سر رہ گزر… پاکستان زندہ باد

ہمارے پاس اگرچہ پاکستان کے سوا کچھ نہیں تاہم پاکستان ہے تو سب کچھ ہے، اس لئے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان سپریم کورٹ نے پوری محنت سے آئین و قانون کے تحت ایک فیصلہ کر دیا ہے، یہی پاکستان کی بڑی کامیابی ہے، اب یہ ثابت ہو گیا کہ ملک کے حکمران ہوں یا اپوزیشن پوری قوم کو امانت، صداقت، دیانت سے ترقی کا سفر جاری رکھنا ہو گا، اگر کوئی بھی سیدھے راستے سے ہٹے گا تو اس سے پوچھ گچھ ہو گی، ایک تاثر ابھر رہا ہے یا ابھارا جا رہا ہے کہ پاکستان کو خطرات کا سامنا ہے، تو یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان بننے کی گھڑی سے پاک سرزمین کے خلاف سازشیں شروع ہو گئی تھیں، کیونکہ نو آبادیاتی حکمران بھی پاکستان بننے کے حق میں نہیں تھے مگر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی دیانتدارانہ اہلیت اور شبانہ روز محنت سے بڑے زوروں سے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کو نہ صرف منوایا بلکہ اس نوزائیدہ ملک کو چلنا بھی سکھایا، یہ درست ہے کہ وطن عزیز کو قائداعظم کے اصولوں کے مطابق نہ چلایا گیا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کسی نے بھی آج تک پاکستان سے غداری نہیں کی، اس لئے اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کو اہلیت، ایمانداری اور محنت سے چلایا جائے گا، اور یہ آگے بڑھے گا، بیدار عدلیہ اور عوام کی طاقت پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنائے گی، جہاں انصاف کے ادارے کام کرتے ہیں وہاں تیزی سے تطہیر کا عمل جاری رہتا ہے، کیونکہ جزاء سزا ہی سے معاشرے سدھرتے اور ترقی کرتے ہیں، آج کا دن ایک روشن دن ہے کیونکہ عدل قائم ہو چکا ہے، اب یہ گنجائش ہی نہیں رہے گی کہ کوئی بے اعتدالی کر سکے پاکیزہ سیاست، جمہوریت اور گورننس میں آیا جمود ٹوٹے گا، قانون کی حکمرانی اس پر عملدرآمد سے قائم ہوتی ہے، جب ہم اندر سے پاک صاف اور مضبوط ہوں گے تو اغیار کی سازشیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی، پوری توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ایک نئی صبح طلوع ہو چکی ہے، یوں لگتا ہے کہ ہم سب کی تربیت ہو گئی ہے، اور اب سب کو اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھنا ہو گا۔
٭٭٭٭

عوام کی ذمہ داری
سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں عوام ہی پستے رہے ہیں، عوام ہی کو انصاف نہیں ملتا رہا، عوام ہی کی آبادیوں میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قانون حرکت میں آیا نہ حکمرانوں نے کوئی ایسا ایکشن لیا جس کے اثرات دیر پا ہوتے، بلکہ انہیں آٹے دال کے بھائو ہی میں الجھائے رکھا گیا، اشرافیہ کو اس سرزمین نے وی آئی پی بنایا اور اس نے فرعونیت کا کردار ادا کیا، اہل ریاست و سیاست بھی اشرافیہ میں سے آتے رہے، اگر کبھی عوام اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہوں نے حکمرانوں کے انتخاب میں خالص جمہوری روایات کا پاس نہ کیا، ورنہ وہ کبھی ایسے حکمران اپنے اوپر مسلط نہ کرتے جو پارلیمنٹ میں بھی اپنی ہی بات کرتے ہیں، عوام کی خوشحالی اور ان کو فوری ریلیف پہنچانے کے لئے کوئی کام نہ کیا، مگر اب یہ امید بندھ گئی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ بیدار ہو چکے ہیں، اور یہ بھی جان چکے ہیں کہ ان کے ووٹ کی طاقت ہی ان کے حالات بدل سکتی ہے بشرطیکہ وہ اس کا صحیح استعمال کریں، چنائو میں ذاتی دوستی، انفرادی اغراض و مفادات برادری ازم اور رائے دہی میں ہیرا پھیری کو ترک کر دیں، اور بے تحاشا تکالیف کے بعد وہ اب کسی ایسی بل میں انگلی ڈالیں گے جہاں سے انہیں کوئی سانپ نہ کاٹے اکثر عوام کو عوام سے لڑایا گیا، اور ارباب سیاست و حکومت نے تجوریاں بھریں، عوام کے بچوں کو ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل بھی نہ رہنے دیا گیا اور اپنے بچوں کو دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی، تقریباً ہر حکمران سیاستدان نے بیرون وطن بھی اپنے لئے اعلیٰ رہائش گاہیں بنا لی ہیں، جبکہ پہلے وطن میں اپنے عوام کا ایک بڑا حصہ اب بھی کرایوں کے مکانوں میں رہتا ہے، اور پیٹ کاٹ کر مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے، اب عوام اپنے خزانے کی خود حفاظت کریں مگر قانون کے دائرے میں رہ کر، وہ اس بات کو سمجھیں کہ اشرافیہ اندر سے ایک ہے تو وہ کیوں ظلم جبر محرومی غربت کے خلاف ایک نہیں ہو سکتے، اب بھی نہ جاگے اپنی رائے کا صحیح استعمال نہ کیا تو یہی زبوں حالی برقرار رہے گی۔
٭٭٭٭

جہاں انسان مویشی اکٹھے رہتے ہیں
مویشیوں کو شہری آبادی سے باہر کرنے کا فیصلہ مدت ہوئی ہو چکا ہے، گوالا کالونی بھی بنائی گئی، بلدیاتی انتخابات ہوئے، کونسلر، ناظم بھی منتخب ہو گئے ، مگر اب بھی پہلے سے بڑھ کر غیر پوش علاقوں میں بالخصوص ہربنس پورہ سے ملحق آبادیوں میں بھینسیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور اونٹ پالے جا رہے ہیں، اور جہاں کوئی خالی پلاٹ ہوتا ہے وہاں بھینسیں بندھی نظر آتی ہیں، اور آس پاس رہنے والوں کے ناک دن رات بدبو سے جلتے رہتے ہیں، مکھی مچھر اور جراثیم کی افزائش جاری ہے، مگر کوئی کونسلر، ناظم، بلدیہ عظمیٰ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اس سب سے باخبر ہوتے ہوئے کوئی کارروائی نہیں کرتے، سوال یہ ہے کہ کیا پوش ایریاز میں بھی بھینسیں پالی جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہاں ایسا کرنے ہی نہیں دیا جاتا، مگر عام لوگوں کی عام بستیوں میں اب بھی گوالے گھروں خالی پلاٹوں اور وسیع احاطوں میں مال مویشی پالتے ہیں، جن کے باعث بیماریاں پھیل رہی ہیں، کیا ڈینگی کے خلاف جنگ میں انسانوں اور مویشیوں کو الگ کرنا شامل نہیں؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ رہائشی دشمنی کے خوف سے اف نہیں کر سکتے کیونکہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ بدمعاش ہیں، ان سے ہر کوئی ڈرتا ہے اور ان میں سے اکثر کو سیاسی سپورٹ حاصل ہے، کیونکہ وہ ان کو ووٹ دیتے ہیں اور بدلے میں عوامی کالونیوں میں رہنے والوں کو ایذا رسانی کی سند حاصل کرتے ہیں، ہماری حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ غریب عوام کی رہائشی بستیوں سے مویشیوں کو باہر کریں، ہمارے پاس بیشمار لوگ آئے کہ خدارا ان مویشی مالکان کو ہم تو نہیں روک سکتے حکومت ہی ان کے خلاف آپریشن کلین اپ کرے، کیونکہ جگہ جگہ مویشی انسانی آبادی میںپال کر غیر انسانی دھندا کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭

اب سدھرنا ہو گا!

….Oچوہدری نثار:معاملات بہت گمبھیر ہیں میاں صاحب! سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیں۔
جب یہ کہا گیا تب تک تو فیصلہ آیا ہی نہ تھا؟

….Oسراج الحق:سپریم کورٹ کا فیصلہ آئندہ نسلوں کے لئے زندگی کا پیغام لائے گا۔
مگر ہم اکثر پیغام وصول ہی نہیں کرتے، زندگی کس باغ کی مولی ہے؟

….Oطاہر القادری:قوم کرپشن کا جنازہ اٹھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے،
کیا نماز جنازہ آپ پڑھائیں گے؟

….Oسعد رفیق:صورتحال کا سامنا کریں گے،
ان کا مطلب ہے صورتحال کو قبول کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے