مہرالنسا وی لب یو: ایک موضوعاتی کمرشل فلم

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ریوائول آف سینما کے بعد فلم کا میڈیم عشق اور محبت کے مثلث سے نکل کر معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بھی استعمال ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی فلم بین اب موضوعاتی فلموں کو پسند کررہے ہیں جس کی تازہ مثال بالی وڈ میں بننے والی عرفان خان اور پاکستانی اداکارہ صبا قمر کی ہندی میڈیم ہے جس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کو مزاحیہ انداز میں پیش کیاگیا اور فلم نے سو کروڑ روپے کا بزنس کیا۔

عید پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’مہرالنسا وی لب یو‘ بھی ایک موضوعاتی فلم ہے جس میں ایک معاشرتی مسئلے کی اہمیت کو مزاحیہ انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ فلم کا موضوع پاکستان کے بڑے اور مصروف شہروں خصوصا کراچی میں رہنے والے متوسط طبقے کا ایک اہم مسئلہ ہے اور وہ ہے ’ماحولیاتی آلودگی اور اس سے ہماری زندگیوں پر پڑنے والے اثرات‘ جن سے شاید ہم خود بھی واقف نہیں ہیں۔

فلم کے ہدایت کار یاسر نواز ہیں اور نمایاں اداکاروں میں دانش تیمور، ثنا جاوید، جاوید شیخ، نیر اعجاز اور ثاقب سمیر شامل ہیں۔ فلم کی کہانی یاسر نواز جبکہ مکالمے ثاقب سمیر نے لکھے ہیں۔

گوکہ فلم پروڈکشن اور تکنیکی لحاظ سے اتنی مظبوط نہیں ہے اور سکرپٹ میں بھی کئی جگہ جھول ہیں لیکن اداکاری اور برجستہ مکالموں نے فلم میں جان ڈال دی ہے اور سب سے بڑھ کر فلم میں ایک کہانی موجود ہے۔

فلم کی کہانی ایک ایسے نوجوان علی (دانش تیمور) کے گرد گھومتی ہے جو تین سال بعد چین سے وطن واپس لوٹتا ہے اور واپسی کے ساتھ ہی اس کی شادی اس کی پچبن کی محبت مہراالنسا ( ثنا جاوید) سے ہوجاتی ہے جو پچپن سے اب تک پاکستان کے شالی علاقہ جات میں رہتی رہی ہے۔ کراچی کے شوروغل سے ناواقف مہرالنسا رخصت ہوکر جب اس شہر میں داخل ہوتی ہے تو یہاں کی گندگی اور شوروغل دیکھ کر اس کے ہوش اڑ جاتے ہے اور ایسی پریشان ہوتی ہے کہ اپنے ازدواجی تعلقات رکھنے میں بھی ناکام ہوجاتی ہے۔ ایک عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہنے کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتاہے تو پتا چلتاہے کہ مہرو ماحول کی تبدیلی کے باعث حاملہ نہیں ہو پارہی۔ اور اس کے دو ہی حل ہں یاتو مہرو کو اس شہر سے دور لے جائیں یا اس ہی شہر کے کسی پرسکون علاقے میں رہنا شروع کردیں۔ یہ دونوں ہی حل علی اوراس کے گھر والوں کے لیے ناقابل قبول ہیں تو اب تیسرا راستہ کیاہے؟ اور یہ ہی وہ راستہ ہے جو علی نے مہرانسا کی محبت میں اختیار کیا ہے۔ فلم میں کامیڈی، رومانس اور ایکشن تمام چیزوں کو یکجا کیا گیا ہے.

فلم میں کراچی کے ایک بڑے مسئلے لینڈ گریبنگ اور قبضہ مافیا کو بھی سامنے لایا گیا ہے جو کراچی میں بد امنی اور بگڑتے ہوئے انفراسٹرکچر کی ایک بڑی وجہ ہے۔

تمام اداکاروں نے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ دانش تیمور کی اداکاری میں اپنی ہر نئی فلم کے ساتھ نکھار آتا جارہا ہے۔ ثناجاوید نے پہلی مرتبہ بڑی اسکرین کے کیمرے کا سامنا کیالیکن پر اعتماد نظر آئیں گو کہ فلم میں ان کا کردار غائبانہ زیادہ رہا۔ ثاقب سمیر کے مکالمے اور کامیڈی برجستہ ہیں لیکن ان میں بھی کہیں کہیں اسٹیج کی جھلک نظر آئی۔

فلم کے گانے بر صغیر کے معروف نغمہ نگار گلزار صاحب نے لکھے ہیں جبکہ موسیقی سیماب سین نے ترتیب دی ہے جو فلم میں ایک پرکشش حیثیت رکھتی ہے۔

فلم میں کئی باتیں ایسی ہیں بھی ہیں جنہوں نے فلم کے نمبر کم کردیے ہیں۔ مثلا فلم کا نام مہرالنسا پر رکھنا سمجھ نہیں آیا کیونکہ آئیڈیا اور کام تو سارا علی کا تھا لیکن بہرحال مہرالنسا کے لیے کے لیے سب کچھ کیا گیا تھا تو فلم کا نام مہرالنسا پر ہی رکھ دیا گیا۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے موجودہ دورمیں ایک لڑکا اپنی پچبن کی محبت کو تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا جبکہ وہ کسی گاؤں میں نہیں چین جیسے ٹیکنالوجی پیدا کرنے والے ملک میں رہتاہے۔ کردار نگاری کے معاملے میں بھی لگتا ہے کہ اداکاروں کی کمی پڑگئی تھی کہ ثاقب سمیر نے کہانی لکھنے کے دوران دو کرادر اپنے لیے ہی منتخب کرلیے۔ مانا کہ ثاقب اسٹیج میں اپنا ایک نام اور مقام بناچکے ہیں لیکن فلم میں ان کے ڈبل رول کی ضرورت نہیں تھی۔ کچھ کرداروں کو ایڈٹ کرتے وقت اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا گیا کہ ان کے مکالمے فلم سے تقریبا نکل ہی گئے ہیں۔ فلم میں رنگوں اور آواز کو انتہائی تیز کردیا گیا ہے جنہیں اگر تھوڑا مدھم کردیا جاتا ( کم از کم کچھ مقامات پر) تو نظرو سماعت پر گراں نہیں گزرتا اور شاید کہیں بھی کوئی بور لمحہ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کا اگر فلم بناتے وقت خیال رکھا جاتا تو مہرالنسا وی لب یو شاید سال کی اب تک سب سے بہترین فلم ہوتی۔

فلم میں مسئلے کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس کا ممکنہ اور موزوں حل بھی کہانی کا حصہ ہے۔ اور اپنی تمام تر تکنیکی خرابیوں کے باوجود مہرالنسا وی لب یو کی کہانی سے کہیں نہ کہیں آپ خود کو جڑا ہوا محسوس کریں گے جس کے لیے یاسر نواز اور ٹیم یقینا تعریف کے مستحق ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے