سر رہ گزر …کیا ڈیڑھ بج گیا ہے؟

ن لیگ نے کہا ہے:پاناما غیر ملکی سازش، سعد رفیق اور شہباز شریف کہتے ہیں ٹانگیں کھینچنے کی لڑائی میں کوئی نہیں جیت سکے گا، سب ہاریں گے، اقتدار کے لئے قاشا لگانے والے ہوش کریں۔ ایک شخص نے دوسرے سے صبح صبح ہی پوچھ لیا کیا ڈیڑھ بج گیا ہے؟ اس نے کہا نہیں ابھی صرف آپ کے 12بج گئے ہیں، ہمارے ہاں کیوں سنجیدہ اور سادہ سی بات لطیفہ اور بعد میں سیاپا بن جاتی ہے، پاناما لیکس تو پوری دنیا میں پہنچیں مگر کہیں ایسا تماشائے اہل کرم نہیں لگا کہ غالبؔ کے مرقد سے بھی آواز آئی؎

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ایک سیدھی سی بات ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہےابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا، سپریم کورٹ ہی نے جے آئی ٹی مقرر کی اب اسے بھی بین الاقوامی سازش قرار دینا بین الاقوامی حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ اپوزیشن ہو یا وزیراعظم دفاعی لائن کے مقررین تادم تحریر توپیں داغ رہے ہیں، شعلے اگل رہے ہیں، جبکہ کچھ لوگ صرف تھوک نگل رہے ہیں، آج ڈیڑھ بجے جے آئی ٹی پر عدالتی کارروائی شروع ہو جائے گی، صفائی دینے والوں کو صفائی کا موقع دیا جائے گا، دلائل کے انبار لگیں گے، ان انباروں سے بھی کچھ خاص نہ نکلا تو پھر کٹا کٹی نکل آئے گا، اور سب کو اس کا استقبال کرنا ہو گا، مگر ہمیں فیصلے سے پہلے اپوزیشن اور حزب اقتدار کی لن ترانیوں کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ ٹرین آنے سے ایک ہفتہ پہلے کیوں اپنا سامان لے کر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہیں، کہیں ان سب کی گاڑی چھوٹ نہ جائے، اور ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ نہ جائے۔
٭٭٭٭

سڑکیں شہریوں کیلئے یا شہری سڑکوں کیلئے؟

لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے:جدی پشتی جائیدادیں ہتھیا کر شہریوں سے فقیروں جیسا سلوک کر کے حکومت ظلم کر رہی ہے، حکومتی منصوبوں کے نام پر زمین لے کر بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ معاوضے کے بجائے متبادل زمین فراہم کرنی چاہئے۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سڑک کے لئے زمین لے کر معاوضہ دیا نہ متبادل زمین، عدالت اس کے لئے حکم دے ۔ ایک سعد حسن نامی درخواست گزار ہی کے ساتھ یہ ظلم روا نہیں رکھا گیا یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، کیوں کہ ہر شہری کب عدالت سے رجوع کرتا ہے، اب چاہئے کہ اس ایک درخواست کی شنوائی ہونے کے ساتھ تمام شکایت کنندگان کے ساتھ انصاف کیا جائے، اور ایک سڑک جو عوام کی سہولت کے لئے بنائی جاتی ہے اس کے اوپر سے گزارکے سڑک نہ بنائی جائے کم از کم اسے متبادل زمین دی جائے اگر کوئی اپنی زمین مسجد کی تعمیر کے لئے نہ دینا چاہے تو اسلامی قانون کے تحت ریاست زمین حاصل نہیں کر سکتی تو یہ سڑک بنانے کے لئے کسی کو اذیت دے کر تعمیر کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے، یہ درست ہے کہ سڑکیں بہت ضروری ہیں، مگر اس کے لئے زمین کا حصول بھی تو متبادل زمین دے کر سڑک بنانا ضروری ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں جدی پشتی صدیوں پرانی جائیدادیں اگر لوگوں کی سہولت کی خاطر سڑک بنانے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہو جائیں تو مالکان کبھی انکار نہیں کرتے مگر ان کو معاوضہ یا متبادل زمین دیئے بغیر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے تو بہتر ہے کہ سڑک ہی نہ بنائی جائے، کہ سڑک عوام کی بہتری کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ ان کی ذلت و خواری کے لئے، لاہور ہائیکورٹ نے متبادل زمین دینے کا حکم صادر کر دیا ہے، جس پر عملدرآمد کی ذمہ دار حکومت ہے، اور اگر زمین کا مالک متبادل قیمت لینا چاہے تو اس کی مرضی سے رقم ادا کر دی جائے، اسے دفتروں کے سامنے کھڑا گدا گر نہ بنایا جائے۔
٭٭٭٭

یہ سب تمہارے دم قدم سے ہے!

توزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے ہم سب کی سیاست وزیراعظم نواز شریف کے دم سے ہے، گویا ن لیگ میں کوئی ایک بھی سیاستدان نہیں ، کسی ن لیگی رہنما کی اپنی کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں، ویسے شہباز شریف نے بالکل درست کہا کیونکہ ن لیگی رہنمائوں نے اس دوران جو واویلا کیا اس کا سبب ہی یہ تھا کہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کو خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو ہم سب کا کیا بنے گا، کہ ہم تو ان کے دم قدم ہی سے سیاستدان کہلاتے ہیں ورنہ ایک نمبر سیاستدان تو فقط نواز شریف ہیں، ان میں سے کچھ نے تو ایسی شعلہ نوائیاں کیں کہ اچھے خاصے مقرر بن گئے، کیونکہ یہ ایک دن کی تو بات نہ تھی، ساٹھ دن اندر جے آئی ٹی رپورٹ مرتب کرتی رہی اور ساٹھ دن یہ نواز شریف کے بلکہ خود اپنے دفاعی مقررین پریکٹس کرتے رہے، ہر ایک نے جواب آں غزل میں بہت زور مارا مگر نہ ہوا خان کا انداز نصیب، بقول شہباز شریف، ن لیگ ون مین شو ہے، وہ کرسی پر رہیں گے تو ٹھیک، ورنہ سب کے ساتھ میوزیکل چیئر کا کھیل ہو جائے گا، اس موقع پر ہمیں میو اسپتال کے ایک بڑے ڈاکٹر کی بات یاد آ گئی وہ ایک مریض کو دیکھ رہے تھے کہ ایک جونیئر ڈاکٹر تیز تیز چلتا سانس پھولا ہوا ان کے پاس آیا اور کہا سر جلد جنرل وارڈ میں آئیں بستر نمبر فلاں کا مریض مر رہا ہے، بڑے ڈاکٹر نے اسے نہایت تسلی سے جواب دیا ڈاکٹر! انسان اتنی آسانی سے نہیں مرتا، اسے مرتے مرتے کچھ وقت لگتا ہے۔ یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاناما کیس بھی اتنا آسان نہیں کہ فوری طور پر اس کا فیصلہ ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے