خالی برتن

نواز شریف وزیراعظم ہے. 2013ء میں ہونے والی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن نے 14,874,104 ووٹ حاصل کیے جو کل ووٹوں کا 17.25 فیصد بنتا ہے. کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ نواز شریف عوامی مینڈیٹ سے وزیراعظم بنا ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ نواز شریف عوام کا منتخب کردہ حکمران ہے؟

اولاً نواز شریف کو عوام نے براہ راست وزیراعظم منتخب نہیں کیا، دوم کل کاسٹ شدہ ووٹوں کا 37.5 فیصد مسلم لیگ ن کو ملے، یعنی 62.5 فیصد ووٹ کاسٹ کرنے والے لوگوں نے نواز شریف پہ اعتماد نہیں کیا تھا… یہ کیسی عوامی جمہوری حکومت ہے کہ جس شخص کو 62.5 فیصد ووٹروں نے اپنا قائد ماننے سے انکار کر دیا مگر وہ پھر بھی حکمران بن جاتا ہے؟

سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ 2013ء میں 45 فیصد عوام نے ووٹ ہی کاسٹ نہیں کیا تھا، یعنی آدھے ووٹرز کو اِس الیکشن، اِس نظام اور اِس سیاست میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے. الیکشن اور حکومت کا سیاسی، اخلاقی، قانونی، موضوعی اور معروضی جواز ہی ختم ہو جاتا ہے جب 45 فیصد لوگ الیکشن کے عمل میں دلچسپی ہی نہیں لیتے. یہ اِس نظام پہ بہت بڑا اور بہت نازک سوال ہے.

اب اگر کوئی یہ کہے کہ نواز شریف عوام کا منتخب کردہ حکمران ہے تو ماننا کم از کم میرے لیے ناممکن ہے…!

پھر جو 17.25 فیصد ووٹ مسلم لیگ ن نے حاصل کیے اُس میں بھی کئی اہم معاملات قابلِ غور ہیں. نواز شریف کے پاس اکثریت ایسے نمائندوں کی ہے جو مسلم لیگ کے علاوہ کسی بھی پارٹی میں ہوتے تو جیت جاتے. یعنی مسلم لیگ کو ملنے والی اکثریتی ووٹ پارٹی کو یا پارٹی کے قائد کو نہیں ملے بلکہ علاقائی نمائندوں کو ملے. پھر اُن نمائندوں کی اکثریت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پہ مشتمل ہے جو اپنی اہلیت، قابلیت، صلاحیت، شرافت یا اچھائی وغیرہ کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرمایہ کی طاقت کی بنیاد پہ ووٹ حاصل کرتے ہیں.

نواز شریف نے کونسا عوامی سیاست کی ہے؟ بلکہ اُس نے بھی اپنے سرمائے کی بنیاد پہ طاقت کے ایوانوں کو سَر کیا ہے. اُس کے پاس سرمائے کی بنیاد پہ عدلیہ اور صحافت سے لیکر میڈیا اور ہمہ قسمی اسٹیبلشمنٹ تک مہرے اور "محسن” موجود ہیں. انہی احباب کی مدد سے نواز شریف اقتدار پہ براجمان ہے. علاوہ ازیں الیکشن سے پہلے اور دوران الیکشن کئی قسمی دھاندلیوں کے زریعے اقتدار پہ قابض شخص کو عوامی کا منتخب کردہ حکمران ماننا قرینِ انصاف نہیں ہے.

پھر نواز شریف ایک جھوٹا، قاتل، نااہل، ظالم، آمر اور کرپٹ حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے. پانامہ اسکینڈل اور پھر اْس پہ ہونے والی عدالتی کارروائی میں سامنے آنے والے معاملات نے نواز شریف کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے، جو چہرہ سامنے آیا ہے وہ اتنا خوفناک ہے کہ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں. مگر یہ اُس کی کرپشن کا ایک فیصد بھی نہیں ہے.

نواز شریف کا احتساب کیا ہے؟ بالادستی کی لڑائی اتنی شدید ہو گئی ہے کہ عسکری حکام اور نواز شریف ایک دوسرے کیلیے خطرہ بن چکے ہیں. ایک کی شکست دوسرے کیلیے فتح ہے. ایک کی بالادستی دوسرے کیلیے تباہی کا استعارہ ہے. دو بھیڑیوں کی لڑائی میں ایک فاتح دوسرے فریق کیلیے قاتل ہو گا. یہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوئی تیسرا گروہ اِن کی ڈیل کروا دے اور احتساب کا عمل یہی روک دیا جائے.

نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا یا اُس کا اقتدار برقرار رہے، دونوں صورتوں میں پاکستانی عوام کیلیے کوئی نقصان یا فائدہ نہیں ہے. اِن کے حالات جوں کے توں رہیں گے. عوامی کی حالت میں کوئی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے.

حقیقی عوامی تبدیلی کیلیے شرط ہے کہ عوام براہ راست تبدیلی کے عمل میں شامل ہوں. تبدیلی لانے والے عوام کی قیادت ترقی پسند طبقے کے ہاتھ میں ہو اور عمل کا انجام نظام کی تبدیلی پہ منتج ہو. یہ موجودہ صورتحال اِن تینوں شرائط سے کوسوں دور ہے. نواز شریف کا جانا ایسے ہی ہے جیسے ایک گدھ کو دوسرے گدھ سے بدل لیا جائے.

نواز شریف کو آصف علی زرداری نے مشورہ بھی دیا تھا کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں لے آؤ. مگر نواز شریف چونکہ حقیقی سرمایہ دار ہے اِس لیے اُس نے پارلیمنٹ کو اپنے سامنے بہت حقیر جانا. یہ کسی بھی ایسے حکمران کی نفسیات کی تصویر ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں ہر سرمایہ دار کی ہو سکتی ہیں. یعنی عوام اور عوامیت پہ لعنت بھی نہیں بھیجی جاتی.

حالات کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ نواز شریف کو فارغ کر دیا جائے گا. لیکن نواز شریف کی فراغت سے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچے نہ ہی سیاسی عمل پہ کوئی مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ ہمہ قسمی اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ پہنچے گا جو عوامی سیاست کی رہی سہی راہ کو بھی بند کر دے گی. آئیے دیکھتے ہیں کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے. مگر یہ یقینی بات ہے کہ آقاؤں کی جنگ کا خمیازہ عوام بھگتیں گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے