جےآئی ٹی رپورٹ ۔ایک ٹھنڈا ٹھار مختصر ساجائزہ ؟

میرے جو دوست چند ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز پر انحصار کرکے اپنی رائے قائم کرتے ہیں وہ ذرا اس تنگنائے سے نکل کر عوام کے کھلے سمندر میں جائیں اور دیکھیں کہ وہ نواز شریف اور ان کی حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہو کہ وزیر اعظم کی کردار کشی پر عوام کے غم وغصے کا پارہ کس درجے پر ہے جو دوست جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھے بیٹھے ہیں وہ ذرا انتظار کریں آہستہ آہستہ اس جے آئی ٹی کے جھوٹ ، الزام اور بہتان تراشیوں کی حقیقت بھی سامنے آ جائے گی بلکہ آنا شروع ہو گئی ہے۔میرے لئے ایک صورتحال بہت حیران کن ہے کہ بعض پڑھے لکھے لوگ جو یک طرفہ زہریلے پراپیگنڈے کے زیر اثر آ گئے تھے حقیقت حال سامنے آنے پر نہ صرف یہ کہ ان کی رائے بدل گئی ہے بلکہ وہ سوشل میڈیا پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ میں گزشتہ روز حیران رہ گیا جب میں نے بین الاقوامی شہرت کے حامل دانشور محمد حنیف کا کالم ’’نواز شریف کا ڈولی ڈنڈا‘‘ بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر پڑھا ان کا نواز شریف اور ان کی جماعت سے دور کا تعلق بھی نہیں مگر انہوں نے جو کھچڑی پکائی ہے اس طرح نصرت جاوید بھی ایک نیوٹرل دانشور ہے وہ بھی پے درپے ایسے کالم لکھ رہا ہے جو اس صاف ستھرے کردار کے حامل شخص کو لکھنے چاہئیں۔تاہم اس سارے معاملے میں میرے لئے تشویش کا ایک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور فوج پر بھی کچھ چھینٹے پڑنے لگے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں ان اداروں اور ان کے حوالے سے لکھنے والے دونوں فریقوں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

میں ابھی یہ سطور لکھ رہا تھا کہ ایک دوست نے فیس بک کی ایک تحریر مجھے ارسال کی جس کے رائٹر کے نام کی بجائے ’’نامعلوم‘‘ لکھا ہوا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آئی کہ رائٹر کو اپنا نام چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ یہ تو ایک تجزیاتی تحریر ہے اور بہت معروضی نوعیت کی ہے میں ذیل میں درج کر رہا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میں جو بار بار ایک بات کہہ رہا ہوں کہ اب لوگ ایک مختلف انداز میں سوچنے لگے ہیں وہ کتنی صحیح ہے۔ تحریر ملاحظہ کریں اور مجھے اجازت دیں۔

وہی ہو رہا ہے جو ہر مرتبہ ہوتا چلا آیا ہے پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کے سپوت اور سپتریاں بے لاگ تبصرے فرمارہے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کے علم اٹھائے اپنا اپنا کلمہ حق بلند کئے ہوئے ہیں ۔تحریک انصاف والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کل کے چڑھتے سورج کو وزیر اعظم بن جا ئیں گے اور اگلے ساڑھے تین ہزار سال پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھے گا جبکہ مسلم لیگ نواز کے دوست اس بات پر تلملا رہے ہیں کہ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کی SUBSERVIENTرپورٹ تحریر کیوں نہیں کی۔ طرفین کی تسلی کے لئے چند ایک نکات درج ہیں اپنی اپنی مرضی سے پڑھ لیجئے ۔

1۔جے آئی ٹی کی رپورٹ آئینی طور پر Controversyنہیں ہے یہ صرف سفارشات ہیں جو پانچ افراد نے بہت ساری Bindingکے بعد تیار کی اور سپریم کورٹ کو پیش کر دیں۔

2۔سپریم کورٹ ان سفارشات کی روشنی میں پانامہ کیس پر اپنی کارروائی آگے چلائے گی تحریک انصاف والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب اب سیدھا ڈس کوالیفائی ہوں گے اور مسلم لیگ والے سپریم کورٹ کو ایک بلڈوزر کے روپ میں دیکھ رہے ہیں (میں نے کہیں کوئی توہین تو نہیں کر دی)یہ دونوں پیرائے غلط ہیں ۔

3۔مسلم لیگ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ رد کر دی ہے اور سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کے باب کے حوالے سے یہ معاملہ سپریم کورٹ کو سننا ہی پڑے گا اس سلسلہ میں جواب الجواب کے معاملات ہوں گے اور یہ ڈیڑھ دن میں ختم نہیں ہو گا تحریک انصاف سے معذرت ۔

4۔اول تو اس کی امید نہیں ہے مگر سپریم کورٹ بالفرض اگر تحریک انصاف کی مرضی کا فیصلہ دے بھی دیتی ہے تو اک خیال ہے کہ مسلم لیگ نواز اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کرے گی یا تو اس فیصلہ کو چیلنج کیا جائے گا یا پھر پارلیمان کی طاقت جو کہ اصل طاقت ہے چاہے برا لگے یا اچھا سے اس معاملے پر اپنا بھرپور دفاع کیا جائے گا چیلنج کرنا یا پارلیمان کے ذریعے سے اس کا دفاع کرنا دونوں کسی بھی پارلیمانی جماعت کا بنیادی آئینی و سیاسی حق ہے ۔

5۔جے آئی ٹی نے یہ معاملہ نیب کے سپرد کرنے کی استدعا کی ہے اس سے صاحبان بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے دونوں صاحبزادوں پر اصولاً پاکستانی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا چاہے اچھا لگے یا برا اور یہ ایک رستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے جبکہ وزیر اعظم کے پاس ابھی استثنیٰ کا حق بھی محفوظ ہے اور ہاں نیب بھی کوئی ڈیڑھ دن میں اپنا فیصلہ نہیں دے گا ۔ تحریک انصاف سے ایک بار پھر معذرت۔

6۔سپریم کورٹ اگر سیاسی معاملہ پر اپنی قانونی رائے کو Absolutismکے نظریہ سے نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ڈیڑھ کروڑ ووٹس لینے والی سیاسی جماعت اپنا ردعمل دے گی۔طرفین کے پاس شاندار قانونی ماہرین موجود ہیں ایک بہت عمدہ سیاسی جدوجہد دیکھنے کو ملے گی چاہے اچھا لگے یا برا میرا ووٹ سیاسی جماعت کی جانب ہو گا اور سیاسی جماعت کی جانب ہی ہوتا۔
اگر میاں صاحب کی جگہ گیلانی صاحب یا عمران خان صاحب بھی ہوتے تو ۔

7۔یہ معاملہ فاسٹ ٹریک نہیں ہے سپریم کورٹ اس بات کو سمجھتی ہے ۔حکومتی ماہرین بھی اور آئین کے ماہر قانون دان بھی یہ قانونی لڑائی کا آغاز ہے انجام نہیں ۔ آنے والے دن ٹھنڈے دل و دماغ والے کے لئے بہت عمدہ تاریخ لئے ہوں گے ۔گرم دماغ اپنا تعلق پڑھی لکھی مڈل کلاس سے ثابت کرنے میں مکمل آزاد ہیں ۔

8۔آخری:یہ معاملہ اخلاقیات کا ہے ہی نہیں یہ معاملہ سیاسیات اور قانون کا ہے لہٰذا مسلم لیگ کو کسی بھی قسم کے نام نہاد اخلاقی دبائو میں آئے بغیر اس معاملہ کو سیاسیات اور قانون کے Dynamicsکے مطابق ہی دیکھنا چاہئے اس معاملہ کو اخلاقیات کی بانسری بجاتے صاحبان جان لیں کہ پھر یہ لڑھکتا ہوا ’’اخلاقی پتھر‘‘ بہت سوں کوساتھ ہی لئے جائے گا ۔
بحیثیت ایک سیاسی پاکستانی شہری میں عوام کے ڈیڑھ کروڑ ووٹ سے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑا ہوں سیاسی معاملات عوام کی عدالت یا پارلیمان میں طے ہوتے ہیں عدلیہ کا احترام سر آنکھوں پر مگر جسٹس منیر یاد آتے ہیں مولوی مشتاق مرحوم یاد آتے ہیں۔ جسٹس نعیم حسن شاہ یاد آتے ہیں اور جسٹس افتخار چوہدری صاحب بھی یاد آتے ہیں ۔وائن کی دو بوتلیں یاد آتی ہیں کمردرد میں مبتلا دبئی میں ناچتے ایک عظیم کمانڈو یاد آتے ہیں لہٰذا عمر کے 45ویں سال میں اپنی زندگی کے آخری پچیس تیس سال دائروں میں گھومتے ایک سیاسی غلام کی حیثیت سے جینے کا دل نہیں کرتا۔
حکومت صرف اس سیاسی جماعت کا حق ہے جسے پاکستانی شہری اپنے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں مسلم لیگ کو یہ اننگز پوری طرح ڈٹ کر کھیلنا ہو گی پاکستان کے لئے پاکستان کے شہریوں کے لئے اور ان نادان جماعتوں کے لئے بھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ جماعت گرے گی تو اس کے بعد رام نیازی صاحب اسلام آباد کی چوٹی کے سنگھاسن پر بیٹھے اپنی بغل اور راولپنڈی میں بیٹھی سیتا کو بانسری سناتے ہوئے پانچ سال آرام سے گزار لیں گے۔
اس پہیلی کو سمجھنے کے لئے جناب محمد اصغر خان صاحب سے رابطہ کر لیجئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے