اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

بزرگوں نے سچ کہا تھا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ چھپانے کیلئے بہت سے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ پاناما کیس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سچائی کو چھپانا بہت مشکل ہے۔اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے اکثر اہل وطن کے احساسات افتخار عارف کے اس شعر کے عین مطابق تھے؎

حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

رپورٹ سامنے آنے کے بعد اکثر اہل تذبذب کی ذہنی کشمکش ختم ہوچکی ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ایسی دستاویزات شامل کردی ہیں جن کو جعلی قرار دینے کا مطلب چاند پر تھوکنے کے سوا کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستا ن کی ایک اہم سیاسی شخصیت کو یقین ہے کہ سپریم کورٹ نواز شریف کے خلاف ویسا فیصلہ نہیں دے گی جیسا یوسف رضا گیلانی کے بارے میں دیا گیا تھا۔ کوئی ریفرنس دائر کردیا جائیگا یا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا اور پاناما کیس کی کہانی اگلے الیکشن سے پہلے اپنے انجام کو نہیں پہنچے گی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس اہم سیاسی شخصیت کا تعلق مسلم لیگ(ن) سے ہوگا۔ جی نہیں! اس بہت اہم اور قابل احترام سیاسی شخصیت کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ پارلیمنٹ کے ایک اہم عہدے پر فائز ہے، اگر آپ کا ذہن اعتزاز احسن کی طرف جارہا ہے تو یہ ناچیز آپ سے معذرت خواہ ہے۔ اس شخصیت کا تعلق پنجاب سے نہیں اور اسے آج بھی یقین ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ تمام تر ثبوتوں کے باوجود لاہور کے وزیر اعظم کے خلاف وہ فیصلہ نہیں دے سکتی جو ماضی میں لاڑکانہ اور ملتان کے وزرائے اعظم کے خلاف دیا جاتا رہا۔ میں نے بہت ادب کے ساتھ اس قانون دان شخصیت سے اختلاف کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ناقابل تردید دستاویزی ثبوت موجود ہیں، جج صاحبان ان ثبوتوں کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں؟اس مرد درویش نے ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ میری دلیل کو اپنے سگار کے خوشبودار دھوئیں میں اڑادیا اور کہا کہ تم بھی یہیں ہو اور میں بھی یہیں ہوں۔

ایک طرف مسلم لیگ(ن) ہے جو جے آئی ٹی کی رپورٹ کو غیر ملکی سازش اور جنرل ضیاءالحق کا ریفرنڈم قرار دے رہی ہے، دوسری طرف جنرل ضیاء کے دور میں قیدیں کاٹنے والے کچھ سیاستدان ہیں جنہیں ماضی کے تجربات کی روشنی میں یقین ہے کہ ڈکٹیٹر لاڑکانہ کے وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں لیکن لاہور کے وزیر اعظم کو ’’این آر او‘‘ کے تحت سعودی عرب بھیج دیتے ہیں۔ جج صاحبان ملتان کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے سکتے ہیں لیکن لاہور کے وزیر اعظم کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے سو مرتبہ سوچیں گے۔ بہرحال فیصلہ جو بھی ہوگا سپریم کورٹ کو کرنا ہے لیکن میرا آپ سے وعدہ ہے کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آگیا تو میں اس اہم سیاسی شخصیت کے بارے میں خاموش رہوں گا، اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف نہ آیا اور لٹک گیا تو اس شخصیت کا نام آپ کو ضرور بتادوں گا۔
اب آئیے ذرا جے آئی ٹی کی رپورٹ کی طرف۔ رپورٹ کے سامنے آنے سے کافی دن پہلے ایک وفاقی وزیر نے اس ناچیز کے ساتھ شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل آپ کا لب و لہجہ بڑا سخت ہے کیا کوئی ناراضی ہے؟ یہ سن کر میں ہنس دیا عرض کیا کہ سوال اٹھانا ہر سچے صحافی کا شیوہ ہوتا ہے۔ میں نے بھی اپنی بساط کے مطابق کچھ سوالات ا ٹھائے تو مجھے جواب دینے کی بجائے خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ خوش کرنے کی اس ناکام کوشش نے مجھے ناراض تو نہیں کیا البتہ خبردار ضرور کردیا اور جب میں نے مزید سوالات اٹھانے شروع کئے تو پھر جو ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے۔ غیروں سے شکوہ نہیں لیکن جو ستم اپنوں نے ڈھائے وہ مجھے بار بار خاطر غزنوی کی یاد دلاتے تھے جنہوں نے کہا تھا؎

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

عرض صرف یہ کرنا ہے کہ میں بہت گنہگار بندہ ہوں۔ کبھی دیانت و ا مانت کا پیکر بننے کی کوشش نہیں کی لیکن جو خریدنے آئے انہیں یہ ضرور بتادیاکہ ہر صحافی قابل فروخت نہیں ہوتا۔ خرید و فروخت کی یہ منڈی ان لوگوں نے سجائی تھی جنہیں عرف عام میں درباری کہا جاتا ہے اور جنہیں چوہدری نثار علی خان خوشامدی مشیر قرار دیا کرتے ہیں۔

ذرا سوچئے! اگر ایک صحافی کا منہ بند کرنے کے لئے اتنے حربے آزمائے جاسکتے ہیں تو جے آئی ٹی کے ا رکان کو قابو کرنے کے لئے کیا کچھ نہ ہوا ہوگا؟ ان جے آئی ٹی ارکان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا اور توقع سے زیادہ ہمت دکھائی۔ ہاں! انہیں غیبی مدد بھی ملی۔ جی ہاں! بالکل غیبی مدد ملی۔ یہ غیبی مدد شریف خاندان کے اندر سے ملی۔ جے آئی ٹی کو شریف خاندان کے اندر سے ایسی دستاویزات اور اطلاعات مل گئیں جن کے طشت ازبام ہونے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ آپ جے آئی ٹی رپورٹ کو غور سے پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے اکثر حضرات کے بیانات آپس میں نہیں ملتے۔ حسین نواز اور طارق شفیع ایک دوسرے کے بیانات کی نفی کرتے رہے اور طارق شفیع کے کئی دعوے شہباز شریف نے جھٹلا دئیے۔نواز شریف نے اپنے خالو جان محمد حسین کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کردیا جو گلف اسٹیل میں پارٹنر تھے لیکن اڑھائی گھنٹے بعد انہیں خالو جان یاد آگئے۔ وزیر اعظم پاکستان 2014تک دبئی میں رجسٹرڈ ایک کمپنی ایف زیڈ ای کیپٹل کے بورڈ چیئرمین تھے اور دستاویز ات کے مطابق وہ اس کمپنی سے دس ہزار درہم ماہانہ تنخواہ لیتے تھے۔ انہی دستاویزات کے ذریعہ انہیں دبئی میں ورک پرمٹ ملا جو 2009سے 2015 تک نافذالعمل تھا۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے کبھی ایف زیڈ ای کیپٹل سے تنخواہ نہیں لی۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ نے دبئی حکومت سے ورک پرمٹ لینے کے لئے جھوٹ بولا؟ جو شخص دبئی میں صادق اور امین نہیں وہ پاکستان میں صادق اور امین کیسے ہوسکتا ہے؟ حیرت ہے کہ حسین نواز اور حسن نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں جو جوابات جمع کرائے گئے جے آئی ٹی کے سامنے انہوں نے مختلف باتیں کیں جو ویڈیو بیان کی صورت میں محفوظ ہیں۔جے آئی ٹی رپورٹ میں مریم صفدر کو نیلسن اور نیسکول نامی آف شور کمپنی کی مالکن ثابت کردیا گیا لیکن مریم نواز اس کی تردید کرتی ہیں۔ کاغذات میں مریم صفدر اور سیاست میں مریم نواز۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فیصلہ تو سپریم کورٹ کو کرنا ہے لیکن یہ گستاخ تو صرف وہ حقائق بیان کررہا ہے جو جے آئی ٹی میں شامل کئے گئے ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دینے والے کچھ سرفروشوں کے پلندے بھی سامنے آنے والے ہیں ۔ جس کے بعد چوہدری نثار علی خان کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ نواز شریف سے وفا کی لیکن ان پر بے وفائی کے الزامات لگائے گئے۔ بہت جلد نواز شریف کے کچھ وفاداروں کی اصلیت سامنے آئے گی اور پھر ہمیں منیر نیازی یاد آئیں گے؎

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے