داعش پر عراقی افواج کی فتح میں پاکستان کے لیے اسباق (تیسری قسط)

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق اور پاکستان کا تقابلی جائزہ: چیلنجز اور اسباق

دونوں ممالک میں برطانوی سامراج کی نو آبادیاتی نظام کا تسلط رہا ہے، البتہ پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد 1920 میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان اپنے علاقوں کی تقسیم کے نتیجے میں عراق پر برطانیہ مسلط ہو گیا ۔ ۱۹۳۲ میں عراق کو اپنی براہ راست نوآبادیاتی نظام سے آزاد کر کے برطانیہ نے یہاں اردن کے طرز پر ہاشمی بادشاہت قائم کی، جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد متحدہ ہندوستان کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے نتیجے میں برطانیہ سے آزادی لے کر ایک خود مختار آزاد ملک کے طور پر پاکستان وجود میں آیا۔ دونوں ممالک اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگ اور تناؤ کی کیفیت میں ہیں؛ عراق اپنے چھے ہمسائیوں میں سے ایران اور کویت کے خلاف براہ راست جنگ کر چکا ہے، نیز عراق ، عرب اتحاد کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگوں میں بھی حصہ لیتا رہا ہے، جبکہ ترکی کے ساتھ مختلف ادوار میں تناؤ کی صورت حال بھی رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے انڈیا کے ساتھ براہ راست جنگ جبکہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تناؤ کی کیفیت میں ہے، عراق اور پاکستان دونوں ملکوں میں طویل عرصے کے لیے فوجی آمریت رہی ہے البتہ پاکستان میں تیس سال جبکہ عراق میں تقریباً نصف صدی یہ فوجی آمرییتوں کا سلسلہ جاری رہا، دونوں ملکوں میں اتفاق سے چار چار فوجی سربرہوں نے حکومت کی ہے، (عراق میں عبد الکریم قاسم، احمد حسن بکر، عبد السلام عارف، صدام حسین جبکہ پاکستان میں ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں ملکوں کے یہ سربراہان فوجی آمر تھے )۔
دونوں ملکوں کی جوہری تنصیبات پر بین الاقوامی حساسیت پائی جاتی ہے (اسرائیل نے عراقی جوہری تنصیبات پر ۱۹۸۱ میں حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا، پاکستان شاید دور ہونے یا قدرے طاقتور ہونے کی وجہ سے اس کی جوہری تنصیبات بچ گئیں)، جوہری تنصیبات کی بنیاد پر عالمی اقتصادی پابندیاں دونوں ملکوں کے لیے ایک اہم خدشہ رہا، اسی کی دہائی میں ہمسایہ ممالک میں جنگی مہم کے لیے امریکہ کی سرپرستی حاصل رہی (عراق کی ایران کے خلاف جنگ اور پاکستان کی افغانستان میں روس کے خلاف جنگ دونوں کی سرپرستی امریکہ کرتا رہا)، امریکہ کی سربراہی میں گیارہ ستمبر کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دونوں ممالک براہ راست متاثر ہوئے۔(البتہ عراق پر براہ راستہ امریکہ نے حملہ کیا اور اس کے بعد اس کا اتحادی بنا جبکہ افغانستان پر حملہ کے لیے پاکستان فرنٹ لائن بنا اور اس کے بعد دہشت گردی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوا مگر براہ راست امریکی حملے سے بچا رہا) ، دونوں ملکوں کو جنگ زدہ علاقوں سے لاکھوں پر مشتمل آبادی کی داخلی مہاجرت (آئی ڈی پیز) کے بحران کا سامنا کرنا پڑا جو اب بھی حل طلب ہے۔ الغرض پاکستان اور عراق کے قومی ستارے کم و بیش ایک ہی مدار میں گردش کرتے رہے ہیں ، دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت کے انجام بھی کم و بیش ایک جیسے ہوئےہیں ۔

بڑے سیاسی مسائل کی طرح واقعاتی تسلسل بھی قدرے یکساں ہے چنانچہ برطانیہ سے آزادی کے بعد نئی حکومتوں کا قیام ہو (پاکستان کا ا الگ آزاد مملکت کے طور پر قائم ہونا اور عراق میں برطانوی منصوبے کے تحت اردون کے طرز پر ہاشمیوں کی شہنشاہیت قائم کرنا) 1958 میں دونوں ملکوں میں فوجی آمریتوں کا حکومت پر قبضہ کرنا (پاکستان میں فوجی آمرجنرل ایوب خان اور عراق میں شاہ فیصل دوم کو قتل کر کے جنرل عبد الکریم قاسم کا بر سر اقتدار آنا جنرل ایوب خان اور عبد الکریم دونوں کو محفوظ طریقے سے اقتدار سے ہٹایا گیا مگر عجب اتفاق ہے کہ ان دونوں کے بعد آنے والے سربراہان مملکت ذوالفقار علی بھٹو اور صدام حسین دونوں کو اپنے بعد آنے والی حکومتوں کے دور میں قتل کے مقدمات میں عدالتی کاروائی کے تحت پھانسی دیا گیا)، 1961 میں عراقی جنرل عبد الکریم قاسم کا کردوں کے خلاف جنگ اور 1965 میں جنرل ایوب خان کا انڈیا کے خلاف جنگ، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں دونوں ملکوں کا روس کا اتحادی ہونا اور اسی کی دہائی میں دونوں ملکوں کا امریکی بلاک میں شامل ہونا، ستر کی دہائی میں انقلابی تبدیلیاں ہوں جیسے سن اکہتر کی پاک انڈیا جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا نیز دونوں جگہ فوجی مہم جوئی کے تحت پاکستان میں فوجی آمر ضیاء الحق کا بر سر اقتدار آنا اور عراق میں فوجی آمر صدام حسین کا بر سر اقتدار آنا اور دونوں کا اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرنا)، اسی کی دہائی میں جنگ ہو (عراق کی ایران میں اور پاکستان کی افغانستان میں) ، یا نوے کی دہائی میں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی عدم استحکام (عراق میں شیعہ اور کرد کی صدام حکومت کے خلاف تحریک ہو اور ان کا کچلنا، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت) ، ۱۱ ستمبر کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ، امریکہ نے اس صدی کے پہلے عشرے میں صدام کو بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا اور پرویز مشرف کو بھیِ.
صدام کے سقوط کے بعد ۲۰۰۵ میں عراق کی تاریخ کے پہلے آزادانہ عام انتخابات ہوئے، نوری المالکی عراق کے پہلے منتخب جمہوری وزیر اعظم بنا اور ۲۰۱۰ میں دوسری باری وزیر اعظم منتخب ہوا مگر ملک میں ابتر ہوتی سکیورٹی صورت حال اور فرقہ وارانہ فسادات کے پیش نظر عراق کے سیاسی قائدین اور عالمی برادری کی تجویز پر اس نے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑا اور نئے عراقی دستور کے پہلے صدر جلال طالبانی نے 2014 میں حیدر العبادی کو اقتدار سونپا ، یوں عراق میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے پُرامن اور جمہوری طریقے سے اقتدار منتقل کیا، اسی طرح پاکستان میں ۲۰۰۸ کے عام انتخٓابات میں اقتدار ملٹری سے منتخب نمائندوں کو منتقل ہوا۔ جبکہ 2013 کا الیکشن ملک کا پہلا الیکشن تھا جس کے ذریعے آئینی اور پُرامن طریقے سے ایک منتخب جمہوری حکومت نے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا۔ تاریخی ادوار (ٹائم لائن) بھی کافی حد تک پاکستان اور عراق کے مماثل ہے۔

عراق کی گزشتہ تقریبا ایک صدی پر مبنی تاریخ بتاتی ہے کہ ۱۹۲۰ سے لے کر اب تک ایک دہائی بھی ایسی نہیں گزری جس میں وہ اندرونی یا بیرونی محاذ پر کسی جنگ میں مشغول نہ رہا ہو۔ تاہم اسی کی دہائی میں ایران کے خلاف اور نوے کی دہائی میں کویت کے خلاف براہ راست جنگ چھیڑنے، جبکہ کویت پر حملے کے جواب میں امریکہ اور خلیجی ممالک کی عراق کے خلاف جنگ، دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے نے لاکھوں عراقیوں کو آگ و خون کی نذر کر دیا۔ اس پر مستزاد نور المالکی کے دور حکومت میں المہدی ملیشا،البدر فورس سمیت شیعہ و سنی ملیشاوں کے مابین فرقہ وارانہ قتل و غارت نے دھکتی آگ کو مزید بھڑکا دیا اور باقی رہی کسر القاعدہ، داعش اور دیگر مسلح عالمی گروہوں نے نکال لی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے