جے آئی ٹی پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام

وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے سریم کورٹ کے حکم پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات اور اختیارات سے بڑھ کر تفتیش کررہی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘دوسرا رُخ’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کام نہیں کررہی، بلکہ اس کا مقصد صرف شریف خاندان کو نشانہ بنانا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ہم نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کی، جبکہ حقیقت میں جس انداز سے تحقیقات ہورہی ہیں اِس سے جے آئی ٹی خود اپنے آپ کو متنازع بنارہی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس پر الزام ہے اسی سے ہر بار سوالات اور ثبوت مانگے جارہے ہیں، یہ تحقیقات کا وہ فارمولا ہے جو دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہوتا’۔

صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم کو چاہیے کہ وہ لندن جاکر معلوم کرے کہ فلیٹس کس طرح سے بنائے گئے اور یہی وہ طریقہ کار ہے جس سے کچھ ثبوت مل سکتے ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتی جب تک یہ عدالت میں نہیں پیش کی جائے گی، لہذا اصل فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ جن تحفظات کا اظہار ہم نے پہلے دن کیا تھا انہیں سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ن لیگ اسے ہر صورت آئین و قانون کے مطابق تسلیم کرے گی اور یہ بات پہلے خود وزیراعظم نواز شریف بھی کہہ چکے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ سپریم کورٹ پاناما کیس کی تحقیقات میں مصروف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ‘جانبدار’ رویے کو خاص اہمیت نہیں دے رہی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوئے تھے جہاں ان سے 3 گھنٹے سے زائد پوچھ گچھ کی گئی۔

شہباز شریف کی پیشی پر بھی سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ تھے، جو بعدازاں واپس لوٹ گئے۔

پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے، پرسوں وزیراعظم پاکستان بھی اسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور اس طرح پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ باب رقم ہوا کہ ایک منتخب وزیراعظم نے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف بیان کیا اور آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صوبے کا خادم کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اور وزیراعظم نے اس طرح قانون کی حکمرانی کی حقیر خدمت کی اور ثابت کیا کہ ہم منتخب سیاستدانوں کے دلوں میں اداروں کا بڑا احترام ہے’۔

جے آئی ٹی کی جانب سے شہباز شریف کی طلبی کے احکامات اُس روز سامنے آئے تھے جب ان کے قریبی ساتھی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ اگر جے آئی ٹی شریف خاندان پر پی ایچ ڈی کرکے تحقیقی مقالہ لکھنا چاہتی ہے تو شہباز شریف کو بھی طلب کرلے۔

اس سے قبل 15 جون کو وزیراعظم نواز شریف پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

جے آئی ٹی میں پیشی اور تقریباً 3 گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرکے آیا ہوں، میرے تمام اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہیں، میں نے آج پھر تمام دستاویزات جے آئی ٹی کو دے دی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے’، ساتھ ہی انھوں نے امید کا اظہار کیا تھا کہ ‘میں اور میرا پورا خاندان اس جے آئی ٹی اور عدالت میں سرخرو ہوں گے’۔

وزیراعظم نواز شریف سے قبل جے آئی ٹی ان کے دونوں صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز سے شریف خاندان کے اثاثوں سے متعلق تحقیقات کرچکی ہے، ان کے علاوہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رحمٰن ملک کو بھی رواں ماہ پوچھ گچھ کے لیے طلب کررکھا ہے۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے