حقوق اور ترقی کے نام پر عورت کی تذلیل

ساہیوال کے حوالے سے ایک خبرپڑھی تو سر شرم سے جھک گیا۔

حقوق نسواں اور عورت کی ترقی کے نام پر ہم اسلام کے نام پربننے والے اپنے ملک اور مشرقی روایات کے حوالے سے جانے جانے والے معاشرے میں مغرب کی نقالی میں عورت کی حرمت کوپامال کر کے اُسے شو پیس بنا کر پیش کر نے کی ریس میں ایک دوسرےسے آگے نکلنے میں کوشاں ہیں۔

میڈیا، اشتہارات، فلم ٹی وی توپہلے ہی مال کمانےکے لیے عورت کو استعمال کر رہے ہیں۔

برابری اور ترقی کے نام پر مختلف کاروباری ادارے، بینک وغیرہ بھی عورت کو اپنا کاروبار بڑھانےکےلیے عورت کو ایسی ایسی ذمہ داریاں دیتے ہیں جس کا مقصد عور ت کو استعمال کر کے اپنا کاروبار بڑھانا مقصود ہوتاہے۔

جب عورت کی حرمت کو اس طرح سے کھلے عام پامال کیا جا رہا ہو اور کوئی بولے بھی نہ تو پھر حالات بد سے بدتر ہی ہوتےرہیں گے اوریہی کچھ ساہیوال میں ہوا۔

میڈیا میں اگرچہ اس خبر کی کوئی خاص تشہیر دیکھنے کو نہیں ملی لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ ساہیوال کے اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے علاقےمیں کسی پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب (جس میں شاید وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی) کو ’’پررونق‘‘ بنانےکےلیے خوبصورت خواتین کی ضرورت پڑ گئی۔

اپنے دنیاوی آقائوں کو خوش کرنے اور شاباشی لینےکےلیے اے سی صاحب بلا اجازت ساہیوال کے ایک میڈیکل کالج کے خواتین ڈاکٹرزکے ہاسٹل میں جا پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق اے سی صاحب ’’خوبصورت‘‘ چہروں کی تلاش میں تھے جس پر وہاں موجود ڈاکٹرز اور انتظامیہ نے احتجاج کیا اوریوں یہ معاملہ عوام تک پہنچا جس کے نتیجے میں اے سی کو معطل کر دیا گیا۔

مجھے پاکستان کی ایک اہم ترین یونیورسٹی کے رجسٹرار نے کچھ عرصہ قبل بتایا کہ جنرل مشرف دورکے ایک گورنر صاحب کے عملے کی طرف سے یونیورسٹی رجسٹرار کو فون آیا کہ یونیورسٹی ہوسٹل میں موجود طالبات میں سے خوبصورت لڑکیوں کو گورنر ہائوس میں منعقد ایک تقریب کو بارونق بنانے کےلیے بھیجا جائے۔

یعنی اب حالات یہ ہیں کہ ہماری بچیاں جنہیں ہم اسکول کالج علم حاصل کرنےکےلیے بھیجتے ہیں وہ اپنے تعلیمی اداروں اور ہوسٹلوں تک میں محفوظ نہیں اور المیہ دیکھیں کہ ریاست کے اہم ترین ذمہ داروں کو خوش کرنےکےلیے ان بچیوں کو شو پیس کے طورپر پیش کیا جاتاہے۔ یہ صورت حال وہ ہے جسے سوچ کر گھن آتی ہے کہ ہم ترقی اور حقوق کے نام پر اپنی ہی خواتین کی کیسی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

اُن افسران کو شرم آنی چاہیے جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں لیکن اپنے دنیاوی آقائوں کو خوش کرنےکےلیے دوسروں کی بیٹیوں کو اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کیا ایسی تقریبات کو منعقد کرنے والے اور اُن میں مہمان خصوصی بن کر شرکت کرنے والے یہ چاہیں گے کہ اُن کی اپنی بچیوں کو دوسروں کے سامنے اس طرح شو پیس بنا کر پیش کیا جائے۔ یقینا ًنہیںکیوں کہ عورت کےلیے یہ ’’ترقی‘‘ صرف دوسروں کی بہنوں بیٹیوں پر لاگو کی جاتی ہے۔ لیکن انہیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کی بیٹیاں بھی کسی کالج، یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں گی اور اُنہیں کوئی دوسرا انہی مقاصدکےلیے استعمال کر سکتا ہے۔

ساہیوال واقعہ پر پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے لیے یہ کافی نہیں کہ صرف انکوائری کا حکم دے کر ایک افسر کو معطل کر دیا جائے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت باقاعدہ ایک پالیسی ہدایت نامہ جاری کرے جس کے ذریعے کسی بھی نجی یا سرکاری تقریب میں خواتین کو شو پیس کے طورپر استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

وفاقی اور دوسری صوبائی حکومتوں کو بھی ایسے ہی احکامات جاری کرنے چاہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور حکومتوں کو میڈیا، فلم، ٹی وی، اشتہارات کے ذریعے بے ہودگی پھیلانے سے بھی روکنے کےلیے عملی اقدامات اٹھانےچاہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں رات گئے پولیس چھاپے میں درجنوں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ڈانس کرتے پکڑا گیا۔ پکڑے جانوں والوں میں بہت سی بچیاں اور بچے بیس بائیس برس کے تھے۔ ان سب کو فون کالزکے بعد اگرچہ فوری چھوڑ دیا گیا لیکن نہیں معلوم کہ اس ڈانس پارٹی کی اجازت کس نے اور کیوں دی۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم میڈیا، فلم، ڈرامے اور اشتہارات کے ذریعے یہی (بے شرمی اور بےہودگی کی) تعلیم اپنے نوجوانوں کو دیں گے تو پھر وہ یہی کچھ کریں گے۔ قصور ان بچوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے