نوجوانوں کی دھواں دھواں زندگی

نوجوان کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اسی وجہ سے ان کی کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کو دنیا بھر میں اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے مستقبل کا دارومدار ان کی نوجوان نسل پر انحصار کرتا ہے ۔ایک صحت مند نوجوان اپنے خاندان اور ملک کی تعمیر و ترقی میں سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے اور اگر بدقسمتی سے یہ نوجوان بھی بیمار اور لاغر ہو جاہیں تو ملک و قوم کی بنیادیں جو ان کی شخصیت پر قائم تھی کھوکھلی ہو جاتی ہیں ۔

عصرحاضر میں نوجوان کی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تمباکو نوشی کی صورت میں سامنے آیا ہے اج کا نوجوان جس تیزی کے ساتھ تمباکو نوشی کی طرف راغب ہوتا دکھائی دے رہا ہے یہ ایک خطرناک اقدام ثابت ہو سکتا ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق انیس فیصد بالغ افراد تمباکو نوشی کا شکار ہیں ان بالغ افراد میں طلباو طالبات کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے ایک سروے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ہزار سے بارہ سو سگریٹ نوشی کا آغاز کرتے ہیں ۔

تمباکو نوشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ میڈیا پر چلنے والے پر کشش اشتہارات ہیں ۔نوجوان جب میڈیا پر متاثرکن اور پر ترغیب اشتہارات دیکھتے ہیں تو وہ فوراسگریٹ نوشی کو بطور فیشن اختیار کرتے ہیں اور یہ فیشن کچھ عرصے میں ان کی کمزوری بن جاتا ہے سگریٹ نوشی سے یہ چلنے والا سفر شیشے سے ہوتا ہوا منیشات کے استعمال پر جا کر ختم ہو جاتا ہے ۔

تمباکو میں موجودنکوٹین دماغ میں موجود کیمکیل مثلا ڈوپامائن اور انیڈو فائن کی سطح بڑھا دیتا ہے جس کی وجہ سے نشہ کی عادت پڑ جاتی ہے یہ کیمکیل خوشی یا مستی کی حسیات کو بیدار کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی جسم کو نشہ ور مصنوعات کی طلب ہونا شروع ہو جاتی ہے ان عادات کو کسی بھی صورت ترک کر دینے کا اختیار ایک انسان کے بس میں نہیں رہتا کیونکہ جسم میں نکوٹین کی کمی سے طبعیت میں پریشانی ،اضطراب ،بے چینی ،ڈپریشن کے ساتھ ساتھ ذہنی توجہ کا فقدان ہو جاتا ہے ۔

تمباکو نوشی بہت آہستگی کے ساتھ انسان کے جسم کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انسان کو کہیں سالوں تک اپنے اندر ہونے والے نقصانات کا اندازہ نہیں ہو پاتا ہے ۔جب یہ نقصانات واضح ہونا شروع ہوتے ہیں تب انسان ٹمٹاتی ہوئی شمع کی مانند ہوتا ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتی ہے ۔

پاکستان میں تقریباچون فیصد نوجوان سگریٹ نوشی جیسی لعنت سے منسلک ہیں ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد حلق اور پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے موت کی گود میں سو جاتے ہیں ۔

آج کا نوجوان سگریٹ کی بجائے شیشے کے فیشن کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں جگہ جگہ شیشہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں ۔حکومتی ادارے اور محکمہ صحت ان کیفوں سے متعلق بالکل بے نیاز دکھائی دیتے ہیں جبکہ شیشہ سیگریٹ کی نسبت چار سو گنا زیادہ نقصان دہ ہے جہاں ایک سگریٹ چار سے پانچ منٹ میں ختم ہوتا ہے وہاں شیشہ چالیس سے پچاس منٹ میں ختم ہوتا ہے ایک شیشہ بیس سگریٹ کے برابر ہوتا ہے ۔

شیشے کی ایک کش کے دھویں میں ہزار کیمکل ہوتے ہیں جن میں سے سو سے زائد سرطان کا سبسب بنتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سگریٹ پیینے والوں کی نسبت شیشہ پینے والوں میں پھپھڑوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں ۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ۵۱۰۲ میں زیادہ اموات کی وجہ تمباکو نوشی کو قرار دیا گیا ہے ۲۱۰۲ میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن آفسوس آج تک اس پر عمل درآمد نہ کروایا جا سکا یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ میں سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاء پر ڈیوٹی لگا کر اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ۸۹۹۱ سے تاحال پاکستان میں تمباکو نوشی میں ۰۳ فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے ۔

متذکرہ بالا تمام اعداد و شمار بجا طور پر انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے باآسانی سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکے طلباو طالبات ہمارے ملک کا قمیتی سرمایہ ہیں انھیں تمباکو نوشی اور منیشات جیسے عفریت سے بچانے کے لیے جنگی بنیادوں پر فیصلوں کی ضرورت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے