پا ڑا چنار ،کوئٹہ اور بہاولپور۔ کیالاشوں میں فرق ہے ؟

میرے ایک دوست جن کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے ۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ اورکزئی ایجنسی میں صدیوں سے جمعے کے دن کو بہت مقدس سمجھا جاتا تھا ۔ اور جمعے کے دن اپنے جانی دشمن پر بھی کبھی وار نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کےجانی دشمن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے ۔

ان کا کہنا ہے کہ جس دن اورکزئی میں جمعے والے دن قتل ہونا شروع ہوئے تو ہم سمجھ گئے کہ اب کوئی باہر کی طاقت ایجنسی کے امن و امان کو تباہ کرنے لے لئے پہنچ گئی ہے اور یہ خدشہ بعد کے سالوں میں سچ ثابت ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں جمعہ کے دن کو ’’سیکیورٹی رسک‘‘ سمجھا جاتا ہے

اسلام میں جہاں جمعتہ الوداع کا دن انتہائی بابرکت اور مقدس سمجھا جاتا ہے اس دن کے موقع پر پاڑا چنار اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں سو سے زائد مسلمانوں کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔ یہ اس سال دہشت گردی کے سانحات میں ایک بڑا سانحہ ہے ۔ لیکن اس سانحے کے نتیجے کا رد عمل بھی وہی رہا جو تقریباٗ ہر حادثے کے بعد ہوتا ہے ۔

میڈیا پر یہ حادثہ کچھ وقت تک نمودار ہوا اور پھر ایسے غائب ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ نہ کوئی ڈی ایس این جی وہاں پہنچی ، نہ لائیو کوریج ہوئی۔ اسلئے حکومت اورعوام نے اس کو ایک غیر ضروری حادثہ سمجھ کر بھلا دیا۔ میڈیا نے چوڑیوں اور مہندی کے بازار دکھا کر اپنی نشریات کی ہوس کا پیٹ بھرا۔

پاڑا چنار میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین گزشتہ تین دن سے پولیٹیکل ایجنٹ آفس کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ لیکن نہ تو حکومتی مشینری حرکت میں آئی ، نہ ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے پریس کانفرنس کا انعقاد اورنہ ہی کوئی جارحانہ یا مشفقانہ بیان دیکھنے کو ملا۔ (اس کے لئے سوشل میڈیا پر ان کی کوئی گستاخی کرنا ضروری ہے) ۔

نہ ہی ہمارے وزیر اعظم پاکستان اپنا لندن کا دورہ مختصرکر کے وطن پہنچے ۔ نہ ہی مریم نواز کا ٹوئٹرحرکت میں آیا۔ نہ ہی عمران خان شوگراں اور ناران کے خوبصورت مناظر چھوڑ کر واپس لوٹے۔ نہ ہی بلاول کا جہاز دبئی سے پاکستان اترا (موٗخرالزکر نے ٹویٹس کے ذریعے اپنے پیغامات جاری کئے) ۔
یہ سو لاشیں اور تین سو زخمی انصاف کے لئے کس کے پاس جائیں؟

آج 25 جون کو ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ بہاولپورمیں آئل ٹینکر کے حادثے میں 140 سے زائد افراد کے جاں بحق اور سینکڑوں زخمیوں کی اطلاعات ہیں۔ عید سے پہلے یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے ۔ لیکن یہاں میڈیا، حکومتی مشینری اور آرمی سمیت تمام ادارے حرکت میں آ چکے ہیں۔ اگرچہ اب بھی یہ ناکافی ہے

زخمیوں کا علاج شروع ہو چکا ہے ۔ جاں بحق اور زخمیوں کے لئے معاوضوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ وزیراعظم عید منانے کے بعد دورہ لندن مختصر کر کے وطن واپس آ رہے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب اپنے ایمرجنسی بوٹ پہن کر جائے حادثہ پرامدادی کاموں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ اور مریم نواز کا ٹویٹ بھی ایکٹو ہو چکا ہے ۔ یہ رسپانس خوش آئند ہے ۔ سارے اداروں کو اس سے بھی بڑھ کر مدد کرنی چاہئے۔

لیکن مجھے جب کوئٹہ کی لاشیں لوکل ٹرانسپورٹ کی چھتوں اور پاڑا چنار کی لاشیں ہتھ ریڑھیوں پر رکھی نظر آتی ہیں تو آنکھ سے آنسو ٹپک پڑتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے