نالہ لئی کی دلچسب وعجیب تاریخ

پاکستان میں مون سون سیزن کی بارشیں وقفے وقفے سے جاری ہیں، اور ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک کے مختلف علاقوں میں ان بارشوں سے سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

سیلاب کے خطرات سے دوچار علاقوں میں سے ایک نالہ لئی بھی ہے۔نالہ لئی ضلع اسلام آباد اور راولپنڈی کا ایک مشہور نالہ ہے، مارگلہ کے پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے،چھوٹے چھوٹے نالے،اورجڑواں شہروں کے سیوریج کا پانی نالہ لئی میں شامل ہو تاہے ۔ہر سال خصوصاََ مون سون بارشوں کے موسم میں نالہ لئی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک پہنچنے سے اس کے دونوں اطراف پر موجود کچی بستیاں مکمل ، جبکہ چند جزوی طور پر ڈوب جاتی ہیں، جبکہ اس سے ملحقہ دیگر علاقے زیر آب ہو تے ہیں۔ اس ہفتے نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہونے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات اسلام آباد میں ماہر موحولیات فاروق ڈار س کہتے ہیں کہ نالہ لئی میں اس سے پہلے ہونے والی بارشوں میں پانی کی سطح تقریباََ بیس فٹ تک پہنچ گئی تھی، اور آنے والے دنوں میں بھی نالہ لئی میں پانی کی سطح بیس فٹ کے آس پاس تک پہنچنے کا خدشہ ہے ۔

ہر سال مون سون سیزن میں نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہوتے ہی وہاں کے رہائشی بستیوں کے مکینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ محمد محبوب گزشتہ 40 سالوں سے نا لہ لئی کے ساتھ تعمیر شدہ اپنے کچے گھر میں رہ رہا ہے ۔ ریڈیو نیوز نیٹ ورک سے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے محمد ایوب کا کہنا تھا کہ مون سون میں بارش ہونے سے نالہ لئی کا پانی ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور رہنے کے لئے ان کے پاس کوئی ٹھکانا نہیں رہتا،جس کی وجہ سے انہیں کسی محفوط جگہ پر جانا پڑتا ہے اور اکثر وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میں پناہ لیتے ہیں۔ محمد ایوب نے حکومت سے رہنے کے متبادل جگہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ نالہ لئی کا ایک اور رہائشی ذولفقار نے بتایا کہ بارش کے باعث سیلاب آنے سے ان کے گھر ڈوب جاتے ہیں اور وہ جان بچانے کے لئے اپنی فیملی کو لے کر ساتھ ہی موجود ریل کی پٹری پر چلے جاتے ہیں۔ نالہ لئی کے قریب واقع گول منڈی کے رہائشی طالب علم محمد عظیم نے بتایا کہ مون سون میں بارش کا پانی ان کے سکول کو بھی متاثر کرتا ہے اور بچے سکول نہیں جا سکتے۔

ایک وقت تھا جب نالہ لئی کا پانی پینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اس میں مچھلیاں بھی ہوا کرتی تھیں، مگرعوام اور انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے اب یہ ایک گندہ نالہ بن چکا ہے۔ نالہ لئی کی صفائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈائریکٹرعمر فاروق نے ریڈیو نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) نے راولپنڈی شہر میں چار فلڈ رسپانس یونٹ لیاقت باغ، موتی محل، خیابان سرسید اور باغ سرداراں کے سیکٹر زمیں قائم کیے ہیں، جہاں پر آپریشنل مشینری اور ا سٹاف چوبیس گھنٹے الرٹ رہتا ہے، ہر سال یکم جولائی سے تیس ستمبر تک واسا میں ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے۔ اس سال نالہ لئی کی صفائی کا آغاز واسا نے اپریل کےمہینے میں کیا تھا اور پندرہ جون کو مکمل کیا گیا تھا، جس میں چودہ لاکھ پچاس ہزار سے زائد کیوبک فٹ ملبہ نہ صرف نکالا گیا بلکہ شہر سے باہر ٹرانسپورٹ بھی کیا گیا۔جس کے بعد اسلام آباد میں ایک سو اٹھارہ ملی میٹر اور راولپنڈی میں تقریباََ پچانوے میلی میٹر ریکارڈ ہونے والی مون سون کی پہلی بڑی بارش میں نالہ لئی کی سطح اٹھارہ فٹ سے زیادہ بلند ہوئی، لیکن اس صفائی کی وجہ سے نالہ لئی سے پانی باہر نہیں نکلا۔

دوسری جانب مون سون کی حالیہ بارشوں کی صورتحال اور ملک کے مختلف علاقوں میں تغیانی اور سیلاب کے خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے ادارےنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان بریگیڈیئر مختار کہتے ہیں کہ ‘‘ زیادہ تر بارشوں کا امکان کشمیر، بالائی خبیر پختونخوااورگلگت بلتستان میں ہے، جبکہ ملک کے دیگر صوبوں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے چند علاقوں میں مون سون بارشیں متوقع ہیں، اور ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان میں طغیانی کا بھی امکان ہے، اس کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں کراچی، روالپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں زیادہ بارشیں ہونے کی صورت میں اربن فلڈنگ کا امکان ہے، جس کے حوالے سے این ڈی ایم اے نے پہلے ہی الرٹ اور تمام متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی ہوئی ہیں۔’’

ممکنہ سیلاب سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے ترجمان این ڈی ایم اے بریگیڈیئر مختار نے ریڈیو نیوز نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تیرہ جون کو این ڈی ایم اے نے نیشنل لیول کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس میں پرونشل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹیز سمیت سیورج سسٹم کراچی، واسا، نالہ لئی کی اتھارٹی ، ڈسٹرکٹ ڈایزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور دیگر متعلقہ اداروں کو خبردار کیا گیا اور ان کی تیاریوں کا بھی جائزہ لیا گیا، اجلاس میں یہ ہدایات جاری کی گئی کہ تمام ادارے چوبیس گھنٹے تیار رہیں اور کسی بھی ناگہانی صورت میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کریں، اور ان کو اگاہ بھی کریں کہ ان ان علاقوں میں طغیانی آ سکتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں پیشگوئی کے باوجود کوئی خاطرخواہ انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ماہرین قدرتی آفات اور خصوصاََ سیلاب سے تباہ کاریوں کے بعد، کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے واضح پالیسی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

[pullquote] ریڈیو نیوز نیٹ ورک[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے