بلاعنوان

کرنٹ افیئرز کے حوالہ سے میں ’’ہڑتال‘‘ پر ہوں حالانکہ میری فیورٹ چنڈال چوکڑی نے جو بھونچال کا ساسماں پیدا کر رکھا ہے اس کے انسپائرنگ ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن میں ان سے زیادہ ڈھیٹ ہوں، اس لئے ڈٹا رہوں گا ۔

ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ بندہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی پوچھتا پھرے میرا قصور کیا ہے ؟

بچپن میں ہم ’’انتہائیں ‘‘ ڈھونڈا کرتے تھے مثلاً ایک پوچھتارفتار کی انتہا کیا ہے ؟

دوسرا دور کی کوڑی لاتے ہوئے جواب دیتا ’’سوئمنگ پول کے گرد اس رفتار سے بھاگتا ہوا شخص جو خود اپنی کمرتک ‘‘پہنچ کر اسے کھجلانا چاہتا ہو‘‘کوئی دوسرا پوچھتا ….یروزگاری کی انتہا کیا ہے ؟

جواب ملتا ’’بیروزگاری کی انتہا یہ ہے کہ کسی رقاصہ کے پیروں پر جالے تن جائیں اور اس کے گھنگھرئوں کو زنگ کھا جائے ‘‘آج کوئی پوچھے ڈھٹائی کی انتہا کیا ہے تو جواب بہت سادہ ہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی باری باری دنیا سے پوچھتے رہیں ’’ہم نے کیا کیا ہے ؟

ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘

لیکن نہیں آج شاعری کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر شاعری پر بھی آ پ کو کرنٹ افیئرز کا منحوس سایہ دکھائی دے تو میرا کوئی قصور نہیں شعر ملاحظہ ہوبادی النظر میں تو چور لگےساتھ ہی ساتھ شاہ زور لگےاور اس کا بھی جواب نہیں ہے کہ ……انصاف تو اندھا ہوتا ہےپر جج کی آنکھیں ہوتی ہیں یہ شعر بھی اک خاص قسم کی صورت حال کا کیا خوب عکاس ہےتھوڑے سے ہیں فن کار بھیباقی سہولت کار ہیں اور اب ایک غزل جو چند گھنٹے پہلے پہنچی ہےجو کچھ تیرے دھیان میں ہےکیا وہ سب ایمان میں ہے؟

قصے کا انجام بتارکھا کیا عنوان میں ہےدیکھنا ہے اس منڈی میںکتنا وزن اوزان میں ہےجنگ ہے عدل اور عادل میںمنصف خود میزان میں ہےدیکھ رہا ہے دیا اسےکتنا دم طوفان میں ہےقصر ہے عالیشان بہتاندر کیا ایوان میں ہےجس کا اونچا تھا استھانکب سے قبرستان میں ہےسازش تیرے خون میں تھیسختی میری جان میں ہےرزق ہمارے حصے کاکس کے دسترخوان میں ہےخاک ہے قبرستانوں میںراکھ بہت شمشان میں ہےسہرے میں جو سجا رہااب وہ کوڑے دان میں ہےہونی، ہو کر رہتی ہےرکھا کیا ہیجان میں ہےمیں نے اس کو جان لیاچھپا ہوا ہذیان میں ہےلوہا بھٹی تک پہنچالکڑی آتش دان میں ہےوہ میری ملکیت ہےجو تیرے سامان میں ہے

ایسی تیسی وعدوں کوکیا عہدوپیمان میں ہےاور اب آخر پر پہلی بار کالے نہیں کچھ سفید قولعقلمند سوچ کربولتا ہے اور بیوقوف بول کر سوچتا ہے جبکہ سیاسی کٹلری بغیر سوچے سمجھے بولنے کے بعد بھی نہیں سوچتی،بدگمانی ناپاک باطن کی نشانی ہے تو جو اپنے ہی وطن کے اداروں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کرے، وہ کون ہو گا، کیسا ہو گا ؟

پاک دامن پلید کے ساتھ بندھ جائے تو خود بھی پلید ہو جاتا ہےاصل عجزاور انکسار یہ ہے کہ تم طیش میں نہ آئومالدار کو کنجوسی، جوان کو سستی، عابد کو خودپسندی اور حکمران کو ہوس ذلیل و رسوا کر دیتی ہے

بے عمل عالم، بے زر سخی، بے ثمر درخت، تیغ بے جوہر، سوتا ہوا سوار، جاہل پرہیز گار، پیادہ سست رفتار، اندھا کنواں،مالدار بخیل، ابر بے باراں، منعم بے کرم اور لالچی حکمران کس کام کے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے