نااہلی کیس: عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حکم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے عمران خان کی جانب سے مناسب معاونت فراہم نہ کرنے اور ان کے وکیل کی غیر حاضری پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان خود عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ کیس کو کس طرح آگے چلانا ہے؟

عدالت نے عمران خان کے لندن فلیٹ کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو کیری پیکر سے ملنے والی ایک لاکھ 88 ہزار پاؤنڈ کی رقم کے ثبوت بھی عدالت کو فراہم کیے جائیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کے وکیل پیش نہیں ہوئے ہیں۔

جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کو سمجھنے کے لیے عمران خان سے اہم سوالات کی وضاحت مانگی تھی تاہم ہمیں جواب نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کے ججز اپنی چھٹی منسوخ کر کے کیس کو سن رہے ہیں، عمران خان کو کیس کی پیروی کے لیے متبادل وکیل کا انتظام کرلینا چاہیے تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن نے آج تک کسی سیاسی جماعت کے غیر ملکی اثاثوں اور فنڈز کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں اور الیکشن کمیشن سیاسی جماعت کے بیان حلفی پر گزٹ جاری کر دیتی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا بیان حلفی جھوٹا ثابت ہو اور غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہو جائے تو الیکشن کمیشن کارروائی کا اختیار رکھتا ہے، غیر ملکی فنڈز ثابت ہونے پر بحق سرکار ضبط کر لیے جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے غیر ملکی فنڈنگ تو کیا، کبھی مقامی فنڈنگ کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کو پیش نہیں کیں، سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی جلسوں کے اخراجات جمع کرانے کا رواج بھی نہیں، پیسے کے زور پر الیکشن جیتے جاتے ہیں۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران مقرر کردہ اخراجات کی حد سے مہنگا تو پارٹی ٹکٹ ہی ہوتا ہے، الیکشن کمیشن پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت کے غیر ملکی فنڈز کے حوالے سے تحقیقات کرنا چاہ رہا ہے تو اس کے دائرہ اختیار کو بار بار چیلنج کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈز کے حوالے سے غلط بیان حلفی جمع کراتی ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے مگر اس حوالے سے ہمارے اختیارات محدود ہیں اور ہمیں سپریم کورٹ کی مدد چاہیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ سیاسی جماعتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان کے فنڈز کی چھان بین کی جائے، ایک پارٹی کے کھاتے کھولے ہیں تو 2014 سے مشکل میں ہیں۔

ابراہم ستی نے کہا کہ اگر عدالت تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے کمیشن بنانا چاہیے تو الیکشن کمیشن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کئی سال سے الیکشن کمیشن سویا ہوا تھا، الیکشن کمیشن کو سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے، دیگر سیاسی جماعتوں کی بیرون ملک کمپنیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں، اگر الیکشن کمیشن بیس میں سے ایک سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی کرے گا تو اس پر تعصب کا الزام لگے گا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بطور نان ریذیڈنٹ پاکستان سے کمائی گئی رقم پر ریٹرنز جمع کرایا جائے۔۔۔؟ جس پر عدالت کے معاونت کے لیے موجود چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ نان ریذیڈنٹ کے اثاثے 25 لاکھ سے زیادہ ہوں تو ظاہر کرنا ضروری ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سال 2000 میں ویلتھ ٹیکس کا قانون ختم کر دیا گیا، ٹیکس حکام کو مطمئن کرنا ٹیکس دہندہ کی زمہ داری ہے، جس نے کبھی ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرائے ہوں وہ دس سال پرانے معاملات بتانے کا پابند ہے۔

جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی منشیات کے پیسے سے اثاثے بنائے تو پندرہ سال بعد بھی اس سے کوئی نہیں پوچھتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ٹیکس دینے والا شخص پھنس جاتا ہے اور ٹیکس نہ دینے والا بچ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد کم ہے۔

اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 14 جولائی تک کے لیے ملتوی کردی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے