ہم ازلی بھوک کا شکار ہیں

اگلا سال پھر سے الیکشن کا سال ہوگا، اسی لئے ملک کی سیاسی فضا میں ہلچل آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ اکثر سیاسی پنڈال عوام کو لبھانے کے لئے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلی انتخابی مہم اور دھرنے نے موسیقی، ڈی جے۔ساونڈ سسٹم وغیرہ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے لوازمات بھی ان کاروائیوں کا حصہ بن گئے ہیں۔

پہلے پہل عوام لیڈر کو دیکھنے، اس کی تقریر سننے اور اس کی شخصیت سے واقف ہونے کے لئے جلسے میں آیا کرتے تھے۔ یا پھر اپنے من پسند نطریاتی رہنما کا ساتھ نبھانے کےلئے جلوسوں میں اس کے ساتھ چلتے تھے۔ راستے میں پھول نچھاور کرتے اور استقبالیے دیا کرتے تھے۔

اب عوام کی اکثریت اپنے قومی سطح کے رہنماوں کو ٹیلی وژن پر روز دیکھتی، سنتی اور اچھے طریقے سے جانتی ہے۔ بلکہ اب تو شاید نظریاتی پرچار سے اکتا بھی گئی ہے۔ اس لئے جلسے جلوسوں میں بھرتی کے بندے بلانا پڑتے ہیں۔ جو بریانی کی پلیٹ کے انتظار میں لیڈر کا جلسہ بھگتاتے ہیں لیکن کان دیگ کی کھڑکھڑاہٹ پے رکھتے ہیں۔ کھانا کھلنے کی دیر ہے سب سیاست پیٹ کے آگے ٹھپ ہو جاتی ہے۔

چاہے لیڈر منت کرتا رہے، یقین دلاتا رہے کہ کھانے کو "چنگا چھوکھا” موجود ہے، آرام سے سب کو مل جائے گا۔ لیکن عوام لیڈر کی بات کو سچ کب مانتی ہے۔ ہر کوئی اپنے پیٹ اور پلیٹ کی سوچتا اور بھرتا ہے۔

اچھے خاصے سفید پوش، سمجھ دار لوگ کھانے پے ٹوٹ پرتے ہیں گویا کئی روز سے بھوکے ہوں۔ یہی حال شادی بیاہ کی تقریبات میں نظرآتا ہے۔ ایسا ہی منظر کسی نیاز کی تقسیم کی جگہ بن جاتا ہے۔ کہیں کسی ریڑھی بان کے پھل کمیٹی والے الٹ جایئں، یا کسی سبزی سے لدی سوزوکی کا حادثہ ہو جائے۔ لوٹنے والے خدائی حق سمجھتے ہیں۔

پھر احمد پور شرقیہ تو ایک دور دراز قصبہ ہے جہاں غربت اور بھوک مل کر ناچتی ہے۔ وہاں پیٹرول اکٹھا کرنے والے اسے کھا نہیں سکتے تھےلیکن اسے بیچ کر شاید ایک دو وقت کی آسان روٹی کا انتظام کر سکتے تھے۔ بس وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ رزق نہیں آگ اکھٹا کر رہے ہیں۔

ہر کوئی اپنے حساب سے کھانا جمع کرتا ہے، غریب بریانی اور گرا ہوا پیٹرول تو امیر دوسروں کا حق۔ جس کے پاس جتنے اختیار ہوں وہ اتنا ہی بڑا غاصب بن کرابھرتا ہے۔ کوئی ایک دن کا راشن اکٹھا کرنےمیں لگا ہے تو کوئی نسلوں کے لئے باہر ملک میں اکاونٹ کھول رہا ہے، فلیٹ لے رہا ہے۔

یہ ازلی بھوک کا کلچر ہے۔ جو صدیوں کی درماندگی کے بعد قوموں کا رویہ بن جاتی ہے۔ یہ بھرے یا خالی پیٹ کا معاملہ نہیں ہے یہ خون میں سرایت کی ہوئی عادت ہے۔ یہ ایک سماجی بیماری ہے، جو سب کو لاحق ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے