یہ بڑا ہو کر ڈاکڑ بنے گا.

( طنز و مزاح)

ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک دن اپنے ایک اسٹوڈنٹ کا ٹیسٹ پیپر چیک کرتے ہوئے انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس نے لکھا کیا ہے؟ اس طالب علم کی لکھائی اس قدر بری تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو اسے فیل کرتے ہوئے پیپر پر ریڈ پینسل سے لکھنا پڑا کہ برخودار اپنی ہینڈ رائٹنگ ٹھیک کرو اور صاف صاف لکھا کرو، ایک بھی فقرے کی سمجھ نہیں آئی۔

اگلے دن وہ لڑکا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ٹیسٹ پیپر لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا، سر یہ آپ نے کیا لکھ دیا ہے سرخ پینسل سے، صحیح طریقے سے پڑھا ہی نہیں جا رہا۔

اسی طرح ہمارے بعض دوست اس قدر خالص اور مشکل اردو لکھنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ میرے جیسے کم پڑھے لکھے بندوں کا ان کی تحریریں پڑھنے سے پہلے ہی دل گبھرانا شروع ہو جاتا ہے۔

پچھے دنوں میری تحریر ’’مسلم ممالک: سر اپنے ہیں تو جوتیاں ہی اپنی بنا لیں‘‘۔ کا ٹائٹل
ہم سب نے ( میری خوش فہمی ہے کہ استاد محترم وجاہت مسعود صاحب ہوں گے) اس کا ٹائٹل یہ لگایا، ’’مسلم ممالک: اپنی ہی چندیا سہلانا ہے تو کفش دوزی ہی سیکھ لیں‘‘

میں نے دیکھتے ہی بھاگ کر اردو لغت نکالی کہ دیکھوں تو سہی کہ بھائی یہ کفش دوزی کیا بلا ہے اور یہ محاروہ کہاں سے نکلا ہے؟ پھر سوچا چلو جو تحریر پڑھے گا وہ کفش دوزی کا مطلب میری طرح خود ہی کچھ نہ کچھ نکال ہی لے گا۔

اسی طرح میری فرینڈ لسٹ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے منفرد طبیعت اور انتہائی شاعرانہ مزاج کے شاد مردانوی ایڈ ہیں۔ ان کی تحریر دیکھ کر ہی میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ میں چار ڈکشنریاں اپنے سامنے رکھ کر اور نماز کی طرح نیت باندھ کر بھی آج تک ان کی ایک تحریر بھی مکمل نہیں پڑھ اور سمجھ سکا، راستے میں ہی سانس پھولنے لگتی ہے۔ ان کی تحریر دیکھ کر مجھے ہمیشہ ایک لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔

ایک دن ایک شوہر اپنی اہلیہ سے کہتا ہے کہ ہمارا بیٹا بڑا ہو کر سائنس دان بنے گا۔ بیوی حیرت سے پوچھتی ہے کہ آپ کو کیسے پتا چلا، ابھی تو یہ ایک سال کا ہوا ہے؟
شوہر کہتا ہے کہ دیکھو تو سہی، یہ باتیں کرتا ہے لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔

مجھے شاد مردانوی صاحب اور کئی دیگر اہل علم لوگوں کی تحریریں دیکھ کر فورا خیال آتا ہے کہ یہ کہیں سائنسدان تو نہیں ہیں، باتیں کرتے ہیں لیکن سمجھ نہیں آتی۔

ابھی چند گھنٹے پہلے ہی شاد مردانوی نے اپنا یہ اسٹیٹس اپ لوڈ کیا ہے، ’’بار دگر قطرہ ہائے باراں ، صاعقہ اور گرج کی مصاحبت میں بلدہ گرد و غبار کراچی کے اقامت گزاروں پر تعطلِ برق کے جریمے میں پیش پیش ہیں۔‘‘ اب میرا اندازہ ہی ہے کہ وہ کراچی میں بارش وغیرہ کی اطلاع دے رہے ہیں، یا ہو سکتا ہے وہ بارش میں نہ نہانے اور بجلی کی گرچ چمک سے لوگوں کو خبردار کر رہے ہوں۔ ایسی اردوئے معلیٰ کو عرش معلیٰ والے اور زمین پر فروز الغات والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

اگر یہ ایسے ہی پیچیدہ اور مشکل اردو میں گفتگو کرتے رہے تو ان کی شادی شدہ زندگی بھی ہنسی خوشی گزرے گی۔ ہرنام سنگھ اور چودھری شجاعت صاحب کی طرح نہ ہی ان کی باتوں کی سمجھ آنی ہے اور نہ ہی لڑائی ہونی ہے۔

کالم نگار جواد نظیر صاحب کے بقول ایک دن ہرنام سنگھ پُل پر سے جا رہا ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا دوست دور نیچے مچھلیاں پکڑ رہا ہے۔
وہ اوپر سے زور دار آواز میں پوچھتا ہے کہ برنام سنگھ،،،،،، کہیں مچھلیاں تو نہیں پکڑ رہے؟
برنام سنگھ پھیپھڑوں کی تہہ سے زور لگاتے ہوئے، اس بھی اونچی آواز میں جواب دیتا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو مچھلیاں پکڑ رہا ہوں۔

ہرنام سنگھ پھر اونچی آواز میں کہتا ہے، ٹھیک ہے ٹھیک، میں نے سمجھا شاید تم مچھلیاں پکڑ رہے ہو۔

اردو زبان میں اچھے، نفیس اور مشکل الفاظ کا استعمال اردو پر دسترس کی علامت ہے لیکن بعض اوقات ایک قاری اور لکھنے والے کے درمیان ہرنام سنگھ کی طرح کمیونیکشن گیپ پیدا ہو جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے