سر رہ گزر… ایسی بھی کیا جلدی!

عمران خان نے کہا ہے:پوری قوم منتظر ہے سپریم کورٹ فیصلہ جلد سنائے، جبکہ خورشید شاہ کہتے ہیں:عدالت عظمیٰ کو ڈکٹیٹ نہ کریں۔ خان صاحب گرم گرم اور شاہ صاحب ٹھنڈا کر کے کھاتے ہیں، خورشید شاہ اپنا اور خان صاحب کا منہ جلنے سے بچانے کیلئے کہہ گئے سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کریں، بہرحال عدل کسی کا منہ جلنے یا نہ جلنے کو نہیں دیکھتا وہ قانون کے ناک کی سیدھ میں چلتا ہے، خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے کہ مصداق خدا جب دولت دیتا ہے تکبر آہی جاتا ہے، دولت کی پیداوار تکبر اور تکبر کی پیداوار غصہ ہے، جو بنتا کام بگاڑ دیتا ہے، سیانے کہتے ہیں گھمنڈ انسان کو بہت مہنگا پڑتا ہے، سپریم کورٹ آگاہ ہے کہ لوگ منتظر ہیں، پہیہ جام ہے سیاستدان بیقرار ہیں، اور عدالت یہ بھی جانتی ہے کہ لوگ منتظر نہ رہیں، پہیہ چلنے دیں، سیاستدان چین سے بیٹھیں، فیصلہ اپنے وقت پر ہی آئے گا، عمران خان کی ڈکٹیشن پر نہیں، اور خورشید شاہ کو ڈر ہے کہ کہیں خان جلد بازی میں کام ہی خراب نہ کر دے، سپریم کورٹ منصب عدل پر بیٹھی ہے، کوئی ڈکٹیشن وغیرہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتی شاہ جی بے فکر رہیں، عمران خان کی ڈیمانڈ پہنچ کر بھی نہیں پہنچے گی، ہم اپنے عوام بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں خواص بھائیوں سے نہیں کہ انہوں نے کیوں پاناما کا پاجامہ پہن لیا ہے، اور بھی بہت ہنگامے ہیں گھر میں پانامے کے سوا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عدلیہ ہی راہ راست پر لائے گی، عوام عدلیہ کی طاقت بنیں منفعت پرست سیاستدانوں کا رزق نہ بنیں، اسی طرح ان کا رزق بے حساب ہوگا، دشمنوں کا دل جگر کباب ہوگا، نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ سیاست، جمہوریت، اقتدار اور عوام کا جوش و خروش بمعہ میڈیا کی گرم بازاری ہمارا نشہ بن چکا ہے، روٹی ملے نہ ملے مسائل حل ہوں نہ ہوں ہمارا نشہ پورا ہوتا رہے، جس افیون پر ہم لگے ہیں اس سے بیدار ہونا گراں خواب افیونی چینیوں کے جاگنے سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے، آج چین ہم سے کہہ رہا ہے؎
جاگ دل دیوانہ رُت آئی بہار کی
٭٭٭٭٭

پنچایت، عدلیہ کی نفی
پنچایت کیس، لڑکی سے زیادتی کی تصدیق، سرپنچ سمیت 20گرفتار، وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا، عدلیہ بھی ہو اور پنچایت بھی رہے تو پھر یہی کچھ ہوگا، ملتان کے نواح میں ریپ کے کیس کا پنچایت نے یہ فیصلہ سنایا کہ مجرم کی بہن کا زیادتی کی شکار لڑکی کا بھائی ریپ کرے، اورپھر اس پر عملدرآمد بھی ہوگیا، گویا بیک وقت دو لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کردی گئیں، یہ ہے پنجاب میں حقوق نسواں کے بل اور اس پر قانون سازی کا حشر، کیا کسی نے یہ غلط نہیں کہا تھا کہ ہم آپ کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دینگے کیونکہ ہم اس سے نکلے کب ہیں، اس انسانیت سوز واقعہ کا تصور کر کے دل دہل جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں شاید اس کے باوجود بھی خواتین کی حرمت عزت دائو پر لگتی رہے گی یہ کیا غیر محفوظ مائوں، بیٹیوں، بہنوں کا معاشرہ ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، کیا یہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ملک ہم نے جنسی درندگی کی آماجگاہ بنانے کیلئے حاصل کیا تھا، کیا غیرت کے نام پر لڑکیوں کا قتل، ونی اور قرآن سے نکاح لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی گناہ سے چھوٹا گناہ ہے؟ جیسے محرومی، غربت، کفر اختیار کرنے کا سبب بن سکتی ہے، جس معاشرے میں مجرم کو عبرتناک سزا نہ ملے وہاں ہر شعبہ حیات میں جرم ہی جرم ہوتا نظر آئے گا، جس ملک میں دولت محافظ ہو وہاں عام غریب آدمی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے، ہمارے تقریباً ہر شعبے میں اخلاقیات کا فقدان ہے، اگربے آبرو کرنے جیسے بڑے جرم کا فیصلہ جاہل سرپنچوں نے کرنا ہے تو عدالتیں بند کردیں، ہم عدالت عظمیٰ سے گزارش کرینگے کہ اس واقعہ کا ازخود نوٹس اور پاکستان کی پارلیمنٹ پنچایت کے خاتمے کا بل منظور کر کے قانون سازی کرے اور حکومت اس پر عملدرآمد کرائے، جرم کو جرم کے ذریعے ختم کرنے کی یہ لعنت ختم کی جائے، اب پنچایتی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کا وقت آگیا ہے، ورنہ ہم آئینے میں اپنا منہ دیکھنے کے قابل نہیں رہینگے دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔
٭٭٭٭٭

پاکدامنی کا قحط
سارے اخبارات پڑھنے اورتمام چینلز سننے کے بعد اپنے دامن پر شک گزرتا ہے کہ کیا ہم میں کوئی پاکدامن سرے سے موجود ہی نہیں، یہ تر دامنی ہمیں کہاں لے جائے گی کیا اس مقام کو جہنم کہنا بے جا ہوگا، جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اسے بھی اپنے جرموں پر پردے ڈالنے کیلئے استعمال کیا جائے، معاشروں سے سزا و جزا اٹھ جائے تو وہ جنگل بن جاتے ہیں، ہم تو ایسے جنگل بڑی تیزی سے بناتے جارہے ہیں کون کہتا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کی کمی ہے، لوگ مگرمچھوں کو برا کہتے ہیں جبکہ برے تو وہ مکڑے ہیں جنہوں نے پاک سرزمین کے اندر باہر جگہ جگہ اپنے اپنے جالے بُن رکھے ہیں اور اس تاڑ میں بیٹھے ہیں کہ بیچاری مفلس مکھیوں کا خون پینے کیلئے ان کی بے تابی دید کے قابل ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ قحط الرجال ہے جبکہ اس کا سبب بھی پاک دامنوں کا قحط ہے، دامن تر جائے نماز خشک ہو تو سجدوں میں کیف و سرور کہاں سے آئے؟ یہ نکتہ کیوں نہیں سمجھا جاتا کہ بقول صوفی؎
جے رب ملدا دھوتے دھائیاں نوں
تے ملدا دریا دی مچھیاں کر کمیاں نوں

اگر کسی کا ناک ہی نہ ہو تو پھولوں کی قدر کیسے جان سکتا ہے، کھوٹی نیت والا اپنی نماز کیسے کیش کرا سکتا ہے، شاید ہم نے لفظ پاک کو بھی پنجابی کا لفظ پاک بنا دیا ہے جس کا مطلب ہے پھوڑے سے رستی پیپ، پنجابی کا روزمرہ ہے ’’فلانےدے پھٹ وچ پاک پے گئی اے‘‘ ہمارا زخم بگڑ چکا ہے اس سے پیپ رسنے لگی ہے، اب بھی مرہم نہ رکھا تو ناسور بن سکتا ہے، اور ناسور کا بھی علاج نہ کیا تو سارا جسم ناسور بن سکتا ہے، پھر فاتحہ پڑھنے کے سوا کیا باقی رہ جائے گا، جب پاکدامنی کا قحط پڑتا ہے تو اناج، خوشحالی، عدل و انصاف کا بھی قحط پڑتا ہے، بدکرداری نے معاشرے لوٹے ہیں، ورنہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کے آتا ہے، پاکدامنی بولتی ہے بتائی نہیںجاتی ہے؎
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ بند قبا دیکھ
٭٭٭٭٭

روٹھے روٹھے پیا منائوں کیسے

٭…چوہدری نثار کو منانے کی کوششیں زوروں پر،
وزیراعظم کی ایک ٹیم ہر روز ملنے جاتی اور یہ سناتی ہے؎
روٹھے روٹھے پیا منائوں کیسے
آج نہ جانے کیا بات ہوئی وہ کیوں روٹھے مجھ سے
جب تک وہ نہ بولیں مجھ سے میں سمجھائوں کیسے

٭…پیپلز پارٹی کے رہنما عزیز الرحمٰن چن نے کہا: ن لیگی حکومت بری طرح ناکام ،
آپ کی پارٹی اچھی طرح ناکام۔

٭…مصطفیٰ کمال:مہاجر سیاست کر کے قوم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے،
ہم سب پاکستانی ہیں، یا ہم سب مہاجر ہیں، اس پر تو پہلے ریفرنڈم کرا لیں جب آپ پاکستانی ہیں تو کیوں نقصان پہنچائیں گے،
پاکستانی اور مہاجر قوم کا تصور نہ دیں۔

٭…پاکستان لال بتی کے پیچھے دوڑنے سے باز آگیا ہے، اب حق سچ ہی راج کرے گا۔
٭…اعتزاز احسن نے حریفوں کیلئے ایک مخفف ایجاد کیا ہے جسے وہ جی جی بریگیڈ کہتے ہیں، اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو یہی مخفف دوسروں کے کام آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے