تنہا پاکستانی اور ان گنت پانامے

ملک کے اصلی نظام، سیاسی خباثتوں، کاغذی قسم کے رول آف لا، اخلاقی انحطاط، بدکرداری، بدترین قسم کی ڈھٹائی دیکھنی ہو تو ’’ایس ای سی پی‘‘ ٹمپرنگ فیم ظفر حجازی کا کیس بہت معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ بھی ہے کہ جو آدمی ضمانت کی منسوخی اور بے معنی گرفتاری تک گھوڑے کی طرح کداڑے مارتا پھر رہا تھا….. گرفتار ہوتے ہی یکدم کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہوگیا۔ شاید ایڈز، پائلز یا پارکنسن کے علاوہ تقریباً تمام عوارض لاحق ہوگئے۔ دل سے لے کر گردوں تک کوئی شے سلامت نہیں تو یہ ہے اس نظام اور گورننس کا اصل اور مکروہ چہرہ۔ بچہ بچہ جانتا اور اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کیسی واردات ہو رہی ہے؟ کس کی و جہ سے ہو رہی ہے اور کرا کون رہا ہے؟ یہ ہے وہ سیاست جس کے بارےمیں یہ کہتے ہوئے کسی کو کوئی شرم نہ حیا کہ ہم اقتدار نہیں اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔

شاید میں ہی غلط ہوں کیونکہ ان کے لئے یہی کچھ ’’اقدار‘‘ ہیں۔ کرپشن سے بھی جب بے حمیتی کے ساتھ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ کرپشن کو کرپشن سمجھتا ہی نہیں۔ بندہ حرام کو حرام سمجھے تو اس سے گریز پرہیز کا کشٹ کاٹے لیکن جسے خنزیر بھی ہرن یا رینڈیئر نظر آئے، مردار خور گدھ بھی تلور یا اس کا رشتہ دار دکھائی دے تو اس کےلئے سب ٹھیک ہے۔ جائز ہے، حلال ہے، آئینی قانونی اور جمہوری ہے۔سونے پہ سہاگہ ان میڈیا والوں کے ساتھ بدتمیزی بلکہ بدمعاشی تھی جو اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ پریس کانفرنس سے پہلے لعن طعن کے بعد متعلقہ وزیر نے ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر کا وعدہ کیا۔ اول تو کٹے گی نہیں اور کٹ بھی گئی تو ظفر حجازی کو گرفتار کرکے کسی نے کون سا قلعہ اکھاڑ لیا جو اس ایف آئی آر کے نتیجہ میں اکھاڑا جاسکے گا؟ اس بری طرح بیمار معاشرہ کو بستر مرگ سے اٹھا کر قوموں کی میراتھن میں شرکت کے قابل بنانا ہے تو ایک آدھ نہیں پاناما کے کئی انجکشنز پر مشتمل لمبا کورس ہر قیمت پر مکمل کرنا ہوگا….. ایک دوچار نہیں بے شمار منی ٹریلز درکار ہوں گی ورنہ کون جانے مزید کتنی نسلیں اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گی اور ’’اقامے‘‘ بھی دلائی لامے اور جمہوریت کے مامے بن کر یونہی دندناتے رہیں گے۔یہ ’’ترقی ترقی‘‘ کے جعلی جاپ میں مصروف ہیں، ادھر اسٹیٹ بنک بدترین خسارے، قرضے کا ماتم کرتے ہوئے چیخ رہا ہے کہ ….. ’’معیشت خطرے میں ہے‘‘، ’’تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم‘‘ کا بے سرا دیپک راگ الاپنے والوں کی اپنی ’’لیسکو‘‘ اعلان کرچکی کہ لوڈشیڈنگ میں 50فیصد اضافہ کردیا گیاہے۔ باتوں کا بیریئر تو یہ کب کا توڑ اورپھلانگ چکے، یہ لاتوں کا کیس ہے می لارڈ!پرسوں ’’جیو‘‘ پر ایک رپورٹ دیکھی۔

یہ سب کسی غیرمہذب ملک اور سرزمین بے آئین پربھی ممکن نہیں۔ فوٹیج کا تعلق تھا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی سنٹرل جیل سے جس کے بااثر قیدی جیل میں ایسے بیٹھے تھے جیسے کوئی پکنک یا جشن منا رہےہوں۔ جوے کی محفلیں جمی تھیں، انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات سرو ہو رہے تھے، موبائل فون گنگنا رہے تھے، ایل سی ڈیز آویزاں تھیں، سوشل میڈیا پر مصروف تھے اور یہ تھے کون؟ جن پر اربوں روپے کی لوٹ مار کے ’’الزام‘‘ ہیں، الزام کیا کچھ تو مال مسروقہ سمیت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے تو سوچتا ہوں سبحان اللہ….. 70سال میں کیا سفر طے کیا ہے؟ اور کیسی منزلیں ماری ہیں۔ عمران نواز موازنہ کے لئے جتنی جہالت اور ذلالت درکار ہے ’’اس بازار میں‘‘ عام ہے اور سستی بھی بلکہ مفت بٹتی ہے لیکن وہ بھی کیا کریں کہ گریبانوں میں جھانکنے کے لئے گریبانوں کا ہونا پہلی شرط ہےاور شاہی حماموں میں نہ آستینیں ہوتی ہیں نہ گریبان۔

ذرا غور تو فرمائیں گڈ گورننس فیم پنجاب شریف میں 16ہزار بوگس کوآپریٹو سوسائٹیاں کام دکھا رہی ہیں اور ان کے عہدیدار فرضی زمینوں پر نجانے کتنے پلاٹ فروخت کرچکے۔ ذمہ داربیوروکریٹس کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی خبر کے ساتھ یہ خبر بھی موجود ہے کہ کئی افسران بیرون ملک فرار ہوچکے اور بہت سی رجسٹریشنز بڑے بڑے سیاستدانوں کی سفارش پر ہوئیں۔ کہاں کہاں سے چاٹو گے اس پیپ رستی پلید جمہوریت کو جس کے ان گنت مکروہ چہرے ہر روز دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر بھی ’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا چرچا ہے حالانکہ اگر یہ حسن و جمال ہے تو بدصورتی کسے کہیں؟قدم قدم پانامے ہیں اور منیر نیازی یاد آتا ہے کہ ایک پاناما کے پار اترو تو دوسرا….. اسے عبور کرو تو تیسرا جس کے بعد چوتھا، پانچواں، چھٹا علیٰ ہذا لقیاس۔ کہیں جمہوری پاناما، کہیں انتظامی پاناما، کہیں صنعتی و تجارتی پاناما، کہیں سیاسی تو کہیں غیرسیاسی پاناما، کہیں روحانی اور وجدانی پاناما….. غرضیکہ ان گنت پانامے۔ایک طرف تنہا پاکستانی…… دوسری طرف پاناموں کا کبھی نہ ختم ہوتا سلسلہ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے