احتساب، استحصال اور استعمار

یہ بیس سال پرانی کہانی ہے۔ ابھی تک ختم نہیں ہوئی لیکن آخری موڑ میں داخل ہو چکی ہے اور ممکن ہے اگلے بیس دنوں میں ختم ہو جائے۔ بلاول بھٹو زرداری اس بیس سال پرانی کہانی کا ابتدائی حصہ بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ اُنہوں نے دوپہر کے کھانے پر اس ناچیز کے ساتھ جناب نصرت جاوید کو بھی مدعو کیا تھا اور کھانے کی میز پر میرے ایک بیس سال پرانے کالم کا ذکر شروع ہو گیا جس میں نواز شریف کے بیرون ملک کاروبار اور جائیدادوں کے متعلق کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے۔

ان سوالات کا جواب جناب پرویز رشید نے دیا اور یہ جواب میرے کالم میں شائع ہو گیا تھا۔ اس جواب کو محترم نصیر اللہ بابر مرحوم نے مسترد کر دیا اور جواب الجواب لکھ بھیجا۔ جب یہ جواب الجواب شائع ہوا تو جناب پرویز رشید نے ایک اور جواب لکھ مارا۔ میں دونوں اطراف کے لمبے لمبے خطوط اپنے کالم میں شائع کرنے سے اکتا گیا تو گزارش کی کہ براہ کرم یہ معاملہ عدالت میں طے کریں۔ مسلم لیگ (ن) نے سرے محل اور سوئس اکائونٹس سمیت کئی الزامات کی تحقیقات کے لئے آصف زرداری کو گرفتار کر رکھا تھا جبکہ پیپلز پارٹی امریکہ میں شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ لندن کی جائیداد پر شور مچا رہی تھی۔

انہی دنوں نصیر اللہ بابر نے اپنے الزامات کی تائید میں مجھے کچھ دستاویزات بھی دکھائیں۔ یہ دستاویزات میں نے نصیر اللہ بابر مرحوم کے موقف کے ساتھ شائع کر دیں جس پر وزیراعظم نواز شریف بہت ناراض ہوئے۔ اُن کی ناراضی کا پتا ایسے چلا کہ جولائی 1997ء کی ایک صبح اُنہوں نے مجھے، نصرت جاوید، عامر متین اور محمد مالک کو ناشتے کے لئے وزیراعظم ہائوس مدعو کیا۔

ناشتے کی میز پر اُنہوں نے میرے چیف ایڈیٹر اکبر علی بھٹی مرحوم کے بارے میں خفگی کا اظہار کیا۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو بھٹی صاحب کے اخبار نے یہ ہیڈ لائن جمائی تھی __’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘۔ نواز شریف صاحب کو یہ ہیڈ لائن ابھی تک یاد تھی اور اُن کا خیال تھا کہ میں اپنے چیف ایڈیٹر کے دبائو پر نواز شریف صاحب کی بیرون ملک جائیدادوں کے پیچھے پڑا ہوں۔ نصرت جاوید نے وزیر اعظم صاحب کو بتایا کہ حامد میر اس اخبار میں 1994ء میں آیا جبکہ یہ ہیڈ لائن 1993ء میں شائع ہوئی تھی اور یہ ہیڈ لائن عباس اطہر صاحب کے ذہن کی تخلیق تھی اور عباس اطہر کسی کے کہنے پر ہیڈ لائن نہیں بناتے تھے۔

1970ء میں ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ والی مشہور ہیڈ لائن بھی عباس اطہر نے بنائی تھی جس سے پیپلزپارٹی آج تک چھٹکارا نہیں پا سکی۔ میں نے بھی نواز شریف صاحب کو یقین دلایا کہ اکبر علی بھٹی نے کبھی آپ کے خلاف لکھنے کے لئے نہیں کہا لیکن وزیر اعظم صاحب کا اصرار تھا کہ میں بھٹی صاحب کا اخبار چھوڑ دوں۔ اس گفتگو کے کچھ حصے مجھے یاد نہ تھے لیکن نصرت جاوید بڑی فصاحت کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو اس بیس سال پرانی ملاقات کے پس منظر سے آگاہ کرتے کرتے پیش منظر تک جا پہنچے اور میں دل ہی دل میں نصرت صاحب کی اعلیٰ یادداشت کو داد دیتا رہا۔
قصہ مختصر یہ کہ بیس سال پہلے کی صبح ناشتے سے فارغ ہو کر میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچا تو لاہور سے اطلاع آئی کہ اکبر علی بھٹی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُن پر کسی بینک سے لیا گیا قرضہ بروقت ادا نہ کرنے کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔

وہ اتنے تنگ آئے کہ اخبار سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا اور مجھے پیغام بھیجا کہ آپ نے تو میرا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن میں صحافت چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ پھر بھٹی صاحب زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ دوسری طرف نواز شریف حکومت نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نام پر اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کو پیغام بھیجا کہ آیئے مل کر صدر فاروق لغاری سے آئین کی دفعہ 58ٹو بی کے تحت اسمبلیاں توڑنے کا اختیار چھین لیں۔ بے نظیر صاحبہ نواز شریف کی بیرون ملک جائیدادوں کو بھول گئیں اور انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر فاروق لغاری کو بے اختیار کر دیا۔

فاروق لغاری کو بے اختیار کرنے کے بعد نواز شریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کے بعد آرمی چیف جہانگیر کرامت کو فارغ کیا۔ عدلیہ اور فوج سے نمٹنے کے بعد بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب بے نظیر صاحبہ نے مجھے اسلام آباد میں کہا کہ میرے بچوں کا باپ جیل میں ہے اور اگر میں بھی جیل چلی گئی تو بچوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ ہو گا اس لئے میں ایک ماں کا فرض نبھاتے ہوئے بچوں کو لے کر دبئی جا رہی ہوں۔

مجھے یاد ہے کہ 12؍اکتوبر 1999ء کے دن میرے کالم پر احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان شدید ناراض تھے۔ مجھے پیغام دیا گیا کہ اس کالم کی تردید کرو ورنہ تمہیں ٹیکس چوری میں گرفتار کر لیں گے۔ میرا جواب تھا خبر کی تردید ہو سکتی ہے کالم کی تردید کیسے ہو گی؟ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن کے لئے ملک سے باہر چلے جائو۔ اسی شام شکوے شکایت کیلئے حکومت کے ایک وزیر خواجہ آصف کے پاس پہنچا تو پتا چلا کہ فوجی بغاوت ہو چکی ہے۔ ابتداء میں اسمبلیاں برطرف نہیں کی گئی تھیں اور عدالتوں کو بھی کام سے نہ روکا گیا لہٰذا بے نظیر بھٹو سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے فوجی بغاوت کا خیرمقدم کیا بعد ازاں اُنہوں نے لندن میں نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر دیا۔

افسوس صد افسوس کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ پیپلز پارٹی ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ این آر او پر دستخط کر کے اقتدار میں آئی تو نواز شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کے ساتھ مل کر میمو گیٹ اسکینڈل کے ذریعہ جمہوری حکومت ختم کرنے کی کوشش کی۔ پھر 2014ء میں نواز شریف حکومت دبائو میں آئی تو پیپلز پارٹی نے سازش کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا۔ آصف زرداری سے کہا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے دیدے تو سندھ کی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکز میں اسے وزارت خارجہ اور داخلہ بھی مل سکتی ہے۔ آصف زرداری نے انکار کر دیا۔ جب نواز شریف حکومت دبائو سے نکل گئی تو پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ جو ہوا وہ سب 1997ء میں بھی ہوا تھا۔

2017ء میں پاناما کیس نے نواز شریف حکومت کو جس بحران سے دوچار کیا ہے وہ بحران نہ تحریک انصاف نے شروع کیا ہے نہ پیپلز پارٹی نے شروع کیا ہے۔ نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف بیس سال پرانے الزامات پاناما پیپرز کی صورت میں واپس آئے تو نجانے کس کے مشورے پر نواز شریف صاحب نے بار بار اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا۔

احتساب شروع ہوا تو فرمایا کہ یہ احتساب نہیں استحصال ہے۔ اس استحصال کے پیچھے استعمار کو بھی تلاش کیا گیا لیکن جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد دہم کہتی ہے کہ استعمار نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات میں جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ جس طرح نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل کے دنوں میں پیپلز پارٹی سے استعفیٰ مانگ رہے تھے پیپلز پارٹی نواز شریف سے استعفیٰ مانگ رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ وقت بدل گیا لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں بیس سال پہلے کھڑے تھے۔ اگلے بیس دن میں یہ کہانی ختم ہونے کے بعد دعا کریں کہ بیس سال بعد کوئی صحافی بلاول بھٹو زرداری کو ایسی پرانی نہیں کوئی نئی کہانی سنا رہاہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے