فاروق حیدر نئی آندھیوں کی زد میں

آزادحکومت ریاست جموں کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کے ایک تازہ بیان پر کافی لے دے شروع ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد کی گئی ابلاغی نمائندوں سے ایک نشست میں فاروق حیدر نے اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ان کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ غیر جمہوری قوتوں کی ایماء پر پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹایا گیا ہے ۔انہوں نے استفہامیہ انداز میں کہا کہ کیا قائداعظم اور علامہ اقبال نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ اگر ایسا ہے تو مجھے بحیثیت کشمیری سوچنا پڑے گا کہ میں کس ملک سے( اپنی ریاست کا )الحاق کروں ۔ان کے یہ الفاظ ویڈیو کی صورت میں محفوظ ہیں اور اب تک بہت سے چینلز نشر بھی کر چکے ہیں ۔ ملک کے بڑے اخبار ’جنگ‘ نے اس بیان کو اپنے صفحۂ اول کی دوسری بڑی خبر(سُپر لیڈ) کے طور پر شائع کیا ہے ۔ ایک انگریزی اخبار نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔ اس بیان کے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست ہنگامہ برپا ہے ۔ ابھی کچھ دیر قبل وزیراعظم کے پریس سیکریٹری کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیزمیں اس خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیے جانے اور سیاق و سباق سے الگ کر کے نشر کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔ فاروق حیدر نے تازہ پریس ریلیز میں اس خبر کی سختی سے تردید بھی کی ہے اور پاکستان سے اپنے غیر مشروط والہانہ ربط کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔

فاروق حیدر خان کا تعلق ریاست جموں کشمیر کے ایک نمایاں سیاسی خاندان سے ہے ۔ اور یہ خاندان اس وقت سے سیاست میں ہے جب ابھی پاکستان بننے کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔ ان کے والد راجہ حیدر خان کشمیری سیاسی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ یہ بھی سب باخبر لوگ جانتے ہیں کہ یہ خاندان طویل عرصے سے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستہ رہا اور پاکستان میں مسلم لیگ کا شیرازہ بکھرنے تک مسلم کانفرنس ہی اس کی آزاد ریاست میں ایک غیر علانیہ نمائندہ سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی ۔ مرحوم سردار عبدالقیوم خان اس کے سربراہ تھے ۔ جب سردار عبدالقیوم خان عمر رسیدہ ہوئے تو ان کے بیٹے سردار عتیق احمد خان پارٹی میں زیادہ متحرک ہو گئے اور ان کے والد مرحوم نے آخری عمر میں سینئر لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے فرزند کے ہاتھ پارٹی کی زمام دے دی ۔ یہ ٹوٹ پھوٹ کا فطری لمحہ تھا۔

نوے کی دہائی میں مسلم کانفرنس میں دھڑے بندی ہونے کے باوجود اس کی جمعیت بظاہر قائم رہی لیکن سردار عتیق احمد کی اوپر سے انٹری کے بعد ایسا زیادہ دیر تک ممکن نہ رہا ۔ میاں محمد نواز شریف نے چند سال قبل آزادکشمیر میں اپنی مسلم لیگ(ن) کی شاخ بنانے کی منظوری دے دی ۔اس طرح فاروق حیدر سمیت مسلم کانفرنس کے ناراض سینئر زعماء کو نئی سیاسی زندگی مل گئی ۔اس فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرف کے اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد کا نواز شریف ، پہلے سے قدرے مختلف نواز شریف تھا۔ فوج کی حمایت اور پشت پناہی سے سیاست کے میدان میں اترنے والا نواز شریف اب سیاست میں فوج کے غیر ضرروی کردارکا سخت ناقد تھا ۔سردارعتیق احمد خان کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت قربت ہے اور وہ اس رائے کی کھلے بندوں تردید بھی نہیں کرتے۔ یہی سبب ان کی اور نواز شریف کی دوری اور آزادکشمیر میں (ن) لیگ کے قیام کا بنا ۔اس طرح آزادکشمیر میں قائم ہونے والی مسلم لیگ نواز کی زمام فاروق حیدر کے سپرد کی گئی اور اب وہ گزشتہ برس بھاری مینڈیٹ کے ساتھ آزادکشمیر کی حکومت چلا رہے ہیں۔

فاروق حید ر کے قریبی حلقے جانتے ہیں کہ وہ بہت کھلی ڈلی گفتگو کرتے ہیں ۔ کئی دفعہ سخت بات بھی کر جاتے ہیں۔ گاہے جذباتی بھی ہوجاتے ہیں ۔ موقع ہو تو اسمبلی کے فورم پر تقریر کے دوران رو بھی پڑتے ہیں۔گزشتہ برس الیکشن کے دنوں میں انہوں نے بہت جارحانہ تقریریں کی تھیں۔ انہوں نے بار بار اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ایکٹ 74ء (آزادحکومت اور وفاق پاکستان کے درمیان اختیارات کے تقسیم سے متعلق)میں ترمیم کرائیں گے اور آزادکشمیر کی حکومت کو اصلی معنوں میں ’’آزاد‘‘ بنائیں گے ۔ انہوں نے وفاق سے فنڈز کے حصول کی بابت بھی بڑے اعلانات کیے تھے (جس کا کسی قدر نتیجہ حالیہ بجٹ میں سامنے بھی آیا ہے)اس کے علاوہ سی پیک منصوبے کے مسئلہ کشمیر پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے مناسب منصوبہ بندی بھی ان کی تقاریر کا جزو تھی ۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی حیثیت کے بارے میں دو ٹوک اور واضح موقف اپنایا تھا ۔ ان کے اس دبنگ انداز کو ریاست میں کافی پذیرائی ملی اور ان کی جماعت بھاری ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی ۔ اب فاروق حیدر کی حکومت ایک سال مکمل کر چکی ہے اور ان کے الیکشن کے دوران کیے گئے اکثر وعدے اور دعوے تاحال اپنی تکمیل چاہتے ہیں ۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاروق حیدر بھی اب اپنے قائد نواز شریف کی طرح ایک کافی بدلے ہوئے آدمی ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ انہیں مستقبل قریب میں کسی ’’ عدم اعتماد‘‘ کی تحریک کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس کی وجہ بعض ناراض اراکینِ اسمبلی ہیں جنہیں وزرات کے قلمدان نہیں سونپے گئے ۔ ان نازک حالات میں فاروق حیدر وفاق کے ساتھ معاملات بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ وہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے بعض اہم اعلانات اور مطالبا ت کے بارے میں محتاط قسم کی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یا پھر وہ مناسب موقع کے انتظار میں ہیں۔

اب ان کے تازہ بیان کی جانب آتے ہیں ۔پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاروق حیدر اس سے قبل جس مسلم کانفرنس کے نمایاں زعماء میں شامل تھے وہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی پرجوش حامی ہے اور اب مسلم لیگ نواز آزادکشمیر کے سربراہ کی حیثیت سے تو فاروق حیدر (کی پاکستانیت)پر سوال اٹھتا ہی نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان لے کر بہت سے دوستوں نے ان کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کو ہدف تنقید بنایا ہے لیکن اصل سیاق وسبا ق یہ ہے کہ فاروق حیدر نے اعلیٰ عدلیہ کے نواز شریف کے مقدمے میں کیے گئے فیصلے کے ان محرکات کی بنیاد پر بات کی ہے جو انہیں سمجھ میں آئیں ۔ ان کی ویڈیو دیکھ عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب نہیں دیکھا تھا ۔باقی جہاں تک الحاق کی بحث ہے ، وہ عشروں سے جاری ہے اور اس بارے میں کشمیریوں کی رائے بھی منقسم ہے ۔

یہاں کچھ جذباتی مُحب الوطنوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کشمیر اپنی تینوں منقسم اکائیوں سمیت ابھی تک حل طلب مسئلہ ہے ۔ اس کے مستقبل کے فیصلے سے متعلق بنیادی اور حقیقی موقف کشمیریوں ہی کا ہو سکتا ہے ۔ وہ بحیثیت آزاد اور خودمختار وطن رہنا چاہتے ہیں یا پھر کسی ملک سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی رائے پر منحصر ہے ۔ کسی بھی ملک کو یہ اختیار نہیں کہ کشمیریوں کی رائے کو نظر انداز کر کے ان پر اپنی مرضی کے فیصلے تھوپے یا کشمیر کے اپنی جاگیر ہونے کا تأثر دے ۔ فاروق حیدر کے سینکڑوں بیانات ، تقاریر اورپورا سیاسی سفر ان کے نظریاتی رجحا ن کا عکاس ہے ۔ اس لیے اس حالیہ بیان کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کرنے سے ان کے ماضی کا ریکارڈ کیونکر منہدم کیاجا سکتا ہے ۔ فاروق حیدر کے نظریے سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جانا چاہیے لیکن کسی ایسی خبر کی بنیاد پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانا صحافتی و سیاسی اخلاقیات کے منافی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے