چربیلی کی رسم، آگ پہ چل کے بے گناہی ثابت کرنے والے احمد اور راشدہ کی کہانی

آگ اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ آگ اگر فائدہ مند ہے تو نقصان دہ بھی۔ کبھی تو یہ آگ سب کچھ جلا کے راکھ کر دیتی ہے تو کبھی اس آگ پر چل کہ انسان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی ہے۔

چربیلی کی رسم مشرقی بلوچستان کے مری اور بگٹی قبائل خصوصاً ڈیرہ مراد جمالی، نصیرآباد،جھٹ پٹ، بھاگ ناڑی اور پنجاب میں کوہ سلیمان رینج کے ساتھ ڈیرہ جات کے بلوچ قبائل،اور سندھ کے شکارپور، جیکب آباد، ٹُھل، کشمور اور شہداد کوٹ کے علاقوں میں رپورٹ ہوتی آر ہی ہے۔

مقامی زبان میں چربیلی کو مختلف ناموں سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جیسا کہ باھ تے ساکھ ، سچ جو فیصلو، مچ جو فیصلو، آس چر کہا جاتا ہے۔ اکثر اس رسم کے ذریعے گھمبیر اور دیرینہ تنازعات کو حل کیا جاتا ہے جیساکہ قتل، کاروکاری، چوری، ڈکیتی کے ملزموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جلتے ہوئے انگاروں پر چلنا پڑتا ہے۔

چربیلی کرنے کے لئے 10 فٹ لمبی اور 2 فٹ گہری کھائی کھود کر اس میں6 سے 8 من لکڑی جلا کر آگ جلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد جلتے ہوئے انگاروں پر جس شخص پر شک یا الزام ہوتا ہے اس کو غسل کروا کر اس کے پاؤں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ آیا پہلے سے اس پر کوئی نشان تو موجود نہیں۔ اس کے بعد اس کے پاؤں کو پانی سے دھلوا کے اس کو آگ پر سے گذارا جاتا ہے۔

دوسری طرف ایک مولوی قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور آگ کو قسم دیتا ہے کہ اگر وہ شخص بے گناہ ہے تو اس کے پاؤں کو کچھ بھی نا ہو اور اگر وہ گناہ گار ہو تو اس کے پاؤں پر چھالے پڑ جائیں۔ جسے ہی وہ شخص جلتے ہوئے انگاروں سے گذر کے آتا ہے تو اسی وقت ایک بکرا ذبح کر کے اس بکرے کے خون میں اس شخص کے پاؤں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد فیصلہ کرنے والے مصنفین اس کے پاؤں کی جانچ پڑتال کر کے فیصلہ سناتے ہیں۔ جس کو ہر حال میں تسلیم کرںا پڑتا ہے۔

صوبہ سندھ میں اکثر یہ فیصلے بروچ قبائل کرواتے ہیں مگر کبھی کبھار پر سندھی بھی گھمبیر معاملات کو حل کروانے کے لیے اس طرز کے فیصلوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن میں کئی لوگ بے گناہ ثابت ہوئے اور کئی لوگ مجرم قرار دیے گئے۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ بے گناہ مجرم بن گیا اور مجرم بے گناہ۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح کی رسومات تب ہی جنم لیتی ہیں جب ملک کا نظام انصاف کمزور ہو یا پھر آپ کو انصاف کے نظام پر بھروسہ نا ہو۔

یہ قصہ سن 2008 کا ہے۔ لاڑکانہ کی راشدہ نامی لڑکی کا جو حیدر آباد میں اپنے شادی شدہ بھائی کے گھر میں رہتی تھی۔ بقول ان کے رشتے داروں کے، اس کے بھائی کے گھر اس کےسالے احمد کا اکثر آنا جانا تھا جو کراچی میں نوکری کرتا تھا۔ ایک دن اچانک ایسا ہوا کہ راشدہ گھر سے غائب ہو گئ اور اس کے گھر والوں کا شک احمد پر گیا۔ مگر احمد اور اس کے گھر والے یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔

چلتے چلتے بات جرگے تک جا پہنچی اور شکارپور میں ان کی برادری کے سردار نے اس فیصلے کو حل کرنے کے لئے چر بیلی کا حکم دیا۔ چربیلی کے فیصلے کے تحت احمد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ وقت کے ساتھ معاملات ٹھیک ہونے لگے جیسا کہ راشدہ کے معاملے میں واقعی احمد کو کچھ بھی پتہ نہ ہو۔ راشدہ کا معاملہ ایک معمہ بن گیا سب لوگ حیران و پریشان تھے کہ آخر لڑکی کو آسمان کھا گیا یا زمیں نگل گئی۔

کچھ دن پہلے راشدہ کے حیدرآباد والے بھائی کی اپنے کسی محلے دار شخص کے ساتھ لڑائی ہوئی اور گالی گلوچ میں اس شخص نے لڑکی کے بھائی کو کہا کہ پتہ ہے کہ تم کتنے غیرت مند ہو تمہاری بہن تو کتنا عرصہ میرے پاس رہتی رہی ہے۔ جب اس شخص کو پکڑا گیا تو پتہ چلا کہ راشدہ کو احمد اس کے پاس چھوڑ گیا تھا اور بعد میں وہ اس کو واپس لینے ہی نہیں آیا۔ اور اس کے بعد اس شخص نے راشدہ کو آگے بیچ دیا۔

جب راشدہ کو ڈھونڈنے کے بعد اس کے والدین سے اس کی ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ احمد اس کو گھر سے بھگا کے لے گیا تھا اور اسی محلے میں اپنے دوست کے گھر ٹھہرا کے خود چلا گیا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد لینے آئیگا تاکہ کسی کو اس پر شک نہ ہو اور پھر وہ واپس نہیں آیا اور راشدہ ظلم و زیادتی کا شکار ہوتے ہوئے فروخت ہوتی رہی اور اب وہ چار بچوں کی ماں ہے۔

اور اب بھی راشدہ کے والدین نے اپنے سردار کے پاس ہی جانے کو ترجیح دی اور اس سردار نے احمد پر بھاری جرمانہ اور رضیہ کے عوض احمد کی بہن دلوا کے معاملے کو حل کر دیا۔ اس فیصلے کو دیکھ کر واقعی یہ لگتا ہے کہ انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے انصاف کے نظام کو سستا، آسان اور شفاف نہ بنایا تو پھر اس طرح کی رسومات چلتی رہیں گی اور اس جیسی اور لڑکیاں اس کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔

(نام اور مقام تبدیل کر کے لکھا گیا ہے تا کہ رازداری قائم رہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے