سازش؟؟؟

سیاست میں سازشوں کا شور بڑھ جائے تو پاکستان جیسے ملک میں جمہوری نظام ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔

جمہوریت کی کشتی ہچکولے کھانے لگے تو اُن صحافیوں کے دل بھی ڈوبنے لگتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا صرف صحافت ہوتی ہے۔

صحافت کی آزادی اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ سچا صحافی آمریت کا ساتھ دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لہٰذا جب بھی سیاستدان سازشوں کا شور مچاتے ہیں تو جمہوریت پسند صحافی تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی جنگ صرف سیاسی جماعتوں کو نہیں بلکہ صحافیوں کو بھی لڑنی ہے۔

آزادیٔ صحافت کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم نے آٹھ جولائی کو اسلام آباد میں چند صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کا اصل مقصد 2017ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستانی صحافیوں کو درپیش خطرات کا جائزہ لینا تھا۔

آئی ایف جے سمیت صحافیوں کی متعدد عالمی تنظیموں نے پاکستان کو اُن ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے جو صحافیوں کے لئے بہت خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔

گفتگو کے دوران یہ سوال بھی زیر بحث آیا کہ کیا پاکستان میں جمہوریت کے خلاف پھر کوئی سازش ہو رہی ہے اور اگر واقعی سازش ہو رہی ہے تو اس کا آزادیٔ صحافت پر کیا اثر پڑے گا؟

اس گفتگو میں بڑے سائنٹفک انداز میں سوال پوچھے جا رہے تھے اور جواب میں بھی حوالہ جات کا تقاضا کیا جا رہا تھا کیونکہ میزبان تنظیم نے ایک تحریری رپورٹ مرتب کرنی تھی۔

میں نے پچھلے سال ایک کالم میں اوکاڑہ کے صحافی حافظ حسنین رضا کی گرفتاری کا ذکر کیا تھا۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ وہ سیاستدان اور صحافی جو آج کل سازشوں کا شور مچا رہے ہیں وہ حافظ حسنین رضا جیسے صحافیوں کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟

مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ نے چار سال قبل نومبر 2013ءمیں اپنے کالم میں کہا تھا کہ 2014ء میں ایک لانگ مارچ ہو گا جس کا اصل مقصد نواز شریف کو ہٹانا نہیں بلکہ مشرف کو پاکستان سے بھگانا ہو گا۔

لانگ مارچ ہوا اور مشرف کو پاکستان سے بھگا دیا گیا لیکن مشرف کے جانے کے بعد بھی حکومت دبائو میں رہی اس کی کیا وجہ تھی؟

میں نے بتایا کہ مشرف کو بھگانے کے بعد جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے اس توسیع کے لئے انہوں نے ’’میڈیا کا پریشر‘‘ استعمال کیا حیرت کی بات ہے کہ اُنہیں توسیع نہیں دی گئی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب میں ایک ’’پرائز پوسٹنگ‘‘ دیدی گئی۔ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس خدمت کا پرائز تھا؟ مجھ سے تیسرا سوال پوچھا گیا کہ نومبر 2016ء تک کچھ اہم صحافی اور اینکر جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حامی تھے، ان کی اصل پہچان پیشہ ورانہ قابلیت کی بجائے کچھ فوجی شخصیات کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے، یہ صحافی اور اینکر آج کل مسلم لیگ (ن) کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی جمہوریت کے خلاف سازش کر رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربت رکھنے والے ان صحافیوں اور اینکرز کے موقف میں تبدیلی کیوں آئی ہے؟ یہ سوال سن کر سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

مجھے جواب دینے کی زحمت نہ اٹھانا پڑی اور ایک خاتون صحافی نے کہا کہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، اس تبدیلی کے باعث کچھ صحافیوں کی اہمیت کم ہو گئی لہٰذا وہ اپنا ماضی بھول کر مسلم لیگ (ن) سے لپٹ گئے اور یہ نئی محبتیں صاف بتا رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) جتنا مرضی شور مچائے اس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کوئی سازش نہیں کر رہی۔

سوال کرنے والے نے جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔

میرے ذہن میں کئی نام گونجنے لگے۔ نظروں کے سامنے کئے چہرے نمودار ہو گئے جو اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑے نہیں ہو سکتے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے جمہوریت کے علمبردار بن چکے ہیں تاہم میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا تھا۔

ایک طرف مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی پر حملہ آور ہے دوسری طرف تحریک انصاف نے جے آئی ٹی کے تحفظ کا فریضہ ایسے ستم ظریفوں کے سپرد کر رکھا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک سپریم کورٹ کے ججوں کی کھلم کھلا تضحیک کیا کرتے تھے اور ان کی اصل پہچان بھی پیشہ ورانہ قابلیت نہیں بلکہ حساس اداروں کے ساتھ قربت کے دعوے ہیں۔

میں اس گفتگو سے فارغ ہو کر اسلام آباد کلب پہنچا جہاں مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان اسمبلی میرے انتظار میں تھے۔

انہوں نے واٹس ایپ کالوں کے ذریعہ مجھے یہاں بلایا تھا۔ میں نے مصافحہ کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ آپ مجھے ریگولر فون لائن پر کال کیوں نہیں کرتے؟ پارلیمنٹ لاجز کی بجائے گرمی اور حبس کے موسم میں اسلام آباد کلب کے لان میں کیوں لا بٹھایا ہے؟

میرے دراز قد اور فربہ ایم این اے دوست نے چہرے پر بے بسی و بیچارگی طاری کر کے درد بھرے لہجے میں کہا ’’سائیں ہمارے فون ٹیپ ہو رہے ہیں۔ ‘‘

اب وہ مظلوم بن کر مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ اگر ہمارے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو ابھی تک ہم سے کوئی رابطہ کیوں نہیں ہوا؟

مجھے سمجھ نہ آئی تو اُس نے شرمندہ انداز میں کہا کہ آپ تو جانتے ہیں آپ کے بھائی نے پچھلے پندرہ سال میں تین پارٹیاں بدلی ہیں ہر دفعہ پارٹی بدلنے کے لئے بھائی لوگوں سے مشورہ کیا کرتا تھا لیکن آج کل بھائی لوگ ہمارا فون ہی نہیں سنتے۔

یہ سُن کر میری ہنسی نکل گئی۔ اُس نے پوچھا کہ اگر سازش ہو رہی ہے تو رضا ربانی کیوں خاموش ہے؟

رضا ربانی جمہوریت کے خلاف سازش پر کبھی چپ نہیں رہتا ۔

اس دوران ایم این اے صاحب کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔

فون سن کر اُس کے منہ سے اپنے لئے ایک گالی نکلی اور فون بند کر کے اُس نے بتایا کہ اس وقت چار وفاقی وزراء جے آئی ٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کام تمام ہو چکا ہے اور اب آخری رسومات کی تیاری ہے۔

میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ اس مرتبہ مشکل وقت میں اپنی پارٹی چھوڑ کر مت بھاگنا۔ یہ سن کر وہ پھٹ پڑا۔

اس نے کہا کہ میری پارٹی نے کبھی مجھے اپنا سمجھا ہی نہیں تو میں اس کے لئے قربانی کا بکرا کیوں بنوں۔ پھر وہ یہ کہہ کر مجھ سے رخصت ہو گیا۔ ’’بھائی جی میں اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، ہم گروپ کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں، آج شام ہمارے گروپ کا اجلاس ہے، آج صورتحال کا جائزہ لیں گے اور پیر کی شام حتمی فیصلہ کریں گے۔ ‘‘

اگر واقعی کوئی سازش ہو رہی ہے تو ثبوت کے ساتھ سازش کو بے نقاب کرنا وزیراعظم نواز شریف کی آئینی ذمہ داری ہے۔

جمہوریت کے خلاف سازش پر خاموش رہنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ چار وزراء نے اپنی پریس کانفرنس میں جو باتیں کیں وہ صرف فرضی کہانیاں تھیں۔

قطری شہزادے کے متعلق مسلم لیگ (ن) کا موقف کسی مذاق سے کم نہیں۔ یہ شہزادہ صاحب مسلم لیگ (ن) کے گواہ ہیں اور گواہ کو عدالت میں لانا ن لیگ کی ذمہ داری ہے۔

میں ان چار وزراء کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ رپورٹ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کو جلد از جلد کوئی فیصلہ دے دینا چاہئے۔

اس فیصلے سے جمہوریت مضبوط ہونی چاہئے کمزور نہیں۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں لیکن آئینی و جمہوری نظام کا تسلسل ضروری ہے۔

ایک بات سب یاد رکھیں اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو کہانی ختم نہیں ہو گی۔

اس فیصلے کے بعد مشرف کے احتساب کے مطالبے میں شدت آئے گی۔

پاکستان کی عدالتوں کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ صرف سیاستدانوں کے خلاف نہیں بلکہ ڈکٹیٹروں کے خلاف بھی فیصلے کر سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے