کراچی سے ڈیڑھ گنا برفانی تودہ انٹار کٹیکا سے الگ

کراچی سے لگ بھگ ڈیڑھ گنا بڑا برفانی تودہ انٹار کٹیکا سے الگ ہوکر سمندر میں بہنا شروع ہوگیا ہے۔

انٹارکٹیکا کے برفانی خطے لارسن سی سے الگ ہونے والے اس برفانی تودے کا رقبہ 5800 اسکوائر کلومیٹر، جبکہ وزن ایک کھرب ٹن ہے اور یہ بدھ کو برفانی براعظم سے الگ ہوگیا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس برفانی تودے کی علیحدگی اس براعظم کے زمینی حقائق کو بدل کر رکھ دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے کیونکہ اتنے بڑے برفانی تودے کو پہلی بار انٹار کٹیکا سے الگ ہوتے دیکھا گیا۔

اس سے قبل 2000 میں اس سے 50 فیصد چھوٹا تودہ روس آئس شیلف سے الگ ہوتے دیکھا گیا تھا۔

اس برفانی تودے کے الگ ہونے سے کئی سال پہلے ہی ایک بہت دراڑ نمودار ہونے لگتی تھی مگر رواں سال مئی کے آخر میں یہ دراڑ 17 کلو میٹر تک پھیل گئی تھی جبکہ جون کے آخر میں اس کی رفتار تیز ہوگئی اور روزانہ دس میٹر سے زائد تک پہنچ گئی تھی۔

اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ ایک بہت بڑا برفانی تودہ ہے مگر وقت کے ساتھ اور سمندر کے گرم پانیوں میں پہنچنے کے بعد چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ براعظم انٹار کٹیکا میں اتنی برف موجود ہے کہ اگر وہ سب پھگل جائے یا سمندر میں شامل ہوئے تو سمندری سطح ساٹھ میٹر تک بڑھ جائے گی۔

اگرچہ اتنا بڑا برفانی تودہ حیران کن لگتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس سے سمندری سطح نہیں بڑھے گی۔

تاہم مستقبل قریب میں اس طرح کا سلسلہ جاری رہا یا انٹار کٹیکا کی برف پگھلتی رہی تو دنیا کے چند بڑے ساحلی شہروں جیسے میامی، نیویارک، ممبئی اور شنگھائی کی بقاءکو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

سائنسدانوں کے پاس انٹارکٹیکا میں موسم کی صورتحال کے حوالے سے مستقبل کی معلومات موجود نہیں جس نے انہیں زیادہ فکر مند کیا ہوا ہے۔

کمپیوٹر کی پیشگوئی سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر اسی شرح سے زہریلی گیسوں کا فضاءمیں اخراج جاری رہا تو دنیا بھر کا موسم زیادہ گرم ہوگا جس کے نتیجے میں برفانی براعظم کے مختلف حصے تیزی سے پگھل جائیں گے جس سے اس صدی کے آخر تک سمندری سطح میں چھ فٹ یا اس سے زائد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق کسی تحقیق کے نتائج سامنے آنے میں کئی برس لگ جائیں گے مگر سمندری سطح کی رفتار بڑھنے کے حوالے سے فوری تفصیلات جاننا ضروری ہے۔

ابھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ انٹارکٹیکا کے مختلف حصے کب تک پگھل کر سمندر کا حصہ بن جائیں گے مگر کچھ بدترین پیشگوئیاں یہ ہیں کہ ایسا رواں صدی کے وسط میں ہوسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے