کہتا ہے کہ میں نے لیگ کونسل کے اجلاس میں اس قرارداد میں ترمیم پیش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ ’’اگر آپ لوگ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو مجوزہ مملکتوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو جہاں آپ نے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی منطقوں کا ذکر کیا ہے وہاں صاف لفظوں میں ان صوبوں کے نام لیجیے تا کہ ہمارے غاصب اور مخالف دونوں ہمارے مطالبے کی حقیقت ابھی سمجھ جائیں ورنہ علاقائی ردوبدل کے بعد پنجاب و بنگال کا تقریباً نصف حصہ کٹ جائے گا۔ میری اس ترمیم کا جواب نواب زادہ لیاقت علی خان نے یہ دیا کہ ہم علاقائی ردو بدل کے تحت دہلی اور علی گڑھ کو جو ہماری تہذیب و تعلیم کے مرکز ہیں، مجوزہ مملکت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ مطمئن رہیے علاقائی ردو بدل کا یہ مطلب نہیں کہ پنجاب کا کوئی حصہ ہاتھ سے دینا پڑے گا۔ نوابزادہ صاحب کے اس جواب پر ایوان میں خوب تالیاں بجیں۔

’’نواب یامین خان کہتا ہے کہ اس ریزولیوشن کے بنانے میں سر سکندر حیات کا کافی ہاتھ تھا اور انہوں نے اپنی زونل سکیم کو بھدے الفاظ میں درج کیا تھا‘‘۔ سید نور احمد لکھتا ہے کہ ’’سر سکندر حیات نے اس قرارداد کا ابتدائی مسودہ دراصل مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہی تیار کر لیا تھا۔ اس نے اس مسودے میں اس وقت کے حالات اور قائد اعظم کے خیالات کا رجحان دیکھتے ہوئے ملک کی تقسیم کے مطالبہ کو ایک نرم شکل میں اور اپنی پسند کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے یہ مسودہ میر مقبول محمود کے ہاتھ قائد اعظم کی منظوری کے لیے دہلی بھیج دیا۔ قائد اعظم نے اسے سبجیکٹس کمیٹی کے سامنے رکھنا منظور کر لیا۔ اسی مسودے نے مزید کانٹ چھانٹ اور تبدیلیوں کے بعد ’’قرارداد لاہور‘‘ کی صورت اختیار کر لی…… سبجیکٹس کمیٹی نے سر سکندر کی عدم موجودگی میں صوبوں کی جگہ ’’مسلم اکثریت کے علاقوں‘‘ کی اصطلاح استعمال کی کیونکہ قائد اعظم مسلمانوں کے قومی مطالبے کو صاف اور واضح طو رپر مسلم قوم کے حق خود ارادیت کی منطق پر مبنی کرنا پسند کرتے تھے‘‘۔ ان کے خیال کے مطابق اس منطق کے سوا کسی اور منطق کی بنا پر ملک کی تقسیم کا کوئی جواز نہ تھا…… پھر بھی ترمیم شدہ مسودے میں ایک آدھ لفظ ایسا رہ گیا جو اصل مسودے میں درست تھا لیکن ترمیم شدہ عبارت میں آج بھی عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً اکثریت کے علاقوں کی آزاد مملکتوں کے یونٹوں کے لیے Soveriegn(حاکمانہ حیثیت) کی اصطلاح کا استعمال…… سر سکندر نے اپنے ابتدائی مسودے میں یہ لفظ اس لیے استعمال کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ کے مقصد کو صوبائی خودمختاری کی اصطلاح میں بیان کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے نعرے کی شکل دینا چاہتے تھے جس کی تائید وہ ایک پنجابی کی حیثیت سے صوبائی حب الوطنی کے نام پر کرسکیں اور اسے اپنے غیر مسلم یونینسٹ ساتھیوں کے لیے بھی قابل قبول نہ بنا سکیں‘‘۔ یہ عناصر الزام عائد کرتے ہیں کہ اگر اس قرارداد کے الفاظ مبہم اور ناقص نہ ہوتے اور اس میں علاقائی ردوبدل کا ذکر نہ ہوتا تو 1947ء میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم نہ ہوتی، لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام نہ ہوتا اور کروڑوں لوگوں کا جبری تبادلہ آبادی نہ ہوتا۔

ایسے تخیل پسند عناصر اس قسم کی احمقانہ باتیں محض اس لیے کہتے اور لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں قوموں کی تقدیر کا فیصلہ قراردادوں کے الفاظ کے صحیح یا غلط ہونے پر ہوتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ تاریخ کا ارتقا متعلقہ معاشرے کے سیاسی و معاشی تقاضوں کے تحت ہوتا ہے اگر کسی قرارداد کے الفاظ ان تقاضوں کے مطابق ہوں تو اس کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کے الفاظ غیر مبہم اور صحیح ہونے کے باوجود ان تقاضوں کے خلاف ہوں تو اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔ برصغیر میں کون نہیں جانتا کہ 1947ء میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ اس قرارداد کو پیش نظر رکھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا فیصلہ اکالی دل کے تبادلہ آبادی کے منصوبے اور کانگریس کی مارچ 1947ء کی قرارداد کے مطابق ہوا تھا اور اس فیصلے کو قطعی شکل مئی 1947ء میں شملہ میں نہرو اور مائونٹ بیٹن کے درمیان خفیہ ملاقاتوں میں دی گئی تھی۔ وائسرائے مائونٹ بیٹن کی سیاسی لیڈروں سے گفتگو کے سرکاری ریکارڈ، جس کا کچھ حصہ ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ۔پاکستان کیسے بنا؟‘‘ جلد اول و دوئم میں بیان کیا گیا ہے، کے مطابق جناح آخری وقت تک پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی مخالفت کرتے رہے تھے اور یہ التجائیں کرتے تھے کہ انہیں کرم خوردہ پاکستان نہ دیا جائے۔ انہوں نے جون 1947ء میں مائونٹ بیٹن کو اکالی دل کے پُرتشدد منصوبے سے بھی آگاہ کر دیا تھا۔ تا ہم کانگریسی لیڈروں اور مائونٹ بیٹن کی ملی بھگت کی وجہ سے اُن کو مجبوراً پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر رضا مند ہونا پڑا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کے الفاظ خواہ کیسے ہی ہوتے 1947ء کے اوائل میں برصغیر کے فرقہ وارانہ حالات کچھ اس طرح کے ہوئے گئے تھے کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ مسلمانوں کے اصرار کی وجہ سے ہندوستان متحد نہیں رہ سکتا تھا اور ہندوئوں اور سکھوں کی ضد کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بغیر برصغیر کی تقیسم نہیں ہو سکتی تھی۔ قتل و غارت اور خون خرابہ دونوں صورتوں میں ہی ناگزیر تھا۔

جیسا کہ عاشق بٹالوی نے بتایا ہے اس قرارداد کی ترتیب و تدوین میں محمد علی جناح اور ملک برکت علی جیسے اعلیٰ پایہ کے وکلاء نے حصہ لیا تھا۔ لہٰذا قرارداد کے الفاظ کے نقائص ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتے تھے۔ انہوں نے اس کے الفاظ کو مبہم اس لیے رکھا تھا کہ وہ اس وقت سنجیدگی سے اس پر عملدرآمد کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ نواب یامین خان کے بیان کے مطابق جناح نے یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے مکان پر ایک کھانے کے دوران مطالبہ پاکستان کو محض کانگریس سے سودے بازی کے لیے اپنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کے بغیر کانگریس قابو میں نہیں آئے گی۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ کی کتاب سے یامین خان کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ’’اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا حقیقت نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان گویا ان کا ناقابل تردید حق ہے۔ جسے اب تک انہوں نے استعمال نہیں کیا۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں کا بدستور یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتہ ہو جائے گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ کلچرل، ہستی برقرار رکھ سکیں گے۔ قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے جب میں پہلی بار (اکتوبر 1941ء ) میں ان سے ملی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ کینڈا کا آئین ہمارے مسائل کا بہترین حل ہے۔ قرارداد پاکستان کے بعد وہ سات سال تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے باہمی سمجھوتے کی بات چیت کرتے رہے اور اس دوران میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتہ ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریس لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر تھی‘‘۔

پاکستان کی بیوروکریسی کے ایک اعلیٰ رکن سید ہاشم رضا کے بیان سے اس موقف کی تائید مزید ہوتی ہے۔ یہ شخص 14اگست 1947ء کو انتقال اقتدار کے موقع پر کراچی کا ایڈمنسٹریٹر تھا اور اس حیثیت سے اس نے افسر تقریبات کے فرائض بھی سر انجام دیئے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب قائد اعظم تقریب گاہ میں تشریف لائے تو مہمانوں سے ان کی ملاقات کرانے کا شرف بھی مجھ کو ہی حاصل ہوا۔ جب میں بابائے قوم کو لے کر اس میز پر پہنچا جس پر غیر ملکی اخباری نمائندے بیٹھے تھے تو نیویارک ٹائمز کے نمائندہ خصوصی نے بڑھ کر بابائے قوم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وفور عقیدت سے ان کا ہاتھ زور سے دبا کر بے ساختہ پکار اٹھا۔ قائد اعظم میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آخر کار آپ نے پاکستان لے ہی لیا۔ قائد اعظم نے یہ جملہ سن کر امریکی صحافی کا ہاتھ جھٹک دیا اور اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں نے اکیلے پاکستان حاصل نہیں کیا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں میرا، ایک روپے میں صرف دو آنے حصہ تھا۔ اس تگ و دو میں برصغیر کی مسلم قوم کا حصہ روپے میں چھ آنے کے برابر تھا اور قیام پاکستان میں اس برصغیر کی ہندو قوم کا حصہ روپے میں سے آٹھ آنے کے برابر تھا۔ امریکی صحافی قائد اعظم کے اس غیر متوقع ارشاد سے چونک اٹھا مگر بابائے قوم نے اس کی حیرت اپنی وضاحت سے دور کر دی۔ بابائے قوم نے فرمایا۔ جس زمانے میں مصر میں سعد زاغلول پاشا کی حکومت تھی۔ مصر کے عیسائیوں نے اپنے حقوق کے تعین کے لیے تحریک شروع کر دی۔ ان کا تناسب آبادی 13فیصد تھا۔ لیکن وہ 20فیصد کے تناسب سے حقوق مانگتے تھے اور یہ قضیہ روز بروز سنگینی اختیار کر رہا تھا۔ سعد زاغلول پاشا نے اپنی پارٹی کا اجلاس طلب کیا اور اس میں اپنا یہ فیصلہ منظور کروالیا کہ عیسائیوں کے ساتھ وہ خود اس مسئلے کا تصفیہ کر لیں گے۔ چنانچہ اپنی پارٹی سے یہ اختیار حاصل کر کے انہوں نے عیسائیوں کے مطالبے کا فیصلہ کرنے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کی۔ یہ گول میز کانفرنس قاہرہ میں منعقد ہوئی۔ ابھی اس کانفرنس میں ایک ہی عیسائی نمائندے نے تقریر کی تھی کہ سعد زاغلول پاشا نے اسے ٹوک دیا اور کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ عیسائی حقوق کے سلسلے میں 20فیصد تناسب کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ہم انہیں تیرہ فیصد کی بجائے 25 فیصد تناسب کا حق دیتے ہیں۔ سعد زاغلول پاشا کا یہ اعلان عیسائیوں کے لیے عید کی خوشی کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ انہوں نے مسلمان حکمران لیڈر کو بے حد خراج تحسین پیش کیا۔ گول میز کانفرنس ختم ہو گئی۔ یہ 1923ء کا زمانہ تھا۔ اس کو اب ربع صدی گذر چکی ہے اور مصر میں اس دن کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین کوئی بدمزگی یا کسی قسم کی کشیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ کیونکہ عیسائی 25 فیصد تناسب حاصل کر کے بھی 75 فیصد مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ قائد اعظم نے فرمایا۔ بعینہ یہی مسئلہ برصغیر کا بھی تھا۔ مسلمان بلحاظ تناسب آبادی ہندو قوم سے کہیں زیادہ اقلیت میں تھے۔ اگر ہندو قیادت بھی سعد زاغلول پاشا جیسی فراخدلی کا عملی ثبوت پیش کرتی تو مسلمانان برصغیر کو علیحدہ اور خود مختار وطن حاصل کر کے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی۔ جناح کی اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہندوئوں کی قیادت مسلم اقلیت کے ساتھ فراخدلانہ سلوک کرتی اور مسلم لیگ کے ساتھ مناسب سمجھوتہ کر لیتی تو قرارداد پاکستان کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی اور اگر یہ قرارداد منظور ہو ہی گئی تھی تو اس پر عملدرآمد کی نوبت نہ آتی۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ کے بیان کے مطابق اس قرارداد کے بعد جناح سات سال تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے باہمی سمجھوتے کی بات چیت کرتے رہے تھے‘‘۔

قرارداد لاہور کے حوالے سے نواب سید شمس الحسن نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ:

’’اصل قرارداد میں لفظ’’States(ریاستیں) تھا‘‘۔ ریاستوں کا تصور اس لیے تھا کہ پنجاب اور بنگال پورے صوبے ایک یونٹ کی حیثیت سے آزاد ہوں گے تو ظاہر ہے بنگال اگر تقسیم نہ ہوتا اور اگر ایسٹ اور ویسٹ مل کر آزاد ہوتے تو وہ خود ایک بہت بڑا یونٹ ہوتا۔ اس لیے ’’States‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ بعد میں چودھری خلیق الزمان صاحب کو یہ خیال آیا اور انھوں نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا کہ اس تجویز میں ایک یہ خلا رہ گیا ہے کہ لفظ ’’States‘‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو الگ حکومتیں ہوں گی۔ گویا اس کو درست کرنا چاہیے؟ یہ سوال چودھری صاحب نے اٹھایا تھا اور یہ خط خود خلیق الزمان صاحب نے

نواب شمس الحسن

مجھے سنایا تھا جو قائد اعظم کو بھیجا گیا تھا‘‘۔ ’’جب جناح صاحب کو خود یہ انکشاف ہوا کہ غالباً صوبہ جاتی بُنیادوں پر پورا علاقہ آزاد نہیں ہو گا تو 1946ء کے دہلی کنونشن میں اُسے درست کیا گیا۔ کیونکہ قائد اعظم کو احساس ہو گیا تھا کہ ہم پورے پنجاب اور بنگال کو شاید آزاد نہیں کرا سکیں گے اس لیے کُچھ قربانی دینی پڑے گی‘‘۔ ’’قرارداد لاہور کے حوالے سے بہت سے میرے ہندو دوست احباب سمجھتے تھے کہ قائد اعظم نے محض بارگیننگ (Bargaining) کے لیے یہ قدم اٹھایا تا کہ مشترکہ حکومت کی کوئی بہتر صورتِ حال نکل آئے مگر میں انھیں سمجھاتا تھا کہ قبل ازیں اتحاد کی بہت سی ناکام کوششیں ہو چکیں ہیں‘‘۔

معروف بھارتی صحافی کلدیب نیّر نے بھی اپنی کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے صفحہ 43،44 پر چودھری خلیق الزمان کے حوالے سے قراردادِ لاہور میں لفظ’’State‘‘ کے استعمال کے پس منظر کے حوالے سے بحث کی ہے۔

’’(کلدیب نیّر کی یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی)‘‘

جہاں تک قراردادِ پاکستان کو بطور سیاسی حکمت عملی استعمال کرنے کا پہلو ہے تو غالباً قائد اعظم ایک ’’کٹا پھٹا‘‘ پاکستان نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے 1946ء میں وزارتی مشن منصوبے کو بھی قائد اعظم نے قبول کر لیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت مزید دس سال تک ایک مرکزی حکومت کے زیر انتظام صوبائی حکومتیں چلائی جاتیں‘‘۔ 6 جون کو رات گئے آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد کے ذریعے وزارتی مشن منصوبہ کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس قرارداد میں مشن کی جاری کردہ دستاویز کے ابتدائیہ میں مطالبہ پاکستان کے خلاف جو موقف اختیار کیا گیا تھا اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ آل انڈیا مسلم

کلدیپ نائر

لیگ اعادہ کرتی ہے کہ پوری طرح خود مختار پاکستان کے حصول کا مقصد بھی مسلمانانِ ہند کا ناقابلِ ترمیم نصب العین ہے۔ جس کے حصول کی خاطر اگر ضروری ہوا تو وہ اپنے بس میں سارے ذرائع بروئے کار لائیں گے اور کسی قربانی یا تکلیف کو خاطر میں نہ لائیں گے‘‘۔ تا ہم مشن منصوبہ قبول کرنے کے دو وجوہ بیان کی گئیں۔ اول یہ کہ ’’مسائل بہت سنگین ہیں اور مسلم لیگ ان کے پُر امن حل کی خواہاں ہے‘‘۔ دوئم یہ کہ منصوبے میں پاکستان کے قیام کی بُنیاد موجود ہے کیونکہ مسلم اکثریت کے چھ صوبوں کی دو گروپوں ’’ب‘‘ اور ’’ج‘‘ کی صورت میں لازمی گروپنگ کی گئی ہے۔ کونسل نے امید ظاہر کی کہ ’’بالآخر یہ منصوبہ مکمل طو رپر خودمختار پاکستان کے قیام پر منتج ہو گا‘‘۔

’’(’’پاکستان کیسے بنا‘‘۔ زاہد چوہدری، صفحہ 410)‘‘

اس اقتباس کے بعد صاحب کتاب اسی صفحے پر لکھتے ہیں:

’’مسلم لیگ نے پاکستان کے نام پر وزارتی مشن منصوبہ قبول کر کے اگر مطالبہ پاکستان سے دست برداری اختیار نہیں کی تھی تو کم از کم اس کے حصول کو دس سال کے لے ملتوی ضرور کر دیا تھا کہ مجوزہ منصوبے میں دس سال کے بعد ہی آئین میں ترمیم ممکن تھی۔ ان حالات میں جب کہ مسلمان عوام الناس کی امنگیں آزاد پاکستان کے حصول کے لیے ولولہ انگیز تھیں، برصغیر ہند کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے جناح اور مسلم لیگ کی جانب سے اس سے بڑھ کر پُر خلوص کاوش اور کیا ہو سکتی تھی‘‘؟ دراصل یہ کانگریس ہی تھی جس نے اس منصوبے کو تسلیم کرنے میں لیت لعل سے کام لیا اور انجامِ کار فیصلے کا اختیار اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔

یقیناً قائد اعظم اور مسلم لیگ نے کانگریس کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کیا اور اپنے پتّے زیادہ بہتر انداز میں کھیلے۔

اس حوالے سے ہر ذی شعور قائد اعظم کے قائدانہ کردار کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ کلدیب نیّر اپنی کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے صفحہ 46 پر لکھتے ہیں کہ ’’اگر کانگریس نے کرپس کی تجویز کو مان لیا ہوتا تو ہندوستان کو تقسیم سے بچا لیا ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ تجویز میں تقسیم کے بیج موجود تھے لیکن کرپس نے جس وفاقی ڈھانچے کی تجویز دی ہے وہ کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک ملک کے لیے اکٹھے کام کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔ اس کے معنی برطانیہ کی نیک نیتی پر بھروسہ کرنا تھا لیکن یہ سب عارضی ہوتا۔ ہر شخص دیکھ سکتا تھا کہ جنگ کے بعد لندن کسی طرح بھی اس پوزیشن میں نہ ہو تا کہ انڈیا پر اپنا قبضہ قائم رکھ سکتا‘‘۔

اس ساری بحث سے ہم چند نکات اخذ کر سکتے ہیں۔
(۱)قراردادِ لاہور کوئی مقدس دستاویز نہیں تھی کہ جس میں کسی قسم کی تبدیلی ناممکن تھی۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ دراصل یہی قرارداد آگے چل کر پاکستان

کی بُنیاد ثابت ہوئی۔ بطور سیاست دان قائد اعظم کا برصغیر کی سیاست میں یہ قدم انگریزوں، ہندوئوں اور اُن کے ہم نوائوں پر بہت بھاری ثابت ہوا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے تحریکِ پاکستان میں قراردادِ لاہور کا کلیدی کردار ہے۔

(۲)وزارتی مشن کی تجاویز کو مسلم لیگ نے 6جون1946 کو منظور کر لیا تھا۔ اس مشن کا مرکزی نقطہ نظر یہ تھا کہ’’برصغیر میں مسلم اکثریت والے علاقوں کو خود مختاری بھی مل جائے اور ہندوستان کی وحدت بھی قائم رہے‘‘۔ ’’یہ نظام دس سال تک جاری رہے گا اور اس میعاد کے بعد اس میں ترمیم یا تبدیلی کی جا سکے گی‘‘۔

(پاکستان کی سیاسی تاریخ(۵) صفحہ 386)

یہ دراصل کانگریس اور اس کے ہندو رہنما تھے جنھوں نے اس منصوبے کو سبوتاز کیا لہٰذا یہاں بھی مسلم لیگ اور قائد اعظم کی سیاسی حکمت عملی کامیاب ٹھہری جسے اپنے پرائے سب مانتے ہیں۔

اب آتے ہیں اُس معاملے کی طرف کہ’’کیا قراردادِ لاہور کا مسودہ انگریز کی منظوری سے سر ظفر اللہ نے تیار کیا تھا‘‘؟ زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی کی مرتب کردہ کتاب’’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘ جلد ۵ کے صفحہ 304 تا 312 پر اس معاملے کو ’’قرارداد لاہور کے محرکات کے متعلق ولی خاں کی غلط بیانی۔۔۔۔۔ایک عملی بددیانتی‘‘ کے عنوان سے بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ زاہد چودھری لکھتے ہیں:

”پاکستان کے ایک سیاستدان عبد الولی خان نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ انگریزوں نے برصغیر کو اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کی خاطر تقسیم کیا تھا اور پاکستان انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، دسمبر 1981 میں پاکستان کے اخبارات میں دعویٰ کیا کہ اُس نے انڈیا آفس لائبریری میں ایک ایسی دستاویز دیکھی ہے جس سے اُس کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔ پھر اُس نے اپنی کتاب Facts are Facts میں اس دستاویز کو نقل کیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ نے دراصل انگریزوں کے ایما پر قرارداد لاہور منظور کی تھی۔ ولی خان کے مطابق برصغیر کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ وائسرائے کے کہنے پر اس کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن ظفر اللہ خان نے تیار کیا تھا۔ اس کے مسودے کی نقل جناح کو بھیجی گئی اور وزیر ہند کو برطانیہ بھی بھیجی گئی۔ اس سارے فسانے کی بنیاد وہ ایک خط کو بناتا ہے جو قرارداد لاہور کی منظوری سے 12 روز پیشتر 12 مارچ 1940 کو وائسرائے لارڈ لنلتھگو(Linlithgow) نے وزیر ہند لارڈ زیٹ لینڈ(Zetland) کو لکھا تھا۔ ولی خان نے اپنی کتاب میں اس کا متن یوں نقل کیا ہے:

ترجمہ:۔’’میری ہدایت پر ظفر اللہ نے دو ڈومینین ریاستوں کے عنوان سے ایک یاد داشت تحریر کی ہے۔ میں اسےآپ کے ملا حظہ کے لیے پہلے ہی ارسال کر چکا ہوں۔ میں نے اس سے مزید وضاحتیں طلب کی ہیں جو وہ کہتا ہے کہ مہیا کر دی جائیں گی۔ تا ہم وہ اس بارے میں متردد ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ یہ منصوبہ اُس نے تیار کیا ہے۔ البتہ اُس نے مجھے یہ اختیار دیا ہے کہ میں اس مسودے کو جس طرح چاہوں استعمال میں لے آئوں اور یہ کہ اس کی نقل آپ کو بھیج دوں۔ اس کی نقلیں جناح اور میرا خیال ہے اکبر حیدری کو بھی بھیجی گئی ہیں۔ اب جبکہ ظفر اللہ اپنی دستاویز کی تصنیف کا اعتراف نہیں کر سکتا، یہ دستاویز اس لیے تیار کی گئی ہے کہ مسلم لیگ اس نقطہ نگاہ کے ساتھ اختیار کر لے گی کہ اس کی خوب تشہیر کی جائے‘‘۔

اب حقیقت حال یہ ہے کہ 12مارچ 1940 کو وائسرائے لنلتھگو کی جانب سے وزیر ہند زیٹ لینڈ کے نام لکھا گیا اصل خط جو انڈیا آفس لائبریری کے ریکارڈ میں موجود ہے اس کا متن ولی خان کے نقل کردہ متن سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اصل خط کی عبارت یوں ہے:۔

ترجمہ:۔’’میں نے پچھلی مرتبہ بیگ میں ڈومینین کے درجہ کے بارے میں ظفر اللہ کے نوٹ کی نقل بھیجی تھی اور میں نے اس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس دستاویز سے نسبتاً انتہا پسندانہ نقطہِ نظر مترشح ہوتا ہے۔ یہ بات میں نے اس لیے کہی تھی کہ اُس وقت تک مجھے اس کی صحیح نوعیت کے بارے میں اُس کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور اس میں شامل بعض تجاویز، اگر میری کونسل کے ایک رُکن کے نام سے رسمی طو رپر پیش ہوتیں تو میرے خیال میں ان الفاظ میں وضاحت کا جواز مہیا کرتی تھیں۔ میں نے کل اُس سے کہا کہ مجھے اس کے بارے میں ذرا کچھ تفصیل سے آگاہ کرو تو اُس نے مجھے بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مسودہ ہے، دوسرے یہ کہ اگر اس معاملے میں اُسے تحفظ دیا جائے اور اس استاویز کا استعمال مشتہر کر کے نہ کیا جائے تو پھر میں جیسے چاہوں اس کو استعمال میں لا سکتا ہوں اور اس نقل آپ کو بھی بھیج سکتا ہوں، تیسرے یہ کہ اس دستاویز کی نقول جناح اور غالباً حیدری کو بھی دی گئ ہیں اور چو تھے یہ کہ اب جبکہ وہ یعنی ظفر اللہ بلاشبہ اس دستاویز کے مصنف ہونے کا اعتراف نہیں کر سکتا، یہ دستاویز اس لیے تیار کی گئ ہے کہ مسلم لیگ اس کی خوب تشہیر کرنے کے نقطہِ نگاہ سے اسے اختیار کرے۔ میں اب بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اسے پوری طرح سمجھ گیا ہوں اور میں بہتر سمجھوں گا کہ اس پر اپنی رائے مئوخر کر دوں۔ تا ہم یہ خاصا قابلِ قدر کام ہے اور میں اس کے بارے میں آپ کے ردّ عمل میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں‘‘۔

ولی خاں کے متن اور اصل متن کی عبارتوں کا موازنہ کرنے سے ولی خاں کی بد دیانتی خود بخود کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ولی خاں کی پہلی بد دیانتی یہ ہے کہ اُس نے تحقیق کے مروجہ قواعد کے مطابق اپنی کتاب میں نقل کردہ متن کا حوالہ ہی نہیں دیا جبکہ انڈیا آفس لائبریری اینڈ ریکارڈ کی تمام فائلوں اور ان میں شامل دستاویزات کے باقاعدہ نمبر لگے ہوئے ہیں اور ان کا حوالہ دینا بہت آسان ہے۔ اُس کی دوسری بد دیانتی یہ ہے کہ اُس نے اصل عبارت سے پوری کی پوری سطریں حذف کر کے ان کی جگہ اپنی طرف سے سطریں لکھ دی ہیں اور پھر ان ہی سطروں کو بنیاد بنا کر ایک خیالی سازش کا محل کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ ’’Dominion Status‘‘ یعنی ’’ڈومینین کا درجہ‘‘ کے الفاظ کو’’Two Dominion States‘‘ یعنی ’’ڈومینین ریاستوں‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کر دیا ہے اور پھر اپنے پاس سے یہ اضافہ بھی کر دیا ہے کہ ’’Upon my instruction Zafarullah wrote a memorandum‘‘ حالانکہ اصل متن میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ وائسرائے کی ہدایت پر ظفر اللہ نے یہ دستاویز تیار کی تھی۔ بلکہ اس کے برعکس وائسرائے اس دستاویز کے مندر جات کا پوری طرح احاطہ ہی نہیں کر سکا تھا۔ گویا خود ہی ترمیم و اضافہ کے یہ لکھا کہ’’وائسرائے کے کہنے پر ظفر اللہ نے دو ڈومینین ریاستوں کے قیام کا منصوبہ تیار کر کے کیا‘‘ اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ قرارداد لاہور کے پسِ پشت انگریزوں اور قادیانیوں کی سازش کار فرما تھی۔

ولی خاں کی تیسری اور سب سے بڑی بد دیانتی یہ ہے کہ اُس نے ظفر اللہ کی دستاویز کا کوئی حوالہ دے کر یہ نہیں بتایا کہ اُس نے اس دستاویز میں کیا لکھا تھا۔ اُس نے اس دستاویز سے ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا جس پر اُس نے اتنا طومار باندھا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس دستاویز میں کیا لکھا گیا ہے۔ 32 صفحات پر مشتمل ظفر اللہ خاں کا یہ نوٹ ہندوستان اور برطانوی دولت مشترکہ میں رہتے ہوئے ایک ڈومینین کی حیثیت سے خودمختار درجہ دیئے جانے کے بارے میں اُن مباحث کا ایک حصہ تھا جو اُس وقت ہندوستان اور برطانیہ میں جاری و ساری تھے۔ اُس مباحث کا پس منظر یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ سے بہت پہلے 1929 میں برطانوی حکومت نے ہندوستان کو ڈومینین کی حیثیت دیئے جانے کا حق تسلیم کر لیا تھا اور پھر 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بھی اس کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی۔ تا ہم کانگریس جس نے 1928 کی نہرو رپورٹ میں ڈومینین کی حیثیت کا مطالبہ کیا تھا بعد میں مکمل آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی تھی۔ چنانچہ 30 کے عشرے میں برطانوی حکومت کی جانب سے ہندوستان کو ڈومینین کا درجہ دیئے جانے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی رہیں۔ جبکہ کانگریس مکمل آزادی کا مطالبہ کرتی رہی۔ 26 اکتوبر 1939 کو لارڈ پریوی سیل یعنی وزیر مہر شاہی سر سیموئیل ہور (Samual Hoare) نے دارالعوام میں بیان دیا کہ ہندوستان کو ویسا ہی ڈومینین کا درجہ دیا جائے گا جیسا کہ برطانوی دولت مشترکہ میں دوسری ڈومینینوں کو حاصل ہے۔ اس کے بعد 10 جنوری 1940 کو وائسرائے لنلتھگو نے اوریئنٹ کلب بمبئی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی ڈومینین کی حیثیت وہی ہو گی جو برطانوی دارالعوام کا قانون یعنی Statue of Westminister میں رکھی گئی ہے۔ اور یہ جنگ کے خاتمہ کے فوراً بعد جس قدر جلد ممکن ہُوا ہندوستان کو ڈومینین کا درجہ دے دیا جائے گا۔ اس تمام عرصہ کے دوران مسلم لیگ کی جانب سے یہ سوال اُٹھایا جاتا رہا کہ ڈومینین ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے مقابلے میں کیا تحفظات حاصل ہوں گے اور یہ کہ جب تک یہ تحفظات حاصل نہیں ہوں گے مسلم لیگ کسی آئین کو تسلیم نہیں کرے گی اور یہ تمام بحث متحدہ ہندوستان کے دائرے ہی میں رہی۔ فروری 1940 میں ظفر اللہ خان نے اسی بحث کے تسلسل میں متذکرہ نوٹ تیار کیا اور ایک نقل جناح کو بھیج دی۔ ہندوستان کو ڈومینین کی حیثیت سے آزادی ملنے کی صورت میں مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی جانب سے ممکنہ خطرات کے پیش نظر اُس وقت مسلمانوں کے مابین کئی سکیموں پر بحث جاری و ساری تھی جیسا کہ اس باب کے اوائل میں ذکر کیا گیا ہے۔ دیگر سکیموں کے علاوہ ان میں ایک پاکستان سکیم تھی، دوسرے مشرقی و مغربی خطوں میں علیحدہ علیحدہ وفاق بنانے کی سکیم تھی اور تیسرے ڈومینین ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری پر مبنی سکیم تھی۔ یہ تمام سکیمیں مسلم رائے عامہ کے حلقوں میں پہلے سے کُھلے عام زیرِ بحث تھیں، انہیں ظفر اللہ نے خفیہ طور پر پیش نہیں کیا تھا۔ اُس نے متذکرہ نوٹ میں ان سکیموں کا فقط موازنہ پیش کیا اور اپنے حتمی
تجزیئے میں متحدہ ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے فریقین کے مابین ہم آہنگی کی صورت میں کسی حل کی توقع ظاہر کی۔

ظفر اللہ نے اس نوٹ میں پاکستان سکیم کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے لکھا۔ ’’مسلم رہنمائوں نے مایوسی اور مضطراب سے دوچار ہو کر متعدد منصوبے وضع کئے ہیں۔ جن میں سے بعض کو انہوں نے اس مشکل اور انتہائی پیچیدہ صورت حال کے مداویٰ کے طو رپر پیش بھی کیا ہے جس کا اُن کو سامنا ہے۔ مثلاً ایک پاکستان سکیم ہے جس کا وسیع معنوں میں مقصد ہندوستان کو مسلم اور غیر مسلم حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس میں مسلم حصے کو پاکستان قرار دیا گیا ہے۔ اس سکیم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ بھاری تعداد میں تبادلہِ آبادی کو عمل میں لایا جائے گا۔ اس پر عملدرآمد کی صورت میں جو اخراجات ہوں گے، جو پریشانی، اذیت اور ہولنک دہشت درپیش ہو گی اور ہندوستان میں جس وسیع پیمانے پر یہ سب کچھ ہونا ناگزیر ہو گا، فقط اُس کا تصور ہی اس سکیم کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہم وثوق سے سمجھتے ہیں کہ یہ سکیم بالکل ناقابل عمل ہے اور اس سے سوائے پریشانی اور مصیبت کے اور کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا اور

سر ظفراللہ خان

یوں ہندوستان کے مسائل کے حل میں اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ وہ لوگ جو اس سکیم کی وکالت کر رہے ہیں، انہوں نے تصویر کے صرف ایک رخ کو مد نظر رکھا ہے، وہ بعض ایسی چیزوں کو تحفظ دینے کی واحد خواہش سے مغلوب ہو گئے ہیں جو مسلمانوں کو بہت عزیز ہیں مگر وہ اس سکیم کے قابل عمل ہونے کے پہلو کو نظر انداز کر گئے ہیں۔ اس سکیم پر ایک اور بڑا سنگین اعتراض یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستان میں مسلم عقیدے اور ثقافت کا فروغ چند جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہو کر ر جائے گا، اس سے بڑھ کر مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ یہ ہندوستان کی ہندو آبادی کے اُن افراد کے لیے کوئی حل مہیا نہیں کرتا جو ملک کی دو حصوں میں تقسیم اور تبادلہِ آبادی پر عملدرآمد مکمل ہونے کے بعد مشرف بہ اسلام ہوں گے۔ ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ اس سکیم پر تفصیلی تنقید کی جائے کیونہ ہم وثوق کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کا تنقیدی جائزہ اُن لوگوں کی جانب سے لیا جائے جنہوں نے اسے پیش کیا ہے تو اس سکیم کے پورے طو رپر ناقابل عمل ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہو گا‘‘۔

اس سارے قضیے میں 12 مارچ 1940 کو وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Linlithgow) کا وزیر ہند لارڈ زیٹ لینڈ (Zetland) کو لکھے گئے خط کا وہ حصہ معاملے کو قدرے مشکوک بناتا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ’’اس دستاویز کی نقل جناح اور غالباً حیدری کو بھی دی گئی ہیں اور چوتھے یہ کہ اب جبکہ وہ یعنی ظفر اللہ بلاشبہ اس دستاویز کے مصنف ہونے کا اعتراف نہیں کر سکتا، یہ دستاویز اس لے تیار کی گئی ہے کہ مسلم لیگ اس کی خوب تشہیر کرنے کے نقطہِ نگاہ سے اسے اختیار کرے‘‘۔

وائسرائے کے خط کے اسی حصے کو بُنیاد بنا کر ولی خاں صاحب نے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کیے۔ لیکن جیسا کہ ہم نہایت تفصیل سے قرارداد لاہور کے پس منظر اور پیش منظر کو زیرِ بحث لا چکے ہیں۔ اسی طرح سر ظفر اللہ کے مذکورہ نوٹ پر بات ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب یہ بات بڑی حد تک واضح ہے کہ (۱) قراردادِ لاہور خالصتاً قائد اعظم اُن کے رُفقا اور مسلم لیگ کی کوشش تھی۔ (۲) غیر جانبداری سے اگر تقسیم ہند کے زمانے کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ بقول سرظفر اللہ ’’اگر قائد اعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا‘‘۔

قرارداد لاہور کے حوالے سے اتنی وضاحت و صراحت کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرار داد لاہور کو انگریز حکمرانوں کی منظوری سے سر ظفر اللہ سے لکھوائے جانے کے حوالے سے ڈاکٹر مبارک علی صاحب کا موقف کمزور ہے لیکن اُن کے ان سوالات پر غور کیجئے’’جب 1956 کا آئین بنا ہے تو اُس وقت جا کے 23 مارچ کی اہمیت ہوتی ہے اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس دن کو یومِ جمہوریہ کے طور منایا جائے‘‘۔ ’’ابتدا میں 23 مارچ کو یومِ جمہوریہ منایا جاتا تھا لیکن جب فوجی حکومتوں نے جمہوریت کو پامال کیا تو ہمارے طبقے یومِ جمہوریہ کو بھول گئے۔ جب ان کی ناکامیاں زیادہ بڑھیں تو پھر یومِ جمہوریہ کو یومِ پاکستان بنا کر لوگوں کو ایک بار پھر اپنی نام نہاد جدوجہد سے آگاہ کرنا شروع کر دیا‘‘۔ پروفیسر یوسف حسن کے الفاظ میں پاکستان کا پہلا آئین جو 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا اور اسکے ساتھ ہی پاکستان ایک نو آبادیاتی درجے کی ریاست سے ایک اسلامی ری پبلک آف پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔ گویا ایک مکمل آزاد ریاست بن گیا۔ یہی دن ہمارا یوم جمہوریہ ہے۔ یہ یوم جمہوریہ 1956، 1957 اور پھر 1958ء میں بھی بڑے جشن کے ساتھ منایا گیا مگر اکتوبر 1958ء میں ملک گیر مارشل لاء لگ گیا تو اس کے بعد یومِ جمہوریہ منانے کا یہ قومی سلسلہ ٹوٹ گیا اور اب تک یوم جمہوریہ کے بجائے یومِ پاکستان چلا آ رہا ہے۔ کسی جمہوری سیاسی جماعت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ اپنا ایک آئینی اور عظیم دن یعنی یوم جمہوریہ مناسکے۔ اب صرف اور صرف خود جمہوریت پسند عوام ہی اس عظیم روایت کو بحال کر سکتے ہیں‘‘

ڈاکٹر مبارک علی کے الفاظ شاید قراردادِ پاکستان کے حوالے سے مناسب معلوم نہ ہوں مگر پروفیسر یوسف حسن اور اُن کے سوالات قراردادِ پاکستان کے حوالے سے اپنی جگہ پر نہایت اہم اور جواب طلب ہیں جن پر بات کرنے کے بجائے شامی صاحب اور اُن کے ہم نوائوں نے شور و غوغا برپا کر دیا۔ اسی شور و غل میں اصل حقیقت کہیں گُم ہو کر رہ گئی۔

اب حقیقت یہ ہے کہ 23 مارچ 1940 کی قرار داد پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلّمہ ہے مگر کیا 23 مارچ 1956 کے یومِ جمہوریہ کی کوئی اہمیت نہیں؟ اس حوالے سے اگر ڈاکٹر مبارک علی نے سوال اٹھایا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟جہاں تک قراردادِ لاہور کے سرطفر اللہ خان سے لکھوائے جانے کا سوال ہے اس پر تو خود ڈاکٹر مبارک علی کا اپنا کہنا بھی یہی ہے کہ ’’وقت کے ساتھ ساتھ جب مزید شہادتیں ملیں گی تو پھر اس بیانیے کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ مستند ہے‘‘

اتنی سی بات پر پاکستان کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے اخبارات میں اُودھم مچائے رکھا۔ ڈاکٹر مبارک علی سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اُن کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملانا بھی ضروری نہیں ہے۔ مگر جس طرح اُن کے خلاف شامی صاحب نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک محاذ کھڑا کیا اور تفاخر اور نرگسیت کا رویہ اختیار کیاوہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
وہ لکھتے ہیں:

’’کئی برس پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں ڈاکٹر صاحب موصوف، ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم، سید منور حسن صاحب اور مجھے یاد کیا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تھا کہ اگر آپ 1946 میں ووٹر ہوتے تو کس کو دیتے؟ انہوں نے دھڑلے سے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف ووٹ دیتا۔ اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ پاکستان ایک ووٹ کی اکثریت سے تو قائم نہیں ہوا کہ اگر آپ اسے ووٹ نہ دیتے تو یہ نہ بنتا۔

غیر رسمی گفتگو میں یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ اگر مولانا ابو الکلام آزاد جیسے عبقری کا ووٹ پاکستان کو نہیں روک سکا تو کسی ’’چمپو‘‘ کا ووٹ کیسے روک لیتا۔

وہ دن جائے اور آج کا آئے، ڈاکٹر صاحب مجھ سے کنّی کتراتے ہیں‘‘۔

اب شامی صاحب سے گذارش ہے کہ اتفاق سے مجھے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے مذکور ہ پروگراموں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ شامی صاحب کا طریقہِ واردات یہ تھا کہ آواز اور لب و لہجہ کو بلند آہنگ رکھ کر حاوی ہونے کی کوشش کی جائے۔

رہ گئی بات ’’چمپو‘‘ ہونے کی تو ڈاکٹر مبارک علی اور آپ کا کوئی موازنہ ہی کیا ہے؟

ماسوائے بھٹو کے ابتدائی زمانے کے مارشل لا کے دوران جیل کاٹنے اور مقدمہ بُھگتنے کے آپ کے کریڈٹ پر کیا ہے؟

ضیا کے سیاہ دور میں آپ اُس کے کاسہ لیس تھے جبکہ عام صحافی اور سیاسی کارکُن کوڑے کھا رہے تھے۔

نواز شریف کی مدد سےروزنامہ ’’پاکستان‘‘ پر قبضہ البتہ ضرور آپ کا کارنامہ ہے۔

بقول شخصے، واقفانِ حال بیان کرتے ہیں کہ عمران خان کے مشہور زمانہ دھرنے کے دوران جاوید ہاشمی اور نواز شریف حکومت کے درمیان معاملات طے کرانے میں بھی آپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور منہ مانگے’’انعامات‘‘ سے نوازے گئے۔

آپ کے ٹی وی پروگراموں سے بھی اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مذکورہ وقوع سے پہلے اور بعد میں آپ کے موقف میں کس طرح تبدیلی آئی۔

رہ گئی آپ سے کنی کترانے کی تو کیا آپ منہ سے آگ نکالتے ہیں کہ آپ سے کنی کترایا جائے۔ دو دفعہ تو مجھے آپ کے روبرو انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی
مجھے تو ایسا کُچھ محسوس نہیں ہوا۔ البتّہ آپ کو دو بدو گفتگو کا بہت شوق ہے تو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اسلام آباد کے چیف ایڈیٹر اور روز ٹی وی کے مالک سردار خاں نیازی سے آپ کے مکالمے کا بندوبست میں کسی ٹی وی چینل پر با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ پھر پتا چل جائے گا کون کنّی کتراتا ہے اور کون کنّی پکڑاتا ہے۔

حامد میر کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ انھوں نے شاید ڈاکٹر مبارک علی کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی ورنہ وہ ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے اتنا سطحی، جذباتی اور بودا کالم نہ لکھتے۔ جہاں تک سجاد میر صاحب کا تعلق ہے ماشا اللہ جتنی ’’بے برکتی‘‘ اُن کی تحریر میں ہے شاید ہی وہ کسی نمایاں کالم نگار کو نصیب ہوئی ہو۔ سجاد میر صاحب نے ڈاکٹر مبارک علی کے خلاف جو زبان استعمال کی اُس سے خود میر صاحب کا تشخص مجروح ہوا۔ تاثر یہ تھا کہ وہ کروضع دار، مناسب گفتگو کرنے والے شخص ہیں مگر تعصب میں وہ رکھ رکھائو بھی بھول گئے ۔

جہاں تک ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا تعلق ہے اُن کے حوالے سے اپنی کتاب’’میڈیا منڈی‘‘ سے میں ایک اقتباس درج کرنا چاہوں گا جس سے اُن کی شخصیت زیادہ واضح ہو جائے گی۔

’’کالم نویسوں میں ایک’’بشارتی یا خوابی‘‘ گروپ بھی موجود ہے۔ ان حضرات کو حالاتِ حاضرہ کے متعلق خواب آتے ہیں یا بشارتیں اور وعیدیں ملتی ہیں، جن کو یہ لوگ پھر اپنے کالموں میں بیان کرتے ہیں۔ ان کالم نویسوں میں سے چند بابے بھی ہیں(حالانکہ پہلے صرف اشفاق احمد ہی اس حوالے سے معروف تھے)۔ اس ’’بشارتی اور وعیدی‘‘ گروپ میں ہارون الرشید، اوریا مقبول جان اور ڈاکٹر صفدر محمود نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تو بعض اوقات تاریخی حوالوں کو بھی اپنے خوابوں کے ذریعے درست کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ماشا اللہ مئورخ بھی ہیں اور دانش ور بھی ہیں۔ 17 جولائی 2011 کو انھوں نے روزنامہ جنگ میں’’بے غیرت‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا، جس میں انھوں نے سیاست دانوں کی بے اصولیوں اور سیاسی سمجھوتوں کو برا بھلا اور بے غیرت کہا اور آخر میں اُن کے کالم کی شان اس فقرے پر ٹوٹی’’کیا ڈرون حملے اور ایبٹ آباد آپریشن بھی ہماری بے غیرت سیاست کا ہی شاخسانہ نہیں‘‘۔

پاکستان کا عام صحافی اور باشعور شہری بھی خوب جانتا ہے کہ ڈرون حملے کس کی اجازت سے ہوتے ہیں اور کون ان حملوں کو روک سکتا ہے۔ رہ گئی بات ایبٹ آباد آپریشن کی تو کیا ڈاکٹر صاحب کو نہیں پتا اس کی اصل کہانی کیا ہے؟ اس کو روکنا کس کے بس میں تھا اور کون بے بس؟ سیاست اور ’’بے چارے‘‘ سیاست دانوں کو تو ڈاکٹر صاحب نے کمزور جان کر بے غیر کہہ ڈالا اور بے عزت کر دیا۔ ذرا اُن مقتدر حلقوں کو بے نقاب کرنے کے لیے قلمی جہاد فرمائیں بقول شخصے جن کے قبضہِ قدرت میں پاکستان اور ہماری جان سمجھی جاتی ہے ڈاکٹر صفدر محمود جیسے دانش ور اور مئورخ کے قلم سے سرزد ہونے والے اکثر سطحی کالم پڑھ کر پاکستان کی دانش ورانہ کلاس کی عملی و تجزیاتی صلاحیت پر رونا آتا ہے‘‘۔ (میڈیا منڈی صفحہ 220۔2016)

ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اپنے کالموں میں اپنے اوپر منکشف ہونے والی کرامات کا تذکرہ بھی اکثر کرتے رہتے ہیں

صاحب تحریر کی کتاب

وہ ضرور صاحب کشف ہوں گے مگر سچے صوفی کا دل و دروازہ ہر خاص و عام کے لیے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، وہ نفرت اور تفاخر کے بیوپاری نہیں بلکہ محبت کے پرچارک ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں ولایت کے اعلان کے لیے کالم لکھنے اور میڈیا کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے اعلیٰ کردار اور اقدار سے برصغیر میں صوفیا کرام نے روشنی پھیلائی اور عوام الناس کے اذہان و قلوب کو رب کی ہدایت سے منور کیا۔

ڈاکٹر صفدر محمود سجاد میر اور حامد میر جیسے نابغہ روزگار کالم نگاروں کا شاذ ہی کوئی کالم پاکستان کے ستم رسیدہ کسانوں یا مزدوروں کے حوالے سے اخبارات کی زینت بنا ہو۔

ان صاحبانِ علم و دانش سے گذارش ہے کہ جناب شامی صاحب کے اخبار میں کارکُن صحافیوں کے حالات بہت مخدوش بیان کیے جاتے ہیں اور اُن کو وقت پر تنخواہیں نہ ملنے کی شکایت عام ہے، ان حالات و واقعات پر بھی ذرا خاصہ فرسائی فرمائیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے ڈاکٹر مبارک علی کی بیٹی کی ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کا تذکرہ تو کر دیا کبھی اپنے ارد گرد بھی نظر دوڑا لیا کرییں تو انھیں معلوم ہو گا کہ اُن کے قریبی دوست اور نامور صحافی کی بیٹی کس میرٹ پر پنجاب یونیورسٹی کے ایک شعبہ کی انچارج ہیں۔

میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ یہ صاحبان ان موضوعات کی طرف نہیں آئیں گے بلکہ وہ ہمیشہ آسان شکار کی طرف لپکیں گے۔

مختصر یہ کہ نظریاتی اختلافات کو ذاتی اختلافات کا رنگ نہیں دینا چاہیے۔ شائستگی اور دلائل کے ساتھ بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ سطحی اور بازاری زبان استعمال کر کے آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور کیا آپ لوگوں کے نقشِ قدم پر چل کر وہ یہ طریقہ گفتگو اور انداز تحریر اپنائیں گے۔

مولانا مودودی، حسین احمد مدنی، عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا ابو الکلام آزاد، شورش کاشمیری اور دیگر کئی جیّد شخصیات نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تو کیا ہم انھیں گالم گلوچ کریں۔ بات یہ ہے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق خیال کرتے تھے کہ پاکستان بننے سے مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو جائے گی۔ ان رہنمائوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اُن کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر مبارک علی سے بھی سو بار اختلاف کیجئے مگر لوگوں میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے بند کر دیجئے اور بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھ دیجئے۔

ڈاکٹر مبارک علی صاحب آپ نے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر سچ کا سفر ہمیشہ جاری رکھا۔ آپ نے بند دماغوں کو سوچنا اور گُنگ زبانوں کو سوال کرنے کی جرأت دی۔وقت اور تاریخ فیصلہ کرے گی کہ سچ کیا تھا اور کون جھوٹ کو سچ بنانے پر تلا ہوا تھا اور ہاں ڈاکٹر صاحب آپ آزردہ اور رنجیدہ نہ ہوں دس بونے مل کر بھی آپ کا قد چھوٹا نہیں کر سکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے