جے آئی ٹی رپورٹ عمران خان بیانیہ،ردی کا ٹکڑا ہے،مسترد کرتے ہوئےاس کے پڑخچے اڑا دیں گے. ن لیگ آج کی مکمل کہانی پڑھیں

[pullquote]مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی رپورٹ ’ردی‘ قرار دے کر مسترد کردی[/pullquote]

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو ردی قرار دے کر مسترد کردیا۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ ’رپورٹ اور اس کے مندرجات نہ ہمارے لیے نئے ہیں نہ کسی اور کے لیے، جے آئی ٹی کی رپورٹ عمران نامہ ہے، رپورٹ میں وہی الزامات لگائے گئے جو عمران خان ایک سال سے لگا رہے ہیں اور یہ ایک مخالف جماعت کے مؤقف کا مجموعہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ رپورٹ میں ٹھوس دلائل اور مستند مواد شامل نہیں، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو صرف 13 سوالات کا مینڈیٹ دیا تھا، لیکن اس کی رپورٹ مخالفین کے الزامات کی ترجمانی کرتی ہے اور ہمارے تحفظات کو درست قرار دیتی ہے۔‘

احسن اقبال نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو دھرنا نمبر 3 قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا ہے جس کے جھوٹ کو ہم سپریم کورٹ کے سامنے بے نقاب کریں گے، جبکہ رپورٹ میں جن چیزوں کا سہارا لیا گیا ان کا کوئی جواز نہیں۔‘

بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی رپورٹ دراصل پی ٹی آئی رپورٹ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی کے 4 ارکان کو قانونی معاملات کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انہیں قانونی سفارشات مرتب کرنے کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا، جبکہ اس کے ارکان پیش ہونے والوں کو دھمکاتے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ طوطا مینا کی کہانی ہے اور ہم اپنے آئینی اعتراضات پیر کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔‘

[pullquote]’سپریم کورٹ میں قانونی جنگ خوب لڑیں گے‘[/pullquote]

وزیر دفاع اور پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے تھے جے آئی ٹی میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہوں گے اور اس کی رپورٹ خام خیالی کے بجائے ٹھوس دلائل پر مشتمل ہوگی، لیکن رپورٹ میں کوئی بھی بات مصدقہ نہیں، رپورٹ میں رحمٰن ملک کی باتوں پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا ہے اور ’سورس‘ رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم کے صاحبزادے نے قانونی طریقے سے رقم بھیجی، حسین نواز کی سعودی عرب میں کمپنی سے یہاں پیسہ بھیجا گیا جو بینکنگ چینل کے ذریعے نواز شریف کے اکاؤنٹ میں آیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قانونی نہیں سیاسی جنگ ہے، ہمیں سپریم کورٹ پر پورا اعتماد ہے، سپریم کورٹ میں قانونی جنگ بھی خوب لڑیں گے اور امید ہے عدلیہ میں قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا۔‘

وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’جے آئی ٹی کی رپورٹ غیر متوقع نہیں، رپورٹ میں بہت سی باتیں ناقابل یقین اور مضحکہ خیز ہیں اور رپورٹ سے مشرف دور کے بے بنیاد الزامات کی یاد تازہ ہوگئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حسن نواز اور حسین نواز پاکستان میں نہیں رہتے، وہ اوور سیز پاکستانی ہیں اور اگر انہوں نے رقم اپنے والد کو بھیجی تو قانون کے تحت بھیجی۔‘

[pullquote]وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے کا جواز کھو چکے ہیں اس لئے ان پر ضروری ہوگیا ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ [/pullquote]

پاکستان پیپلزپارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ آج سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے آمدنی کے ذرائع اور اثاثہ جات کا جواز دینے میں قطعی طور پر ناکام ہوگئے ہیں اور یہ وزیراعظم پر الزام واضع طور پر ثابت ہوگیا ہے اور اب نواز شریف اخلاقی اور سیاسی طور پر وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے کا جواز کھو چکے ہیں اس لئے ان پر ضروری ہوگیا ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ اراکین کے بنچ میں سے دو جج صاحبان پہلے ہی وزیراعظم کو مجرم قرار دے چکے ہیں۔ بقیہ تین جج صاحبان نے ان دو فاضل جج صاحبان کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے جے آئی ٹی کے ذریعے تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا۔

اب جے آئی ٹی نے یہ تصدیق کر دی ہے کہ وزیراعظم کے آمدنی کے ذرائع اور ان کی جانب سے اکٹھی کی گئی دولت میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ اب نواز شریف کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں اور سپریم کورٹ کی جان سے انہیں سزا دینا باقی رہ گیا ہے۔ پی پی پی اس خیال کو بھی مسترد کرتی ہے کہ موجودہ صورتحال سے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔

اب جبکہ نوازشریف پر ان کی ملکیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں اور اس بارے کسی کو کوئی شک نہیں رہا لیکن ان ساری باتوں سے نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سارے معاملے سے یہ نشاندہی ہوگئی ہے کہ نظام مضبوط ہے اور نظام میں جمہوری روایات اور اصولوں کے مطابق وزیراعظم کی تبدیلی کے لئے طریقہ کار بھی موجود ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ وقت درست سیاسی فیصلے کا ہے اور وقت کم ہے۔ انہوں نے میاںنواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں تاخیر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔

[pullquote]پاناما جے آئی ٹی نے وزیرا عظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز اور بیٹی مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی۔[/pullquote]

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے، جبکہ ان کی ظاہرکردہ دولت اور ذرائع آمدن میں واضح فرق موجود ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچے آمدنی کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے۔

رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے برٹش ورژن آئی لینڈ سے مصدقہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں، آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی مالک مریم نواز ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کے حوالے سے جمع کرائی گئی دستاویزات جعلی ہیں، جبکہ ’ایف زیڈ ای کیپیٹل‘ کمپنی کے چیئرمین نواز شریف ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بےقاعدہ ترسیلات سعودی عرب کی ’ہل میٹلز‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’ کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ کمپنیوں سے کی گئیں، جبکہ بےقاعدہ ترسیلات اور قرض نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کو ملے۔

برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ہیر پھیر میں مصروف تھیں، جبکہ یہ بات کہ لندن کی جائیدادیں اس کاروبار کی وجہ سے تھیں آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق انہی آف شور کمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا، ان فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔

پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعا علیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا، بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بےقاعدگی سے ترسیل کی گئی، یہ رقوم سعودی عرب میں ’ہل میٹلز‘ کمپنی کی طرف سے ترسیل کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے۔

پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی چوتھی اور حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔

اس موقع پر عدالتِ عظمیٰ کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور رینجرز کے خصوصی دستے نے جے آئی ٹی ارکان کو سیکیورٹی فراہم کی۔

جے آئی ٹی کے ارکان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پیش ہوکر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 3 رکنی عمل درآمد بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی۔

جس وقت جے آئی ٹی کے ارکان سپریم کورٹ پہنچے تو ان کے ساتھ دو باکسز میں 11 جلدوں پر مشتمل ثبوت بھی کمرہ عدالت میں لے جائے گئے جن پر لفظ ’ثبوت‘ تحریر تھا۔

[pullquote]جے آئی ٹی کی وزیراعظم کیخلاف نیب ریفرنس کی سفارش[/pullquote]

پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف ،ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی ہے۔

جے آئی ٹی کی 60سے زائد روز ہ تفتیش کی رپورٹ 10جلدوں پر مشتمل ہے،رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان کی آمدنی ،دولت کے ظاہر کردہ ذرائع میں اہم تضاد پایا جاتا ہے،معلوم ذرائع سے زائد آمدن پر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں پر نیب سیکشن 9کے تحت ریفرنس بنتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بےقاعدہ ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی،یواےای کی کیپٹل ایف زیڈای کمپنیوں سےکی گئیں،بے قاعدہ ترسیلات اور قرض نوازشریف،حسین نواز اور حسن نواز کو ملا۔

رپورٹ کے مطابق بیانات اور تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدعا علیہان کا رہن سہن ان کی آمدن سے زائد ہےجبکہ بڑی رقوم کی قرض اور تحفےکی شکل میں بےقاعدگی سےترسیل کی گئی۔

[pullquote]وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے طرز زندگی اور آمدن میں فرق ہے: جے آئی ٹی رپورٹ[/pullquote]

وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے رہن سہن اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا اور ان کے بیانات سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان کے طرززندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں جب حسن نواز اور حسین نواز سے رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔

[pullquote]سپریم کورٹ کے حکم پر مکمل عملدرآمد کریں گے . نیب [/pullquote]

[pullquote]وزیر اعظم ہاوس میں اجلاس ،شرکاء نے وزیراعظم کو مستعفیٰ نہ ہونے کا مشورہ دیا . جے آئی ٹی نے اختیارات سے تجاوز کیا ،رپورٹ کو چیلنج کیا جائے گا . [/pullquote]

[pullquote]سارا راز والیئم 10 میں ہے‘ دانیال عزیز[/pullquote]

مسلم لیگ نواز کے رہنما دانیال عزیز نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیئم 10 کو جس میں قانونی دلائل شامل ہیں، اسے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔

خیال رہے کہ یہ اس رپورٹ کا وہی حصہ ہے جسے عدالت نے جے آئی ٹی کی درخواست پر خفیہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے باقی رپورٹ فریقین کے حوالے کرنے کو کہا ہے۔

دانیال عزیز نے کہا کہ سارا راز تو اسی والیم میں ہے اور سوال اٹھایا کہ جے آئی ٹی کی اس والئیم کو خفیہ رکھنے کی وجہ کیا ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس حصے کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔

’اگر تصویر لیک ہو سکتی ہے تو کیا والیئم 10 نہیں لیک ہو سکتا؟ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے کل عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ اس میں ایسا کیا ہے؟

[pullquote]ہمارے خدشات درست ثابت ہوگئے:عمران خان[/pullquote]

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جے آئی ٹی کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سارے خدشات درست ثابت ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان 30 برس سے ملک کو لوٹ رہا ہے اس لیے تفتیش ضروری تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ سچ سامنے آ گیا، آج ثابت ہوگیا کہ مریم نوازلندن فلیٹس کی اصل مالک ہیں، مجرم کی مددکرنے والابھی مجرم ہوتاہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ہمیں بلیک میل کرنے اور منہ بند کروانے کیلئے انہوں نے سب کچھ کیا، حکومت نے چوری چھپانے کے لیے اداروں کوتباہ کیا،سپریم کورٹ کو انھوں نے جعلی دستاویزات دیے، چیئرمین ایس ای سی پی نے شریف خاندان کی کرپشن بچانے کے لیے جعل سازی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ٹیکسوں پرپلنے والے وزرا شریف خاندان کی کرپشن بچارہے ہیں جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے بجائے میرےخلاف بھیج دیا۔

حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بہت کوشش کی گئیں اور مجھے بھی بلیک میل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن میں مقدمات بھی دائر کئے گئے۔

وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو تحقیقات کے دوران بھی وزیراعظم نہیں ہوناچاہیے تھا اور جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد انھیں فوری طورپرمستعفی ہوجانا چاہیے اور ان کا نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اگلا سوموار ابھی دور ہے تب تک یہ کس منہ سے حکمرانی کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ رپورٹ میں نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں، میں جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آج نواز شریف بھی دبئی میں آف شور کمپنی کے مالک نکلے ہیں، نواز شریف اس قوم کے مجرم ہیں اور اب چھوٹے اور بڑے گاڈ فادر کو استعفی دینا ہو گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناماکیس کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے 60 روز مکمل ہونے پر اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

[pullquote]سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازع تصور کرے،فضل الرحمٰن[/pullquote]

لاہور(ایجنسیاں)جے یو آئی ( ف )کے سر براہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہاہے کہ جے آئی ٹی سے ایک فریق مطمئن نہیں ، جے آئی ٹی کا کردار متنازع ہو چکا ہےاس لئے سپر یم کورٹ بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو متنازعہ ہی تصور کر ے۔
ہم نوازشر یف کےلئے کوئی مشکل پیدا نہیں کر ناچاہتے ہیں کیونکہ ہم دوستیاں نبھانے والوں میں سے ہیں دوستیاں اجاڑنے والوں میں سے نہیں جو خود آف شور کمپنی کا مالک ہے وہ نوازشر یف کے خلاف کیس میں کیسے مدعی بن سکتا ہے ؟‘احتساب کسی ایک کا نہیں سب کا مگر شفاف ہونا چاہیے۔

[pullquote]
فوٹو لیک کا معاملہ[/pullquote]

جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی فوٹو لیک کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو اس میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔

تصویر لیکس کے معاملے پر عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ اگر وہ چاہے تو ذمہ دار کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، کیونکہ کمیشن بنانے کا معاملہ عدالت کے دائر اختیار میں نہیں آتا۔

اس موقع پر عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تصویر لیک کےذمہ دار کا نام منظر عام پر لایا جائے۔

تاہم عدالت نے ساتھ ہی واضح بھی کیا کہ ‘ہمارے خیال میں تصویر لیکس کے معاملے پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے کہنے کے باجود پر حکومت نے ذمہ دار کا نام ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں لی’۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نام منظر عام پر لانے پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں۔

[pullquote]ایس ای سی پی چیئرمین کے خلاف مقدمے کا حکم[/pullquote]
بعد ازاں جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کال اور ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف آج ہی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس کے کہنے پر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم جاری کردیا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔

[pullquote]جنگ گروپ کو توہین عدالت کا نوٹس[/pullquote]
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے غلط رپورٹنگ کرنے پر جنگ گروپ کے پبلشر، ایڈیٹر اور پرنٹر کے نام طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ، رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمٰن کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے معاملات دیکھنے کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ جس نے اسٹوری فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے سیاسی مشیر آصف کرمانی اور دیگر لیگی رہنماؤں طلال چوہدری اور سعد رفیق کی جانب سے کی جانے والی تقاریر کا متن طلب کرتے ہوئے کہا کہ تقاریر میں جے آئی ٹی کو دباؤ میں لانے کے ساتھ عدالت کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔

عدالت نے جے آئی ٹی ممبران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اٹارنی جنرل کو حکم جاری کرتے ہوئے پاناما کیس کی سماعت آئندہ پیر (17 جولائی) تک لیے ملتوی کردی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جے آئی ٹی کے تمام ممبران کے دفاتر اور گھروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ مکمل طور پر پڑھ کر آئیں اور اپنے دلائل کو دہرایا نہ جائے۔

[pullquote]فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو قیامت نہیں آئے گی، امیر جماعت اسلامی[/pullquote]

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پاناما اسکینڈل ایک ہوائی فائرنگ ثابت نہیں ہوگا، ہم آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ جمہویت خطرے میں پڑ جائے گی، اگر یہ فیصلہ حکومت کے خلاف بھی آیا تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس سے عوام میں انصاف کی امید جاگی ہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ بااثر افراد نے عدالتوں کو مفلوج کیا ہے، حکومت نے اشتہارات کو بھی رشوت کے طور پر استعمال کیا۔

[pullquote]ٹیمپرنگ اسحٰق ڈار کے کہنے پر کی گئی، فواد چوہدری[/pullquote]

پاناما کیس کی سماعت کے بعد رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ اسحاق ڈار کے کہنے پر کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین ظفر حجازی کو جلد از جلد ذمہ داروں کے نام بتانے چاہئیں۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ‘وزیر اعظم پاپا ہیں یا پاپی ایک ہفتے میں فیصلہ ہوجائے گا’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیکنگ کا فائدہ حسین نواز کو پہنچا، آج توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے ہیں جبکہ عدالت نے تمام میڈیا گروپ کو سرکاری اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔

[pullquote]پاناما جے آئی ٹی کی تحقیقات[/pullquote]

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 60 روز کا وقت دیا تھا تاہم گذشتہ ماہ عدالت عظمٰی نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے کہا تھا کہ وہ اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت میں جمع کرائے۔

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ریکارڈ ٹیمپرنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی تجویز دی تھی۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق ایس ای سی پی کے چیئر مین ظفر حجازی ریکارڈ کے ردو بدل میں ملوث پائے گئے ہیں۔

ایف آئی اے نے یہ تحقیقات سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی درخواست پر جاری حکم کے بعد شروع کی تھیں جس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ سرکاری ادارے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے جبکہ کچھ ریکارڈ میں ردوبدل بھی کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے 5 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے تقریبا 2 گھنٹے پیشی کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج وہ قرض بھی اتار دیئے جو واجب نہیں تھے، میں جے آئی ٹی کے تمام سوالوں کے جواب دے آئی ہوں۔

مریم نواز نے کہا کہ مخالفین بیٹی کا نام استعمال کرکے باپ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں، جن کو بیٹیوں کی قدر نہ ہو، وہ یہ باتیں کبھی نہیں سمجھ سکتے، مجھے یہاں اس لیے بلایا گیا ہے کہ ’وزیراعظم کی بیٹی کو بلا کر ان پر دباؤ ڈالا جائے‘۔

اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز، داماد کپٹن صفدر اور وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر الحق حجازی اور پرویز مشرف دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ رہنے والے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل امجد نقوی بھی پیش ہوچکے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز 6 مرتبہ جب کہ چھوٹے صاحبزادے حسن نواز 3 مرتبہ ‘جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔

4 جولائی کو چھٹی پیشی کے موقع پر ساڑھے 5 گھنٹے طویل پوچھ گچھ کے بعد فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسین نواز کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں بلا کر جتنی مرتبہ سوالات کیے گئے، ہم نے جوابات دیے، لیکن سچائی یہ ہے کہ جو سوالات کیے گئے وہ 2 پیشیوں کے تھے، 6 مرتبہ پیش ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے احترام میں ہم یہاں آتے رہے’۔

[pullquote]پاناما انکشاف[/pullquote]

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

[pullquote]اشتعال انگیز تقریر: سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد[/pullquote]

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کردی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی اشتعال انگیز تقریر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

جسٹس افضل اعجاز کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ عدالت میں جمع کرائے گئے دلائل پر جواب دینا چاہتا ہوں، جس پر عدالت نے کہا کہ جب ہم جواب سے ہی مطمئن نہیں تو دلائل کی ضرورت بھی نہیں۔

وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے وضاحت کرنا میری ذمہ داری ہے، چیف جسٹس نے تقریر کا نوٹس لیا تھا از خود نہیں، میڈیا پر خبریں چلی کہ عدالت نے سوموٹو لے لیا ہے، ایسی خبریں چلنے سے نہال ہاشمی کی پارٹی نے بھی انہیں نوٹس جاری کردیا۔

اس کے بعد نہال ہاشمی کے وکیل نے تقریر کا متنازع حصہ عدالت میں پڑھ کر سنائی، جس پر چیف جسٹس شیخ عظمت سعید نے نہال ہاشمی سے پوچھا کہ کیا یہ حصہ آپکی تقریر کا نہیں۔

اس پر نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ تقریر کا حصہ ہے مگر اسے غلط انداز میں پیش کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ حساب لینے والوں تمہارا یوم حساب بنا دیں گے، یہ اشارہ کس کی طرف تھا ، جس پر بنہال ہاشمی کے وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ عمران خان روز کہتے تھے کہ ہم تلاشی لے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اشتعال انگزیز تقریر کیس کی سماعت کرتے ہوئے سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

جس کے بعد عدالت نے جارچ شیٹ نہال ہاشمی کے حوالے کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی۔

[pullquote]چالان انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں جمع[/pullquote]

ادھر کراچی پولیس نے پاناما کیس اور جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں دینے کے مقدمے میں سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف چالان انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں جمع کرادیا۔

پولیس نے حتمی چالان میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں جبکہ منتظم عدالت چالان قابل قبول ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی۔

پولیس کی جانب سے اے ٹی سی میں چالان جمع کرانے کے بعد نہال ہاشمی کو ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے دوبارہ عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے سے پہلے چالان مجسٹریٹ عدالت میں جمع کرایا گیا تھا تاہم عدالت نے کیس کو انسداد دہشت گردی منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

[pullquote]نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر[/pullquote]

یاد رہے کہ رواں برس 31 مئی کو سینیٹر نہال ہاشمی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں اپنی جذباتی تقریر کے دوران وہ دھمکی دیتے نظر آئے تھے کہ ‘پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی’۔

نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

سینیٹر نہال ہاشمی کی غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی، جبکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

تاہم بعدازاں نہال ہاشمی نے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی سے اپنا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دباؤ کے ماحول میں دیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہ کیے جانے اور بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو ‘دھمکیاں دینے’ اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

انضباطی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں متنازع تقریر پر نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی، جس پر وزیراعظم نے کمیٹی کی متفقہ سفارشات کو منظور کرتے ہوئے نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس کی ہدایات کے مطابق خصوصی بینچ نے یکم جون کو اس کیس کی پہلی سماعت کی اور نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو لیگی سینیٹر کی تقریر سے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب گذشتہ ماہ 5 جون کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف ‘عدلیہ کو دھمکانے اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال’ کرنے پر کراچی کے بہادر آباد تھانے میں سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بہادر آباد تھانے کے اہلکار محمد خوشنود کے توسط سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نہال ہاشمی کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 189، 228 اور 505 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا جو سرکاری ملازمین کو دھمکانے، عدالتی کارروائی میں شامل سرکاری ملازم کے کام میں مداخلت اور عوام کی غلط رہنمائی کے ذمرے میں شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کے یوم تکبیر کے موقع پر نہال ہاشمی نے اپنی تقریر کےدوران عدلیہ کے خلاف دھمکی و تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیےاور عدلیہ کے فرائضی منصبی کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی’۔

[pullquote]پی ایس ایکس میں تیزی، 100انڈیکس میں ہزار پوائنٹس کااضافہ[/pullquote]

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز تیزی کا رجحان رہا اور کے ایس ای 100 انڈیکس 1051.66 پوائنٹس کے اضافے سے 46273.81 پوائنٹس پر بند ہوا ۔

کاروباری ہفتے کے پہلے روز مارکیٹ سرمایہ میں 1 کھرب 79 ارب 25 کروڑ 54 لاکھ 49 ہزار 923 روپے کا اضافہ جبکہ خرید و فروخت میں بھی 10 کروڑ 29 لاکھ 30 ہزار 750 حصص کی تیزی رہی۔

تجارتی حجم میں 5 ارب 83 کروڑ 53 لاکھ 36 ہزار 807 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد کے ایس سی حصص انڈیکس 613.27 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جبکہ کے ایم آئی 30 انڈیکس میں 2202.07 پوائنٹس کی تیزی ریکارڈ کی گئی۔

مارکیٹ میں مجموعی طور پر 355 کمپنیوں کے حصص کا لین دین ہوا جن میں سے 279 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں تیزی، 60 کمپنیوں کے حصص کے بھاؤ میں مندی اور 16 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

کمپنیوں کے کاروبار میں سب سے زیادہ تیزی باٹا (پاک) کے حصص کی قیمتوں میں ہوئی جس کے حصص کی قیمت 140 روپے کے اضافے سے 3340 روپے پر بند ہوئی، سانوفیل ایونٹس کے حصص میں بھی 80 روپے کی تیزی سے 1730 روپے پر بند ہوئے۔

یونی لیور فوڈز اور ایکسائیڈ (پاک) کے حصص کی قیمتوں میں سب سے زیادہ مندی میں ہوئی، یونی لیور فوڈز کے حصص کی قیمت 199.94 روپے کی مندی سے 5600.06 روپے اور ایکسائیڈ (پاک) کے حصص کی قیمت بھی 20.44 روپے کی کمی سے 848.56 روپے رہ گئی۔

بینک آف پنجاب کے حصص میں سب سے زیادہ کاروبار ہوا جو 2 کروڑ 17 لاکھ 79 ہزار شیئرز رہا جس کی قیمت 11.40 روپے سے شروع ہو کر 12.10 روپے پر بند ہوئی جبکہ ٹی آر جی پاکستان لمیٹڈ کے 1 کروڑ 68 لاکھ 10 ہزار 500 حصص کے سودے 35.63 روپے سے شروع ہو کر 37.72 روپے بند ہوئے۔

مجموعی طور پر 23 کروڑ 52 لاکھ 97 ہزار 60 حصص کا کاروبار ہوا جس کا تجارتی حجم 12 ارب 81 کروڑ 74 لاکھ 55 ہزار 905 روپے رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے