سر رہ گزر… تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیں بیوپار نہ بنائیں

سرکاری کالجز میں کم گنجائش، 80فیصد طلبہ داخلوں سے محروم رہ جائیں گے، موجودہ کالجز میں 33ہزار طلبہ کے لئے داخلے کی گنجائش باقی ماندہ نجی کالجز کے رحم و کرم پر۔ پنجاب میں تعلیم عام کرنے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، اسی لئے تعلیم کے لئے بجٹ مطلوبہ حجم سے سکڑ گیا ہے، یوں لگتا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سیکٹر میں اس لئے کم توجہ دی جا رہی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے تعلیمی دکانوں کی آمدن میں اضافہ ہو، غربت زدہ معاشرے میں نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی سکت ہوتی تو تعلیمی ہٹیوں سے مہنگی تعلیم کا سودا حاصل کرنا کیا مشکل تھا، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کا بال جو ہر امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتا ہے، اس پر نجی تعلیمی سیکٹر کو بھی ترس نہ آیا، ورنہ آج اگر پرائیویٹ سیکٹر اپنے ریٹ گرا دے تو غریب مگر قابل و لائق طلبہ کو داخلے کے لئے گنجائش نہ ہونے کا سامنا کیوں کرنا پڑتا، ہماری بدقسمتی ہے کہ تعلیم عام کرنے کے مشن کو بھی کاروبار بنا دیا، اگر پرائیویٹ سیکٹر راتوں رات علم فروشی کے ذریعے امیر بننے کی دوڑ میں شامل ہے تو یہاں صرف اشرافیہ کا حجم بڑھے گا اس کی ضرورتیں پورا ہوں گی غریب عوام کے تعلیم حاصل کرنے کے لئے بے چین بچے جہاں اور کئی محرومیوں کا شکار ہیں علم سے بھی محروم رہیں گے، سرکار کے پاس اب یہی آپشن باقی رہ گیا ہے کہ اول تو سرکاری تعلیمی ادارے حسب طلب قائم کرے اور اگر یہ ممکن نہیں تو نجی تعلیمی اداروں کو مانیٹر کرے، ان کی فیسیں عوام کی دسترس میں لائے، تعلیم کے کاروبار میں ناجائز منافع خوری کے رجحان کو ختم کرے، ایک کمیشن بٹھائے جو پرائیویٹ اداروں کے لئے جائز منافع رکھ کر فیسوں کا شیڈول بنائے، یونیفارم کلچر ختم کر کے تعلیم کو معیاری، سستا اور عام آدمی کی استطاعت کے مطابق بنائے اور حکومت پنجاب کمیشن کی قابل قبول سفارشات پر عملدرآمد کرائے تو تعلیمی محرومی کا ازالہ ہو سکتا ہے، نجی تعلیمی سیکٹر تعلیمی مافیا کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اس کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو شرح خواندگی مزید کم ہو گی بڑھ نہیں سکے گی، سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی دور کرنے کے ساتھ ان کی حالت بھی درست کی جائے، اساتذہ کے لئے ایک میرٹ مقرر کیا جائے اور سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں مقررہ میرٹ کے مطابق بھرتیاں عمل میں لائی جائیں۔

٭٭٭٭

دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی؟

دانابانِ رموز مملکت و حکمرانی سر جوڑ کر بیٹھیں اور غور کریں کہ ہماری فوج نے دہشت گردوں کی فوجیں ختم کر دیں مگر پھر کہیں نہ کہیں دہشت گردی ہو جاتی ہے، اور ہمارے باوردی بیوردی قیمتی سپوتوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، ایک طویل عرصے سے شہیدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کہیں یہ ذمہ داری قبول کرنا یہ خود کش بمبار سب ایک ڈرامہ تو نہیں، خود کشی کرنے والا تو پھر بھی مجبور ہوتا ہے خود کش کو کیا مجبوری ہوتی ہے کہ موت کو گلے لگا لیتا ہے، زندگی بہت عزیز ہوتی ہے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا پھر یہ خودکش کیسے؟ لگتا ہے یہ ایک کور ہے جس کی باقاعدہ تحقیق نہیں ہوئی، ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں ریموٹ سسٹم اس قدر عام ہے کہ اس کے ذریعے ایک محفوظ جنگ لڑی جا سکتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے اندر دہشت گرد، سہولت کار اور فنڈز و اسلحہ فراہم کرنے والے موجود ہیں اگر یہ خالصتاً بیرونی ہاتھ ہوتا تو بہادر افواج پاکستان کی بیشمار کامیابیوں کے بعد اب تک یہاں دہشت گردی، دہشت گرد کا وجود ہی نہ ہوتا، عقل و خرد سے کام لینا چاہئے، ہمارے ہاں بہت سے مسائل خود ساختہ اور اپنے پیدا کردہ ہیں، بددیانتی، غفلت اور لالچ نے ہمارے لئے بہت سی مشکلات تقریباً ہر شعبے میں پیدا کر رکھی ہیں، ٹی ٹی پی کا ملا عمر کے طالبان سے کوئی تعلق نہیں یہ اپنی ہی سرزمین کی جھاڑیاں ہیں۔ ان کو کون پانی دیتا ہے، کس کے ایماء پر یہ کام کرتی ہے اس کا سراغ لگایا جائے، پولیس، فوج ، انٹیلی جنس آخر کہاں تک اور کب تک یہ جنگ لڑتی رہے گی کیا وہ اپنے بنیادی کام چھوڑ کر صرف اس فتنے سے نمٹتے رہیں گے اور شہادتیں پاتے رہیں گے؟ جو یتیم، بیوائیں اور دیگر لواحقین جھیل رہے ہیں اس کا احساس کرنے سے بھی خوف آتا ہے، یہ تو جس تن لاگے وہ ہی جانے، بہر صورت ہم کو قومی سطح پر دہشت گردی کا بیج مارنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی ایک کارگر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی کیونکہ یہبلا ہماری اپنی ہی سرزمین کی پیداوار ہے کیوں اور کس کے ایماء پر دہشت گردی ہوتی ہے اور ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوتی اس کا جواب تلاش کرنا ہے۔

٭٭٭٭

ہیجان

ہیجان بظاہر تو ایک لفظ ہے مگر اس کے عملی اثرات کی تباہ کاری کا دائرہ بہت وسیع ہے، ہر فرد ہر شعبہ حیات اگر کچھ کرنے سے پہلے اتنا خیال رکھے کہ اس کے عمل سے معاشرے میں ہیجان، پریشانی، خوف و ہراس کا عنصر شامل ہے تو وہ اسے نکال پھینکے، اور اپنا کام بھی سرانجام دے تو ہمارے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں، ہیجان اتنا خطرناک نہیں جتنی ہیجان انگیزی، اگر ہم خدا لگتی بات کریں تو اس بلائے ناگہانی کو پذیرائی دینے میں ہمارے میڈیا کی جملہ اقسام کا بہت بڑا کردار ہے، لائوڈ کلنگ لائوڈ اسپیکنگ دونوں ہی خطرناک ہیں، معقول سوچ، تدبر، تحمل اور لہجے کا ٹھہرائو ہو تو بات زیادہ موثر انداز میں کی جا سکتی ہے، ٹاک شوز پر بلوے کا گمان گزرتا ہے، اینکر آخری جنگجو لگتا ہے، ایک بات جو ابھی باہر نہیں نکلی اپنے وقت پر سامنے آئے گی اس کے بارے میں قیاس آرائیاں وقت کا ضیاع ہی نہیں حماقت بھی ہے، یوں لگتا ہے کہ ہم سب ہائپر ٹینشن کے مریض ہیں، کہ پیار بھری معقول بات پر بھی طیش میں آ کر اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں، دولت، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے مگر ہم اسے بھی اپنے لئے زحمت بنا دیتے ہیں، دولت ایک آزمائش ہے کہ یہ بندہ دولت کے بل بوتے پر تکبر اختیار کرتا ہے یا وسیع الظرفی دکھاتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک اچھا موثر اور تیز رو ذریعہ ہے علم، اچھائی اور دانائی پھیلانے کا مگر آج جو بھی کوئی چند جملے پوسٹ کرتا ہے وہ اس کے اندر کے ہوس انتقام کا بھڑاس ہوتا ہے جو جہاں جہاں پہنچتا ہے آگ لگاتا جاتا ہے، ترقی یافتہ قومیں تو بہت کم یہ ذریعہ استعمال کرتی ہیں اس لئے کہ وہ ہماری طرح اس قدر فارغ نہیں، یہاں دیکھیں تو ٹویٹ کلچر چل پڑا ہے، اپنی ذاتی پسند ناپسند اور غصے کا اظہار ٹویٹس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے صرف یہ دیکھنا شروع کیا کہ اینکرز کا تلفظ کیسا ہے تو بڑی مایوسی ہوئی کہ 70فیصد کی شین قاف درست نہیں،
غلطیائے انداز تکلم نہ پوچھ
ایک ڈبے میں روڑے سے بج اٹھتے ہیں
مطالب و معانی

….Oایک قاری:ہم نے تو دیسی مہینوں میں ہاڑ کے بعد اساڑھ سیکھا پڑھا تھا، اب یہ اس کی جگہ ساون کا لفظ کیوں استعمال ہوتا ہے،
آپ درست کہہ رہے ہیں!

….Oذرائع کہتے ہیں ظفر حجازی کی بیماریوں نے تفتیشی ٹیم کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں،
بیماری مجبوری ہے تفتیشی ٹیم ان کا علاج کیوں نہیں کراتی۔

….Oبھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھارت کی پسندیدہ ترین سیاستدان قرار۔
اس میں ایک ’’ووٹ‘‘ پاکستان سے بھی شامل کر لیں مقبولیت اور بڑھ جاتی ہے ووٹ جو ووٹوں میں ملیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے