نئے سعودی ولی عہد کے بارے میں پانچ اہم حقائق

اپنے والد کے بادشاہ بننے کے بعد سے 31 سالہ شہزادہ محمد بتدریج تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کے دوسرے سب سے بااثر شخص بن گئے ہیں۔ اور اب تخت سے ایک ہی قدم کی دوری پر ہیں۔

نوجوان شہزادے کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے اور ان کے سارے حریف راستے سے ہٹا دیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کے نئے ولی عہد کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق کافی اہم ہیں۔

[pullquote]گھریلو شخص[/pullquote]

محمد بن سلمان 31 اگست 1985 کو پیدا ہوئے تھے اور وہ اس وقت کے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی تیسری اہلیہ فہدہ بن فلاح کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔

ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شہزداہ محمد نے کئی سرکاری اداروں میں کام کیا۔ اُن کی ایک ہی بیوی ہے جن سے ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

[pullquote]بادشاہت پر خاندان کی گرفت مضبوط[/pullquote]

نئے ولی عہد اپنے والد کے تخت سنبھالنے سے پہلے بھی قریب تھے۔انھیں 2009 میں اپنے والد کا مشیرِ خصوصی مقرر کیا گیا، جو اُس وقت ریاض کے گورنر تھے۔شہزادہ محمد کی ترقی کا سفر حیران کن ہے اور سلطنت میں ایسی غیر معمولی تبدیلیاں پہلی بار سامنے آئی ہیں۔
شہزادہ محمد کے سیاسی سفر میں ایک اہم موڑ اپریل 2015 میں اُس وقت آیا جب شاہ سلمان نے اپنے جانشینی کی قطار میں نئی نسل کو شامل کیا۔
شاہ سلمان کے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ہٹا کر محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا جب کہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کر دیا۔اس فیصلے کے بعد محمد بن سلمان کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کے لیے بس محمد بن نائف کو ہٹانا تھا۔
نئے ولی عہد نائب وزیرِ اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع کے عہدے پر بھی قائم ہیں۔

[pullquote]دفاعی امور پر زور[/pullquote]

شاہ سلمان نے 2015 میں اقتدار سنبھالتے ہی دو اہم تبدیلیاں کیں اور اپنے بیٹے کو تخت کے قریب کر دیا۔شہزادہ محمد 29 برس کی عمر میں دنیا کے سب سے نو عمر وزیر دفاع بنے۔عہدہ سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد محمد بن سلمان کے اولین اقدامات میں سے ایک دوسرے عرب ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف جنگی مہم شروع کرنا تھا۔اب تک سعودی اتحاد باغیوں کے ہاتھوں سے دارالحکومت صنعاء کا کنٹرول واپس یمن کے صدر عبد ربہ منصور کو دلوانے میں ناکام رہا ہے۔

[pullquote]تیل سے ماورا معیشت[/pullquote]

اپریل 2016 میں انتہائی بااثر شہزادہ محمد نے کونسل آف اکنامک اینڈ ڈیولیپمنٹ افیئر کے صدر کی حیثیت سے ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی اصلاحات کے پروگرام شروع کیے جن کا مقصد سلطنت کے تیل پر انحصار کو ختم کرنا تھا۔محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے نام سے ملک میں یہ نیا منصوبہ متعارف کروایا اور کہا کہ اس کے تحت ہم 2020 تک تیل پر انحصار ختم ہو جائے گا۔جب سے وہ منظر عام پر آئے ہیں انھیں سعودی عرب کے لیے ایک اولوالعزم رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔آئی ایم ایف نے منصوبے کو پرعزم اور دور رس قرار دیا مگر یہ تنبیہ بھی کی کہ اس پر عمل ایک چیلنج ہو گا۔

محمد بن سلمان نوجوانوں میں کیوں مقبول ہیں؟
فرینک گارڈنر
بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار

سعودی عرب کی 31 سالہ شہزادے محمد بن سلمان کا عروج حیرت انگیز ہے۔جب میں ان سے سنہ 2013 میں جدہ میں ملا تو انھوں نے اپنا تعارف محض ایک ‘وکیل’ کے طور پر کروایا۔ آج وہ عرب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے حکمران بننے جارہے ہیں۔

یمن میں بے نتیجہ اور نقصان دہ فوجی کارروائیوں کے پیچھے کارفرما رہنے کے باوجود وہ اپنے ملک میں خاصے معروف ہیں، خاص طور پر نوجوان سعودیوں میں۔انھوں نے سرکاری اداروں میں بہت سارے غیر مؤثر اور بزرگ افراد کی جگہ مغرب سے تعلیم یافتہ نوجوان ٹیکنوکریٹس کو بھرتی کیا ہے۔ انھوں نے ایک انتہائی پر جرات مندانہ تعمیراتی منصوبہ ‘وژن 2030’ بھی ترتیب دیا اور سعودی عرب کی سرکاری آئل کمپنی سعودی ارماکو کے کچھ حصوں کی فروخت کا بھی اعلان کیا۔

انھوں نے واشنگٹن اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے لیکن ان کی سب سے بڑی اور خطرہ موہ لینے والی کوشش قدامت پسند مذہبی اسٹیبلشمنٹ پر قدغن لگانا ہوسکتی ہے۔ واشنگٹن کو یہ کوشش پسند ہے لیکن ان کے ملک کے قریبی ساتھیوں کو یہ پسند نہیں۔نئے ولی عہد محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کی حیثیت سے یمن سعودی عرب جنگ، توانائی سے متعلق عالمی پالیسی سازی اور اس کے نفاذ اور تیل کے ختم ہوجانے کے بعد ریاست کے مستقبل سے متعلق منصوبوں کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے