طبری اورمسلم تاریخ

محمد بن جریر طبری ،وفات 17 فروری 923 ء
محمد بن جریر طبری ،وفات 17 فروری 923 ء

                                                                                                                                                                                                               تکبیر مسلسل          

kn

خورشید ندیم

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بات کسی اور سمت چل نکلی۔ لوگوں نے خیال کیا کہ یہ ابن جریر طبری کی ثقاہت کا معاملہ ہے۔ میرے نزدیک طبری تو محض حوالہ ہیں، اصل مقدمہ کچھ اور ہے جس پر نقد مقصود تھی۔
مقدمہ یہ ہے کہ مسلمان مسلسل اغیار کی سازشوں کا ہدف ہیں۔ساری دنیا انہیں مٹانے کے درپے ہے۔کبھی مسلمانوں کے مادی وجود پرحملہ کیا جا تا ہے۔کبھی ان کے علوم تحریف کا موضوع بنتے ہیں اور کبھی ان کی شاندار تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے۔ تاریخِِ طبری کو اس مقدمے کے لیے بطورگواہ پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ طبری مستشرقین کاپسندیدہ مورخ اس لیے ہے کہ مسلم تاریخ کو مسخ کر تا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ طبری کی ثقاہت کو خود مسلمان اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔ہمارے جلیل القدر اہلِ علم نے اسے تفسیر، علمِ حدیث اورتاریخ میں امام مانا ہے۔اگر یہ غلطی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اس کا سبب مشترقین کی سازش نہیں۔ اس پس منظر میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ طبری ہو یا کوئی اور، ہر کسی کی رائے اور وقائع نگاری کو دلیل کی بنیاد پر قبول اور رد کیا جائے گا۔

اگر ہم مناظرانہ اسلوب سے گریزکر پائیں تو میرا خیال ہے کہ اس بحث کو مثبت رخ دیا جا سکتا ہے۔یہ بحث نئی نہیں۔ماضی میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب تاریخ نقدو نظر کا مو ضوع رہی۔اس وقت یہ مناظرے کی نذر ہوگئی۔آج کے لوگ میرا احساس ہے کہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ بالغ نظر ہیں۔اب ہم چند ایسے نکات پر اتفاق کر سکتے ہیں جو کسی رائے کی قبولیت یا عدم قبولیت کے لیے معیار بن سکتے ہیں۔ یہ رائے کسی مفسر کی ہو یا محدث کی ، مورخ کی ہو یا فقیہ کی، کچھ مسلمہ اصول ہیں جن کی بنیاد پر انہیں قبول یا رد کیا جائے گا۔ ایک ابتدائی کاوش کے طور پر میں چند نکات بیان کرنا چاہوں گا۔

سیرت محض تاریخ نہیں ہے، دین ہے۔ اس کا ماخذ ظنی نہیں ہو سکتا۔ دین کا سب سے مستند ماخذ قرآن مجیدہے۔ اس لیے سیرت کا اصل ماخذ بھی وہی ہے۔ قرآن مجید دراصل رسالت مآبﷺ کی سرگزشت ِانذار ہے۔ رسول کی بعثت انسانی تاریخ کا سب سے غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے۔ رسول اس زمین پر اﷲ کی عدالت بن کر آتا ہے اور اس قیامت کو ایک علاقے اور قوم کے لیے مشہود کر دیتا ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ایک روز برپا ہونی ہے اور جزا وسزا کا فیصلہ ہونا ہے۔ ایسی غیر معمولی شہادت، ممکن نہیں ہے کہ چند راویوں کی پسند و ناپسندپر منحصرہو۔ اس لیے تاریخ، طبری کی ہو یا ابن اسحاق کی، سیرت کا ضمنی ماخذ ہو سکتی ہے، اصل نہیں۔رسالت مآب ﷺ کی بعثت اس سلسے کا آخری واقعہ ہے۔یہ اس نظامِ حیات کے آخری دن تک،قیامت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اس کاماخذ قرآن مجید ہے اور اس کے یقین ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

دین کے باب میں بنیادی ماخذ دو ہیں۔ قرآن و سنت۔ قرآن اس امت کا علمی تواتر ہے اور سنت عملی۔ ضروریات دین انہی سے ثابت ہوں گے اور ان کے علاوہ دین کا کوئی اور ماخذ نہیں ہے۔ ان کی حیثیت مسلمات کی ہے۔ سیرت ہو یا صحابہ، یہ دین کا حصہ ہیں۔ ان کے باب میں قرآن و سنت ہی کی بات قبول کی جائے گی۔ کسی تیسرے ماخذ کو ان کے معاملے میں حجت نہیں بنایا جا سکتا۔ میں نے پچھلے کالم میں یہ بات کچھ اس طرح بیان کی ’’ سیرتِ پاک اور صحابہ دین کا حصہ ہیں۔ان کے باب میں تاریخ پر انحصار نہیں کیا جا ئے گا۔ان مو ضوعات پر تاریخ کی وہی شہادت قبول کی جائے گی جو دین کے ماخذ قرآن اور سنت پر پورا اترتی ہے۔‘‘

تاریخ رطب و یابس اور متضادات واقعات کا مجموعہ ہے۔ اگریہ کوئی ایسا واقعہ بیان کرتی ہے جو سیرت سے متعلق ہے یا صحابہ سے، لیکن اُس تصورِِِ نبوت یا تعارفِ صحابہ سے متضادیا مختلف ہے جو قرآن مجید پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ شخصیات سے متعلق متضاد آرا ہوں تو ممکن حد تک حسن ظن کا مظاہرہ کرنا چاہیے الا یہ کہ دیگر شواہد دوسری رائے کی تائید میں ہوں۔

رسالت مآبﷺ اور صحابہ کے بارے میں قابل اعتراض روایات صرف تاریخ کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ایسی روایت جہاں کہیں پائی جائے گی، قبول نہیں کی جائے گی۔

دین کے باب میں یہ حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ وہ فرقان اور میزان ہے۔ ہر روایت ،ہرتاریخی واقعے اور ہر رائے کو اسی کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔ جو اس معیار پر پورا اترے گا، صرف وہی قبول کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو روایت یا کسی مفسر کی رائے کی بنیاد پر نہیں سمجھا جائے گا۔ روایت اور رائے کو قرآن مجید کی بنیاد پر سمجھا جائے گا۔

کسی ایسی روایت کی بنیاد پر مسلمانوں کے جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا جودرایت کے پہلو سے سقم رکھتی ہے یا روایت کے پہلو سے۔ بایں ہمہ ایسی روایت کی بنیاد پر کسی اقدام کو جائز نہیں سمجھا جائے گا جس کے مصداق کا تعین دو اور دو چار کی طرح ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر کسی کو دجال قرار دے کر اس کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ روایات کی مدد سے اس کا واضح تعین ممکن نہیں۔ یہی معاملہ دیگر بہت سے واقعات کا ہے۔

بعض احباب نے ابن جریر طبری کے بارے میں علامہ تمنا عمادی کی تنقید کا ذکر کیا ہے۔ میرے دل میں ان کے لیے بہت احترام ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جرح و تعدیل کے باب میں ، معاصر اہل علم میں شاید ہی کوئی ان کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے۔علاقہ اقبال بھی ان کی اس حیثیت کو قبول کرتے تھے۔ ایسے احباب کی خدمت میں میری گزارش ہے کہ علامہ تمنا کی تحقیق طبری تک محدود نہیں۔ امام بخاری کے استاد اور سب سے بڑے راوی ابن شہاب زہریؒ کے باب میں بھی انہوں نے ایک رائے قائم کی ہے۔یہی نہیں، مسند احمد بن حنبل، جو حدیث کی سب سے بڑی کتاب ہے، اس کے بارے میں بھی ان کا تحقیقی مقالہ موجود ہے جو مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی کی مذہبی داستانوں ( حصہ چہارم) میں شامل ہے۔ بات چل نکلی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی ان آراء پر بھی اہل علم کلام کریں۔

ہمارا امتحان یہ ہے کہ ہم حق کی طلب میں ، ان ماخذات علم کی طرف رجوع کریں۔ دین کے باب میں ،میں نے عرض کیا قرآن و سنت ہی ماخذ ہیں۔ جہاں تک تفسیری آراء، روایات،
تاریخ اور اقوال ِ فقہاکا معاملہ ہے تو اس باب میں وہی موقف درست ہے جو امام ابو حنیفہ کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں اور ہم بھی انسان۔ اس بحث میں شریک احباب سے میری گزارش ہے کہ وہ اس مقدمے پر ایک بار غور فرمائیں کہ طبری میرے نزدیک اس بحث کا اصل نکتہ نہیں ہے۔ اصل تو یہ مقدمہ ہے کہ ہر معاملے کو اغیار کی سازش کا عنوان دے کر مسترد کر دیا جائے۔ طبری تواس بحث کاجزو ہے کل نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے