ذوالفقارعلی بھٹو جونئیرکی فتح

کہتے ہیں پہلے زمانے میں بادشاہوں کی لاتعداد بیویاں اور لوندیاں ہوتی تھیں، جن سے بادشاہ سلامت کے درجنوں شہزادے شہزایاں پیدا ہوتے تھے۔ سب کی قسمت میں تخت و تاج کہاں؟ ہما کسی ایک ھی کے نصیب میں ہوتا تھا، جس کی لابی مضبوط یا ماں آخر دم تک بادشاہ کی منظور نظر ہوتی تھی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے باقی کے خاندان عالیہ کے نور چشم کہاں جاتے تھے؟ ان کا آخر بنتا کیا تھا؟

کہیں پڑھا تھا دلی کے لال قلعے کے نزدیک ایک قلعہ مبارک ہوا کرتا تھا، جہاں سابقہ حکمرانوں کی بیوائیں، اپنے یتیم شہزادوں سمیت رہا کرتی تھیں۔ ان قسمت کی ماری خواتین کو ہر آن اس بات کا ڈر رہتا تھا کہ کہیں کوئی ان کے بچوں کے خلاف عالم پناہ کے کان نا بھر دے۔ کہ یہ والا شہزادہ بغاوت پر آمادہ ہے۔ کیونکہ ظل الہی ہمیشہ کانوں کے کچے اور دل میں سہمے رہتے تھے۔ اس لئے گمان غالب یہی ہے کہ باغی شہزادے سیدھے تختہ دار پر لٹکا دیے جاتے تھے۔

اب کہانی کا دوسرا رخ کچھ یوں ہے کہ سازشی عناصر، اسٹبلشمنٹ وغیرہ بھی کسی آسان شکار کی تلاش میں رہتے تھے، جسے بادشاہ کے سامنے کھڑا کیا جا سکے۔ خاص کر ایسا شہزادہ جس سے فوج میں آسانی سے ہمدرد مل سکیں اور عوام کی بھی جذباتی وابستگی ہو۔ ان شہزادوں کی زندگی سمجھیں ہر لمحہ داؤ پر ہوتی تھی۔ اسلئے کچھ مائیں اپنے بچوں کی چھپانے لگتی تھیں۔ ان کو زنانہ ملبوسات و زیورات پہنا کر حرم سرا میں محفوظ کرتی رہتی تھیں۔

یہ کہانی آج سنانے کی وجہ ہے ذوالفقارعلی بھٹو جونئیر، ایک بڑے باپ کا بیٹا، ایک عظیم دادا کا وارث اور ایک بہادر پھوپھی کا بھتیجا۔
جونئیر کی قسمت بہت اچھی ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں جی رہا ہے۔ اسے امریکہ جیسے ملک تک رسائی ہے جہاں آزادی رائے اور انسانیت کی قدردانی کی روایت ابھی زندہ ہے۔

جونیئر بھی خاندان عالیہ کا وہ عالیشان شہزادہ ہے جسے دادا کی پگھڑی پہنانے کا ارمان بہت سے دلوں میں کروٹیں لیتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی ماں بھی اسی ترپ کے پتے کی جوانی کا انتظار کرتی آئی ہے۔ بس جونئیر نے اس آزمائشی قلعے کی دیوار خود پھاند لی ہے۔ اور سیدھا مجسمہ آزادی کے سائے میں جا پہنچا ہے۔

اس نے کسی بادشاہ، کسی سٹیٹس کو کو نہیں للکارا، نہ اس کی بغاوت کسی سسٹم کے خلاف ہے۔ بس جونئیر نے خود آگاہی کی طرف قدم بڑھا دیے ہیں۔ اس کی کشمکش، اس کی تگ و دو اس کی اپنی ذات کی تلاش میں ہے۔ وہ کسی انجانے ہاتھ میں کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا۔ وہ اپنی زندگی جینا چاہتا ہے۔

جونئیر بہادر ہے وہ نا صرف اس حکمرانی کے سراب سے نکل گیا ہے بلکہ اس نے اس خونی جنگ میں، بغیر لڑے اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہے۔ اس نے دادا، باپ، پھوپھی اور چچا کے خون سے یہ سبق سیکھا ہے کہ مرد کی شان انتقام میں نہیں بلکہ انسان بن رہنے میں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے