’گولی کنپٹی چھوتی گزر گئی‘

جس روز سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے دو ججوں نے نواز شریف کی برطرفی کے حق میں اور تین ججوں نے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ دیا اس روز شریف خاندان کے ایک رکن نے کہا ’گولی کنپٹی چھوتی گزر گئی‘۔

اس روز مسلم لیگ نون نے ’جان بچی سو لاکھوں پائے‘ کی خوشی میں اور پی ٹی آئی نے انتخابی شیر کے زخمی ہونے کی سرشاری میں مٹھائی بانٹی۔ دونوں کیمپوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا خیر مقدم کیا اور شریف خاندان کی جانب سے کہا گیا کہ ’ہم پورا تعاون کریں گے اور جو بھی فیصلہ ہوا اس کا احترام کریں گے‘۔ (پاکستان شاید اکلوتا ملک ہے جہاں عدالتی فیصلوں پر عمل کم اور احترام زیادہ ہوتا ہے)۔

مگر جیسے جیسے جے آئی ٹی کی جانب سے فلاں ابنِ فلاں بنتِ فلاں، برادرِ فلاں، دامادِ فلاں، ہم زلفِ فلاں حاضر ہو کی پکار پڑتی چلی گئی توں توں دھواں چھوڑنے والے گولوں اور کیچڑ اڑانے کا کام بھی تیز ہوتا چلا گیا۔

شریف خاندان نے جے آئی ٹی کے سامنے اپنی اجتماعی طلبی کا جس طرح سے خیر مقدم کیا اس پر مجھے حضرتِ جوش ملیح آبادی کی سوانح ’یادوں کی بارات‘ کا ایک قصہ یاد آ رہا ہے۔

لبِ لباب قصے کا یوں ہے کہ جب سرکار نے حکم دیا کہ علاقے کے تمام تعلقہ دار اپنا اسلحہ سرکار کے مال خانے میں جمع کروا کے رسید لے لیں تو چچا جان کا آفریدی خون اس توہین آمیز حکم کی آنچ پر ابل پڑا۔ طے پایا کہ کوتوال فلاں دن اور وقت چچا جان کی حویلی پر آئے گا اور تمام اسلحہ مہربند ہمراہ لے جائے گا۔

جب کوتوال دیوان خانے میں پہنچا اور چچا جان کو آداب کیا تو چچا جان کے گال غصے سے تمتما اٹھے۔ ماحول مکمل سکتہ زدہ تھا۔ ملازموں نے تمام بندوقیں لا لا کر سامنے رکھ دیں۔ چچا جان ایک ایک بندوق اٹھاتے، اس پر جوتا مارتے اور کوتوال کو یہ کہتے ہوئے حوالے کرتے جاتے کہ یہ رکھ لیجیے اور یہ بھی اور یہ بھی اور یہ بھی۔۔۔۔۔اور کوتوال ہر بندوق سلام کرتا وصولتاً جاتا۔

جب تک بھی جے آئی ٹی چلی انصافیے ہوں کہ نونئیے انہوں نے دشنام کا پرانا اور نیا سٹاک گودام سے نکال کر تہذیب کے بازار میں سیل

نون لیگ کے لشکر کے قلب نے پی ٹی آئی کو نشانے پر رکھا۔ میمنہ نے اسٹیبلشمنٹ (ملٹری کریسی ) اور میسرہ نے عدلیہ کو سیدھا نشانہ بنانے کے بجائے ہوائی فائرنگ پر رکھا۔ پیپلز پارٹی کا عبداللہ بھی دیوانہ ہو گیا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کسے چھوڑے کسے نشانہ بنائے۔

میڈیا ان بے مہار لمڈوں جیسا ہو گیا جو ہر کٹی پتنگ کے پیچھے ڈانگ اٹھائے بھاگنے اور ہر بارات میں پیسے لوٹنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس ہڑا ہڑی میں خود جے آئی ٹی بھی کسی سے پیچھے نہ رہی۔ کام کے اس قدر دباؤ کے باوجود اس کے پاس ہر اخبار پڑھنے اور ہر چینل دیکھنے کی فرصت رہی۔

اس کا ثبوت سپریم کورٹ میں ہر پندھرواڑے پیش کی جانے والی وہ رپورٹ ہے جو آدھی سے زیادہ اس تحقیق پر مشتمل تھی کہ کس اخبار اور چینل میں جے آئی ٹی کے ارکان کے لیے کیا چھپا اور کیا بولا گیا۔

جے آئی ٹی میں شریک تفتیش کاروں کے اداروں نے بھی ایک دوسرے کی خوب خبر لی، کون روڑے اٹکا رہا ہے، کون تعاون کر رہا ہے، کون ریکارڈ میں تبدیلی کر رہا ہے، کون سا معلوم مگر نامعلوم ادارہ حسین نواز کی تصویر کی لیک کا ذمہ دار ہے، کون کس کے فون ٹیپ کر رہا ہے اور کون سے ادارے کے سادے جے آئی ٹی کے کس رکن کے گھر کے قریب مونچھوں کو تاؤ دیتے منڈلا رہے ہیں۔

یہ جے آئی ٹی قطری شہزادے کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ جن کے بھیجے دو خطوط کا لبِ لباب وہی تھا جو کوئی معزز افسر بطور کرم فرمائی کیریکٹر سرٹیفکیٹ کے طور پر کسی بھی احسان مند کے لیے لکھ دیتا ہے۔

’باعثِ تحریر آنکہ۔ منکہ مسمی فلاں ابنِ فلاں کو عرصہ پینتیس برس سے جانتا ہوں۔ یہ انتہائی شریف اور قول کے پکے سچے خاندانی آدمی ہیں۔ میں نے انہیں مالی لین دین میں نہایت کھرا پایا۔ دعا ہے کہ یہ جہاں بھی رہیں خوش رہیں۔ نیک تمناؤں کے ساتھ ۔ منکہ مسمی‘۔

ظاہر ہے عدالت ایسے کیریکٹر سرٹیفکیٹ کا کیا کرتی۔ تاوقتیکہ’باعثِ تحریرِ آنکہ‘ بذات خود شہادت کے لیے پیش نہ ہو۔ چنانچہ قرائن نے واضح کر دیا کہ شریف خاندان اور قطری شہزادے کی کاروباری پارٹنر شپ غالباً ویسی ہی ہے جیسی اونٹ اور پہاڑ کے مابین ہوتی ہے۔
جنابِ شیخ نے اپنے دوست کو گرداب سے نکالنے کے لیے اتنی دلچسپی بھی نہ دکھائی جتنی تلور سے ظاہر کی جاتی ہے۔ اب تو مجھے وزارتِ خارجہ کے اس دعوعے پر بھی شبہہ ہونے لگا ہے کہ پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات کا بنیادی ستون تلور ہے۔

دشنامی، بدنامی، غصے اور شرمندگی سے آسمان آلودہ کرنے کے بجائے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ جس روز سپریم کورٹ نے جزوی قصور وار قرار دیا تھا اسی روز شام کو میاں صاحب قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے کہ اگرچہ عدالت نے انہیں حقائق چھپانے کا واضح طور پر مجرم قرار نہیں دیا لیکن جب تک ان کی ذات پر سے شک و شبہے کے بادل نہیں چھٹ جاتے تب تک وہ اپنے عہدے سے کنارہ کش ہوتے ہوئے اپنی بے گناہی کا مقدمہ ذاتی حیثیت میں لڑیں گے اور خدا کے فضل سے سرخرو ہوں گے۔

اگر ایسا ہو جاتا تو وزیرِ اعظم کے ہانکے کی سوچنے والے دھرے رہ جاتے اور جمہوریت کو بہت ہی طاقتور اخلاقی انجیکشن بھی لگ جاتا۔ انجیکشن تو اب بھی لگے گا مگر جانے کسے اور کہاں لگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے