دہشتگردی پر سیاست،دہشتگردوں کی حمایت

آج جیسے ہی لاہور میں ہونے والے ہولناک و کربناک دہشت گردی کی واقعہ کی خبریں ٹی وی پر آنا شروع ہوئیں تو میرا اندیشہ تھا کہ ابھی اس کو سیاسی رنگ دیا جانا شروع ہو جائے گا۔ کچھ احباب کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے جس میں نے درخواست کی کہ ہمیں ملکی سیاست کو دہشت گردی سے جوڑنے، سیاسی مقاصد کے لئے دہشت گردی کروانے جیسی سازشی تھیوریوں سے اس عوام کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس پر جوان خون کہاں باز آتا ہے وہ تو جس رو میں بہنا شروع ہوا اس سمت چلے جاتا ہے۔

کوئی سننے کو تیار نہیں کہ بھائی دہشت گرد جتنے مسلم لیگ نون کے دشمن ہیں اتنے ہی پی ٹی آئی کے، جتنے وہ پیپلز پارٹی کے مخالف ہیں اتنے ہی جماعت اسلامی کے، جتنا ظلم وہ اے این پی پر کر رہے ہیں اتنا ہی ایم کیو ایم پر اور وہ مولانا فضل الرحمن کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں سو ان حالات میں ہم اپنی ابلاغی صلاحیتوں سے بجائے عوام کو کنفیوز کرنے کے اصل دشمن کی طرف توجہ دیں۔

کیا دہشت گردوں نے پانامہ کیس سے پہلے کبھی ریاستی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ کیا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دہشت گردی نہیں ہوئی۔ کیا خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے دور میں ہمارا خون نہیں بہا۔ کیا دہشت گردوں نے بلوچستان، سندھ، پنجاب،خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور کشمیر میں دہشت گردی کرتے ہوئے کوئی تفریق کی۔ ہمارا آئین، ہماری ریاست، ہمارے ادارے کیا دہشت گردوں کے نشانے پر نہیں رہے۔

دہشت گرد ہمیں ایسے مواقع پر دہشت گردی کا نشانہ بناتے آئے ہیں جب ہمارے رائے تقسیم ہونے کا موقع ہو اور سیاسی تفریق کے ان حالات میں ہم ان کے ایجنڈے کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ بجائے ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف بات کریں ہم خود اپنی ریاست، اپنے اداروں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس جذباتیت کا شکار صرف عوام نہیں بلکہ ہمارے بعض مفکر سیاستدان بھی ہو جاتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ صاحب سے توقع نہیں تھی کہ غم کی اس گھڑی میں بھی سیاسی ایجنڈے کو آگے رکھیں اور وہ جملے ٹی وی پر کہیں جن کو ایک بیہودہ لغو گفتگو سے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔ بہت سے احباب نے کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دہشت گردی کے اس واقعہ کو سیاسی رنگ دینا شروع کر دیا۔

دیہات میں جب خاندانی دشمنیوں کے چکر میں کوئی قتل ہو جاتا ہے تو مخالف خاندان کے تمام افراد کو مقدمہ میں نامزد کر دیا ہے اور کئی دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مخالفین کا اس قتل سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا اورکوئی تیسرا فریق اس خاندانی دشمنی کی آڑ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قتل نا حق کرگیا۔ کراچی میں کئی ٹارگیٹ کلر پکڑے گئے جو شیعہ سنی دونوں مسالک کے افراد کو قتل کرتےرہے اور الزام جو ہے وہ سنی شیعہ پر اور شیعہ سنی پر لگاتا رہا۔

درخواست ہے کہ دہشت گردی کے واقعات پر تبصرہ کرنا لازم ہو جائے تو دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کریں نا کہ اسے سیاسی رنگ دے کر اس قوم کو اور تقسیم کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے