دہشتگردی، انتہاپسندی پھیلانے والی 25 ویب سائٹس پر پابندی کی تجویز

کراچی: سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پھیلانے والی ویب سائٹس، ویب پیجز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی فہرست تیار کرلی اور ساتھ ہی حکومت کو انہیں بند کرنے کی تجویز بھی دے دی۔

کالعدم عسکریت پسند جماعتوں کے مقاصد کو ناکام بنانے اور ان ویب سائٹس، پیجز کی بندش یقینی بنانے کے لیے سی ٹی ڈی نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور متعلقہ اداروں کو خط روانہ کردیئے ہیں۔

اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل (اے آئی جی) ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا کہنا تھا کہ ‘ہم اب تک 25 ایسی ویب سائٹس کی نشاندہی کرچکے ہیں جو مذہبی و نسلی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں ملوث ہیں’۔

انہوں نے بتایا کہ سی ٹی ڈی ان ویب سائٹس کی فہرست روانہ کرچکی ہے اور تجویز پیش کرچکی ہے کہ پی ٹی اے ان کو بند کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام ویب سائٹس کالعدم تنظیمیوں سے منسلک ہیں یا انتہاپسند خیالات کی ترویج کررہی ہیں۔

ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کی تجویز پر متعلقہ ادارے کچھ ویب سائٹس کو کالعدم قرار دے چکے ہیں جن میں ایسی ویب سائٹس بھی شامل تھیں جو قرآن مجید کی تعلیمات کو گمراہ کن انداز میں پیش کررہی تھیں، یہ ویب سائٹس نہ صرف انتہاپسندی کی مذمت کرنے والے مذہبی اسکالرز کے خلاف بیانات دینے بلکہ معاشرے میں عدم برداشت کو بھی فروغ دینے میں مصروف تھیں۔

افسر کے مطابق فیس بک پر ایسے کئی پیجز موجود ہیں جو لشکر جھنگوی سمیت دیگر انتہاپسند گروپوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں، ان پیجز پر بھی فوری پابندی لگنی چاہیے۔

وسیع پیمانے پر بنیاد پرستی
ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بنیاد پرستی کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انٹرنیٹ نے نوجوانوں کے خیالات کو انتہاپسندی کی جانب مائل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، ایسا مغربی ممالک میں بھی کیا جاچکا ہے اور اب دہشت گرد تنظیمیں پاکستانی نوجوانوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں’۔

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ایسے مواد کی تشہیر ان پیجز کے بند ہوجانے کے باوجود بھی جاری رہے گی لہذا معاشرے سے ایسے عناصر کے مکمل خاتمے کے لیے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ‘مسلسل جدوجہد’ کی ضرورت ہے۔

سی ٹی ڈی کو حاصل معلومات کے مطابق فیس بک پر ‘سماء نیوز’ کے نام سے ایک اکاؤنٹ بنایا گیا جسے “Liwa Zainebiyoun” نامی پیج بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق یہ پیج ایک لسانی عسکریت پسند گروپ بن کر سامنے آسکتا ہے۔

جیش العدل کے نام سے فعال ایک اور ویب سائٹ نے رواں سال اپریل میں پاک ایران سرحد پر ہونے والے حملے میں ایرانی گارڈز کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی۔

اسی طرح عمر داؤد خٹک کی جانب سے بنایا گیا پختونستان لبریشن آرمی نام کے اکاؤنٹ نے پاکستان میں مسلح جدوجہد کے آغاز کا دعویٰ کیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق یہ اکاؤنٹ کسی نئی عسکریت پسند تنظیم کا ہوسکتا ہے جو پختونستان کے نام سے علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے۔

سی ٹی ڈی کا مزید بتانا تھا کہ بہاول پور کی مسجد سے وابستہ ایک مبینہ ویب سائٹ بھی نام نہاد جہاد کے فروغ میں ملوث تھی جبکہ ایک ویب سائٹ شریعت یا شہادت کا پیغام پھیلا رہی تھی۔

سی ٹی ڈی کے مطابق کئی لوگوں نے بذریعہ میسجز جہاد کا حصہ بننے کے لیے ان ویب سائٹس سے رابطہ کیا۔

شام میں موجود جنگجو
دوسری جانب ایس ایس پی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد نے ڈان کو بتایا کہ کراچی سمیت پاکستان کے بہت سے افراد شام میں جنگ کے لیے گئے جن میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے افراد شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی خاندان شام اور عراق سے واپس بھی آئے تاہم معلومات کے مطابق کئی فعال جنگجو تنازع کے ختم ہونے تک شام سے واپس آنے کو تیار نہیں۔

عمر شاہد حامد کے مطابق ان جنگجوؤں کے پاکستان واپس آنے کے بعد فرقہ واریت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے