نواز شریف۔ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے؟

یہ بہت زیادتی ہے کہ سپریم کورٹ اب عمران خان کی بھی تلاشی لینے لگی ہے۔ وہ جب دوسروں کی تلاشی پر زور دے رہے تھے اس سے ان کا مقصد خدانخواستہ اپنی تلاشی دینا نہیں تھا۔ ان کے تو سارے اعمال آب زم زم سے دھلے ہوئے ہیں اور شاعر نے انہی کے بارے میں تو کہا تھا

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

لگتا ہے فرشتوں نے ان کی بات کو سچ جانا اور دامن نچوڑ کر چیک کیا مگر انہوں نے اس سے وضو تو کیا کرنا تھا الٹا ناک پر ہاتھ رکھ کر پرے ہو گئے۔ پتا نہیں کیا بات ہے خان صاحب کی تلاشی پر مجھے رنگ برنگے شعر کیوں یاد آ رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ دوسروں کی تلاشی کی بات کرتے ہوئے وہ بھول گئے تھے کہ ایک ایسا ہی دن ان پر بھی آنا ہے چنانچہ غالبؔ کو اس معاملے کا بہت پہلے پتا چل گیا تھا، سو اس نے کہہ دیا تھا؎

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

لہٰذا وہ دن آیا ہی سمجھیں جب آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، عوام نے انہیں بزم سیاست سے اٹھا باہر پھینکنا ہے۔ اس کے بعد وہ ہوں گے اور بنی گالہ کا محل۔ شیخ رشید کا تو خیر دور دور تک پتا نہیں چلنا۔ شاہ محمود قریشی اپنی سجادہ نشینی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ مریدوں کی عمر بھر کی کمائی اینٹھنا شروع کر دیں گے۔ نعیم الحق، اسد عمر اور دیگر رہنما بھی فارغ بیٹھنے والے نہیں ہیں بلکہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیتے ہیں، یہ سب عمران خان کی چھوٹی سی سیاسی ہٹی چلانے کی کوشش کریں گے۔ دیکھیں نا عمران خان نے بھی سارا دن بنی گالہ میں تو نہیں گزارنا۔ یہ کوئی آسان کام تھوڑے ہی ہے کہ دھرنے دیتے دیتے بندہ چار بندوں کی شکل دیکھنے سے بھی محروم ہو جائے۔ باقی بچے بلونگڑے، تو انہیں کوئی نہ کوئی دودھ ڈال ہی دے گا کہ پالتو پرندوں (میں نے احتراماً پرندے لکھا ہے) کی سب کو ضرورت ہوتی ہے۔ بچے ان سے کھیلتے ہیں اور وہ انہیں الٹ بازیاں دکھا کر خوش کرتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں لے دے کر مجھے اگر کسی کی فکر ہے تو وہ اپنے محترم سراج الحق امیر جماعت اسلامی کی ہے۔

وہ اپنی کج کلاہی کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور گونجدار آواز میں وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بیس کروڑ عوام کے مطالبے پر فوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں مگر نواز شریف ان کے رعب ہی میں نہیں آتے۔ انہیں شاید علم نہیں کہ بیس کروڑ عوام والی بات تو خیر وہ ازراہ مذاق کہتے ہوں گے، ورنہ ان کی اپنی جماعت کے ووٹہی ایک فیصد ہیں۔ اگر یہ ایک فیصد سڑکوں پر نکل آئے تو میاں صاحب نے کبھی سوچا کہ پھر ان کا کیا بنے گا؟ میرے خیال میں سراج الحق صاحب نے بلھے شاہ کو پڑھا ہوا ہے جو کہتا ہے ’’تینوں اِکو الف درکار‘‘ مگر سراج بھائی کو اس میں سے صرف ’’اکو‘‘ (ایک) کی سمجھ آئی ہے۔ الف اللہ تو ان کے ساتھ ہوتا ہے جو عوام کی خدمت کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار نہیں بنتے۔ چلیں اب ذرا سا موضوع بدلتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ستر سال پرانا ریکارڈ مانگا ہوا ہے جو انہوں نے اللہ جانے کیسے پیش کیا ہو گا۔ کسی کرنیل، کسی جرنیل، کسی جج، کسی صحافی، کسی کاروباری آدمی، کسی اینکر کے پاس ستر سال کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ عمران خاں خوش قسمت ہیں کہ ان سے صرف پندرہ بیس سال کی آمدنی کا ریکارڈ مانگا گیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ یہ حساب کہاں سے لائیں۔

دراصل انہوں نے کسی مولوی صاحب سے سنا ہو گا کہ حساب صرف قیامت کے دن ہونا ہے۔ چنانچہ وہ اس بکھیڑے میں پڑے ہی نہیں۔ بہرحال معاملہ اب سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے سامنے ہے۔ ان کے علاوہ بیسوں ’’جج صاحبان‘‘ ٹی وی اسکرینوں پر روزانہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہیں۔ جو سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے لئے یقیناً تفریح طبع کا باعث بنتا ہو گا۔ ورنہ وہ کب کے ان سب کو توہین عدالت کے نوٹس بھجوا چکے ہوتے۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک وزیراعظم اور ان کے خاندان کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے وہ منظر عام پر آ جائے۔ اس کے بعد کیا ہو گا۔ اس کا انحصار فیصلے

پر ہے مگر وہ جو کسی نے کہا ہے
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
تو اس کیس میں بھی یہی ہونا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے