پاناما کیس: سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلی سماعت

وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں پہلی سماعت کا آغاز ہوگیا، سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرادیئے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے سماعت کا آغاز کیا۔

سماعت سے قبل شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرادیے، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی کو عدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔

مزید کہا گیا کہ جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا، لہذا عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

دوسری جانب وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا اپنے اعتراض میں کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حقائق کو جھٹلا کر غلط بیانی سے کام کیا کہ انھوں نے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کیے، جبکہ ان کے اور ان کی اہلیہ سے متعلق ٹیکس ریکارڈ کی تفتیش نیب کر چکا ہے۔

سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جب کہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی، جس کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عملدرآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی جبکہ 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی، تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے اور اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی، گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہ کرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے بیان حلفی کو غلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا، جے آئی ٹی نے سابق قطری وزیراعظم کو طلبی کے لیے چار خط لکھے اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ شیخ حماد بن جاسم الثانی پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں، اس کے علاوہ انہوں نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی، جس کی تصدیق جے آئی ٹی نے کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں، تحقیقات کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے جبکہ ٹرسٹی ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے، بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں، دوسری جانب فرانزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا، ٹرسٹ ڈیڈ میں استعمال ہونے والا فونٹ 2006 میں بنا ہی نہیں تھا۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ اس کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا، حدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سربمہر ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں، ان کا بیان تضاد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائے گا اور ہم قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جےآئی ٹی کے مطابق سعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کے لیے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا، عزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے، اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں لیکن جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نواز شریف کی ہے، کمپنی نے نواز شریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں نواز شریف سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات اور اس سے متعلق شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے سماعت کے لیے 17 جولائی کی تاریخ مقرر کی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے