اپنے داموں میں آئے صیاد

غالباً 2012میں جب پہلی مرتبہ لندن میں وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے فلیٹس کی موجودگی کا ایشو سامنے آیا تو چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم سے حقیقت جاننا چاہی۔

وزیراعظم نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر ان کے سامنے بٹھادیااورباپ بیٹوں نے انہیں وہی کہانی سنائی جو قوم کو سناتے رہے ۔

چوہدری نثار نے اگلے دن پریس کانفرنس بلا کر بھرپور انداز میں شریف خاندان کا دفاع کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ وقتاً فوقتاً وزیراعظم کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ جائیداد بیچ کر اپنے بچوں اور کاروبار کو پاکستان منتقل کرلیں تاہم ان کا مشورہ نہ مانا گیا۔

جب پاناما کا ایشو سامنے آیا تو پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کو پارلیمنٹ کے ذریعے نمٹانے پر مصر رہیں ۔ کمیشن کے لئے ٹی او آرز کمیٹی بنی لیکن حکومت نے اپوزیشن کے مطالبات تسلیم نہیں کئے۔

حکومت نے کوشش کی کہ سیاست اور صحافت کے میدانوں میں اس مسئلے کو دبا لیں لیکن چونکہ اس وقت جنرل راحیل شریف بھی اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے تھے اس لئے وہ ایسانہ کرسکی ۔

بہتر ہوتا کہ اپوزیشن اوربالخصوص پیپلز پارٹی کی بات مان لی جاتی اور پارلیمان کی سطح پر مسئلے کو نمٹانے کا راستہ نکالا جاتا لیکن اس دوران وزیراعظم کے خوشامدی مشیروں نے ان کو معاملہ عدالت لےجانے کا مشورہ دیا۔

ان کا خیال تھا کہ کیس میچور ہونے تک جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ ہوچکے ہوں گے اور پانامہ کے بوجھ کے ساتھ انتخابی میدان میں جانے سے بہتر ہے کہ عدالت سے پارسائی کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے ۔

پانامہ سے متعلق 20اپریل 2017کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور جے آئی ٹی بنانے کا حکم صادر ہوا تو وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے جشن منایا ۔ تب خیال تھا کہ اپنا ایف آئی اے ، اپنا اسٹیٹ بینک ، اپنا ایس ای سی پی ، اپنی آئی ایس آئی اور اپنی ایم آئی کیونکر خلاف فیصلہ دیں گی ۔

جہاں حکومتی حلقہ جشن منارہا تھا وہاںعمران خان نے جے آئی ٹی کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ حکومت کے ماتحت ادارے کیوں کر شریف فیملی کے خلاف صحیح تحقیقات کرسکتےہیں ۔

فیصلے پر اپوزیشن اس قدر دکھی تھی کہ شیخ رشید احمد نے جے آئی ٹی کو جاتی امراانوسٹی گیشن ٹیم کا نام دیا ۔

ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان نے مشورہ دیا کہ آرمی چیف کے ذریعے سپریم کورٹ سے درخواست کرکے جے آئی ٹی سے فوج کے ماتحت اداروں کو نکالنے کی استدعا کی جائے لیکن تب وزیراعظم اور ان کے مشیروں کی رائے تھے کہ ان کی موجودگی اس لئے ضروری ہے کہ تحقیقات پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا ۔

ان کی دلیل تھی کہ جب آئی ایس آئی اور ایم آئی موجود ہونگی تو پی ٹی آئی بھی فیصلے پر انگلی نہیں اٹھاسکے گی ۔ وزیراعظم اور مشیر اس لئے خوش گمان تھے کہ تب تک فوج کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے ۔

لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 29 اپریل کو ڈان لیکس سے متعلق نوٹیفکیشن جاری ہوا اور جواب میں مشہور زمانہ ٹویٹ سامنے آئی ۔

اس سے فوج اور حکومت کے تعلقات خراب ہوگئے اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جے آئی ٹی کی تشکیل انہی دنوں میں یعنی 5مئی 2017 کو ہوئی ۔

حکومت نے ٹویٹ کے معاملے پر کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کی بجائے اس کے ذریعے فوج کو بھرپور انداز میں زیردبائو لاکر راحیل شریف دور کے حساب برابر کرنے کی کوشش کی ۔

چنانچہ 10مئی کوٹویٹ تو واپس لے لیا گیا لیکن سول ملٹری تعلقات خراب سے خراب تر ہوگئے ۔

اس تناظر میں جے آئی ٹی کی کارروائی اور اس پر حکومت کے اعتراضات جاری رہے اور نتیجتاً جے آئی ٹی کی وہ تاریخی رپورٹ سامنے آئی جسے بجا طور پر حکمران خاندان کے گلے کا طوق قرار دیا جاسکتا ہے ۔

حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ میاں نوازشریف بڑے بے آبرو ہوکر اپنے خاندان سمیت وزیراعظم ہائوس سے نکل رہے ہیں۔

گویا کوئی اور ذمہ دار نہیں بلکہ خود حکومت معاملے کو پارلیمنٹ کی بجائے عدالت سے نمٹانا چاہتی تھی اور کسی اور کی نہیں بلکہ خود وزیراعظم کی بھی خواہش تھی کہ عسکری ادارے جے آئی ٹی میں شامل ہوں ۔

اسے کہتے ہیں لو اپنے دام میں صیاد آگیا۔

اب ایک قصہ ملاحظہ کیجئے ۔

2011میں جب اس وقت کے ا یمپائر تحریک انصاف کے غبارے میںہوا بھر رہے تھے تو اس پر سب سے زیادہ آصف علی زرداری صاحب خوش تھے ۔

ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) اورپی ٹی آئی دونوں دائیں بازو کی جماعتیں ہیں اور انتخابات میں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) ہی کے ووٹ کاٹے گی ۔

اس وقت میڈیا بشمول جنگ گروپ پر امپائروں کی طرف سے دبائو ڈالا جارہا تھا کہ وہ عمران خان صاحب کو قوم کا مسیحا ثابت کردیں ۔ اسی تناظر میں ٹی وی چینلز پر عمران خان کے فرینڈلی انٹرویوز کا سلسلہ بھی زور پکڑ گیا۔

دوسری طرف آصف علی زرداری بھی پوری طرح اس عمل کو سپورٹ کررہے تھے ۔

مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ لاہور اور پنڈی کے پی ٹی آئی کے تاریخی جلسوں کے لئے امپائروں کے ساتھ ساتھ زرداری صاحب نے بھی دوستوں کے ذریعے کروڑوں روپے دلوائے ۔

ایک روز زرداری صاحب کے ایک خاص مشیر سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ ان کے لیڈر پی ٹی آئی کو بالواسطہ مدد فراہم کرکے اپنے پائوں پر کیوں کلہاڑا چلارہے ہیں تو انہوں نے روایتی رعونت کے ساتھ جواب دیا کہ ہم لوگ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا اندازہ نہیں لگاسکتے ۔

اس مشیر کا بھی خیال تھا کہ یہ حکمت عملی اگلے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ووٹوں کو تقسیم کرکے اس کا برا حشر کردے گی لیکن انتخابات ہوئے توپتہ چلا کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں کو توڑا ۔

انتخابات میں تو صرف ووٹر چلے گئے تھے لیکن اب تو خان صاحب پیپلز پارٹی کی آدھی قیادت بھی ساتھ لے گئے ۔ زرداری صاحب کبھی دبئی میں اور کبھی پاکستان میں اپنے ہاتھ مل رہے ہیں ۔

اسے کہتے ہیں لو اپنے دام میں صیاد آگیا۔

اب عمران خان صاحب کا قصہ ملاحظہ کیجئے ۔

وہ ماضی میں آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو ناقابل عمل آرٹیکل قرار دیتے رہے ۔ ان آرٹیکلز کے خلاف انٹرویوز میں ان کا اظہار خیال ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن اب وہ خود سپریم کورٹ اس استدعا کے ساتھ گئے کہ میاں نوازشریف کو آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی رو سے نااہل قرار دلوادیں ۔

ان کے وکیلوں نے بتایا تھا اور شاید درست بتایا تھا کہ میاں نوازشریف سے انہی دفعات کے استعمال کے ذریعے ہی چھٹکارا مل سکتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں سمجھایا گیا تھا کہ ان کے اور جہانگیر ترین کے معاملات بھی نوازشریف کی طرح گمبھیر ہیں اور پھر انہی آرٹیکل کی تلوار ان کے خلاف بھی چلے گی ۔

بالآخر وہ موقع آگیا اور اب مسلم لیگ (ن)عدالت سے استدعا کرچکی ہے کہ وہ عمران خان صاحب کے معاملات کو بھی انہی آرٹیکلز پر پرکھیں ۔

چنانچہ جس طرح نوازشریف کا بچنا ناممکن نظر آتا تھا بعینہ عمران خان اور جہانگیر کا بچنا بھی ناممکن نظر آتا ہے ۔

عمران خان کا معاملہ تو یوں بھی سنگین ہے کہ ان کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ الیکشن کمیشن اور دو ٹرائل کورٹس میں بھی کیسز چل رہے ہیں جن میں ایک کیس جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کا بھی ہے جس میں انہوں نے سیتا وائٹ کے معاملے کو بنیاد بنا کر عدالت سے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے ۔

یوں اگر وہ ایک عدالت سے بچ بھی جائیں تو دوسرے سے نہیں بچ سکتے اور دوسرے سے بچ جائیں تو تیسرے سے نہیں بچ نہیں سکتے ۔

اسے کہتے ہیں۔

لو اپنے دام میں صیاد آگیا۔

لیکن معاملہ یہاں آکر نہیں رکے گا ۔

اب اصل آزمائش عدالت کی شروع ہوگی ۔

اب یکے بعد دیگرے سیاستدانوں کے کیسز عدالتوں میں لائے جائیں گے اور اس سے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو نااہل کرانے کی استدعائیں کی جائیں گی ۔

جب ان آرٹیکلز کا ان کے روح کے مطابق اطلاق کیا جائے گا تو کوئی بھی نہیں بچ سکے گا ۔ جو بھی سیاستدان نااہل ہوگا وہ عدالتوں سے متعلق وہی سوالات اٹھائے گا جو اب مسلم لیگ(ن) اٹھارہی ہے ۔

یوں عدلیہ کےلئے ایک نئے امتحان کا آغاز ہوگا اور اس عمل میں اس کے متنازع ہوجانے کا پورا خطرہ موجود ہے ۔

لیکن اس سے بڑھ کر آزمائش فوج کی شروع ہوگی ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اب ایک تو سول ملٹری تعلقات مزید خراب ہوں گے ۔

علاوہ ازیں عدلیہ پر پرویز مشرف اور دیگر جرنیلوں کے محاسبے کے لئے دبائو بڑھے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان مخالف عالمی اور علاقائی قوتوں کی طرف سے پاکستان کی فوج پر نہ صرف دبائو بڑھایاجائے گا بلکہ اسے سیاست میں ملوث کرنے اور سیاسی قوتوں کو اس سے لڑانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے