سائنس برائے ترقی

کوئی بھی تعلیم یافتہ فرد اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کی ترقی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا اہم رول ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں، خواہ وہ زراعت ہو، صنعت ہو، شہری یا دیہاتی ترقی ہو، ماحول کی بہتری ہو یا معاشی بہتری ہو، سائنس اور ٹیکنالوجی کا کلیدی کردار ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم ایک کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ بند دماغوں کو کھول دیتی ہیں یعنی انسان بیوقوفی چھوڑ کر سمجھدار ہوجاتا ہے۔ دوسرے تعلیم یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کو بھی خاموشی اور لگن سے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اور پرامن طریقے سے ترقی کی راہ اختیار کرنا چاہئے اور اپنے عوام کے آرام اور فائدہ کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں ۔

کسی بھی ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی صحتمندانہ ترقی کے لئے آپ کو تجربہ کار سائنسدان اور انجینئروں کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی افرادی قوت جو سائنس اور انجینئرنگ میں مہارت رکھتی ہو وہ ہی قوم کی سوشل و معاشی ترقی کی عکاسی کرتی ہے اسلئے کہ سائنٹفک اور ٹیکنیکل ترقی ایک لازمی جز ہے جس کی مدد سے ملکی ترقی حاصل کی جاتی ہے اور یہ عوام کی سمجھ بوجھ کے دائرہ اثر میں ہوتی ہے اور ملک کی ترقی سائنٹفک مہارت پر منحصر ہوتی ہے۔ گویا عوام کو یہ سمجھ بوجھ و احساس ہونا چاہئے کہ ملک کی ترقی بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ناممکن ہے۔ہمارے حکمراں ہمیشہ شیخیاں مار کر نئے نئے ترقیاتی پروگراموں کا اعلان کرتے ہیں اور ان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کا بھی ذکر ہوتا ہے اور ساتھ میں افرادی قوّت بڑھانے کی بھی باتیں ہوتی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہورہے ہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سرکاری اور نجی ادارے مل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے کام کریں اور یہ جان لیں کہ ملکی ترقی کا دارومدار (انحصار) سائنس اور ٹیکنالوجی (S/T)کی ترقی پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی سوشل و معاشی ترقی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر بات کرنا فضول ہے۔ پچھلے سو سال میں یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ وہ ممالک جنھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ٹھوس بنیاد ڈالی وہ ’’معاشی شیر‘‘ بن گئے اور وہ ممالک جنھوں نے اس بنیادی اہمیت و ضرورت پر کام نہیں کیا اور S/T کی اچھی بنیاد نہیں ڈالی وہ پسماندہ رہ گئے اور اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے ملک میں قدرتی وسائل کی بہتات تھی۔ ہمارے سامنے جاپان، چین، فرانس، انگلستان اور جرمنی کی مثالیں ہیں یہ دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوگئے تھے مگر چند برسوں میں ہی وہ ترقی کرکے معاشی قوّت بن گئے۔ اس میں نہ صرف عوام کی محنت بلکہ S/T کی اعلیٰ پالیسی کی بنیاد کی کارگزاری ہے۔ اس کے برعکس دنیا میں کئی ممالک قدرتی وسائل سے بھرے پڑے ہیں اور پھر بھی وہ مغربی ممالک کے محتاج ہیں کہ وہ S/T کی مدد سے ان کی رہنمائی کریں اور روزمرّہ کی ضروریات پوری کریں۔ ہمیں علم ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام امیر ملکوں کی GDP یورپ کے ایک درمیانی ملک سے بھی کم ہے۔ یہ ترقی یافتہ ممالک چند ہتھیار بیچ کر اُن کی آمدنی کا بڑا حصّہ لے جاتے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے بارے میں حکومتی وعدے اور ارادہ بہت ہی شرمناک اور ٹال مٹول والا ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت غیرتعلیمیافتہ اور جاہل ہے اور اس شرح کی بنیاد پر ہم تعلیمیافتہ قوموں کی فہرست میں 127 نمبر پر ہیں۔ ہمارے اعداد و شمار اعلیٰ تعلیم کے بارے میں اس سے بھی بدتر ہیں۔ ہماری آبادی کی اقلیت کچھ مناسب تعلیم حاصل کرپاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ سہولتوں اور اداروں کا فقدان ہے ۔ اچھی لیبارٹریز نہیں ہیں اور نہ ہی اچھے تجربہ کار اساتذہ موجود ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ بچے جو پرائمری اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں ان میں سے بہت ہی کم شرح ہائی اسکول کر پاتی ہے اور اس سے بھی بہت کم یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں سہولتوں کے فقدان اور اچھے سائنسدانوں اور انجینئروں کی سخت کمی کی وجہ سے ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ اسکی وجہ حکمرانوں کی نااہلی اور جہالت ہے۔

ہمارے سامنے چین اور جنوبی کوریا پسماندہ ممالک تھے آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ذاتی مفاد اور ذاتی آرام و آسائش کے علاوہ کچھ اور نہیں سجھائی دیتا۔ بجٹ کا نہایت چھوٹا حصّہ تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ چھپا راز نہیں ہے کہ حکمراں ہمیشہ ایسے کام ڈھونڈتے اور کرتے ہیں جس میں بہت رقم لگے اور بہت بڑا حصّہ ملے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سڑکیں، موٹرویز، فلائی اوورز ہیں جن کی تعمیر میں کثیر رقم لگتی ہے اور بدعنوانی ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے کم از کم 200 اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹیاں اور کالج چاہئیں۔ میں نے یہی پسماندگی دیکھ کر مرحوم غلام اسحٰق خان کو منا لیا تھا کہ ایک اعلیٰ انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ بنائوں۔ نتیجہ آپ کے سامنے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ (صوابی) کی شکل میں موجود ہے۔ ایسے 50 ادارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بہت بہتر کرسکتے ہیں۔ ہمیں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی ادارے چاہئیں بلکہ ان سے پانچ گنا زیادہ ٹیکنیکل کالج ڈپلومہ کے لئے ہونے چاہئیں۔ آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈپلومہ ہولڈرز ترقی کی جان ہیں۔

دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ اور تعلیمی اداروں کے لئے اعلیٰ غیرملکی فنّی رسالوں کا حصول بہت اہم ہے ان کو پڑھ کر ہمارے سائنسدان و انجینئرز یہ جان سکیں گے کہ دنیا میں کیا کام ہورہا ہے۔ اور اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
ہم جانتے ہیں (حکمران نہیں جانتے) کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک مرکب ہے جس میں منظم اور غیرمنظم دونوں محرک ہوتے ہیں مگر باہر والوں کو صرف غیرمنظم (یا ٹیڑھی، آڑی ترچھی، اُلجھی) چیزیں نظر آتی ہیں۔ یہ بات ایک مغربی مفکر سرمائیکل فوسٹر نے بہت ہی عمدہ الفاظ میں بیان کی ہے۔ آپ نے کہا، ’’یہ ضروری نہیں کہ ترقی سیدھی لائن پر ہو، یہ ممکن ہے کہ اس میں اونچ نیچ ہو۔ خیالات و تصورات گھوم پھر کر وہیں سمجھ بوجھ و عقل و فہم کے دائرے میں پہنچ جاتے ہیں لیکن اس مشق میں وہ یقیناً ایک بہترسطح پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کیلئے ایک اچھا ہمّت افزا ماحول چاہئے۔‘‘ لیکن اعلیٰ ریسرچ کیلئے ایک ہمّت افزا ماحول کے بارے میں ہمارے ماحول میں کچھ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ حکمراں (اور عوام) اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ماحول کیسا ہی ہو سائنسدان اور انجینئرز اپنا کام کردینگے۔ ایسا نہیں ہوتا ان لوگوں کو دماغی سکون، پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ پوری توجہ سے کام کرسکیں۔ ایک ماہر نفسیات آپ کو بتلا سکتا ہے کہ اعلیٰ کارکردگی اور ذہنی پریشانی کا کوئی اچھا تعلق نہیں ہے۔

پاکستان میں یہی وبا پوری طرح سرایت کرگئی ہے۔ سائنسدان و انجینئرز روزمرہ کی زندگی اور دفتری ناقص ماحول کا اس بُری طرح شکار ہیں کہ ان سے کسی اچھے کام کی توقع کرنا خام خیالی ہے۔ مغربی ممالک میں دانشوروں کو اعلیٰ سہولتیں دی جاتی ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، میں 15 برس یورپ میں رہ کر یہ پوری طرح سمجھ پایا تھا۔ اپنے رفقائے کار کو اعلیٰ سہولتیں اور اچھا ماحول مہیا کرکے میں نے ان کے ساتھ مل کر اس پسماندہ ملک کو اتنے کم عرصےمیں ایک طاقتور ایٹمی قوّت بنا دیا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سوشل سیکٹر میں ترقی ہونا چاہئے مگر ہمارے یہاں اس کا فقدان ہے اور اس سے روزمرہ کی زندگی میں خاصی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ سائنس کے کلچر کو اپنے ماحول میں ضم کرنا خاصا مشکل ہے۔ جہاں تک سائنٹفک تعلیم کا تعلق ہے ہمارے یہاں بدترین حالت میں ہے۔ ہائیرایجوکیشن کمیشن زیادہ تر پوسٹ آفس کا کام کررہا ہے حکومت سے مالی مدد لے کر طلباء کو پی ایچ ڈی کرانے باہر بھیج دیتے ہیں واپسی پر وہ کوئی ترقی کے کام نہیں کرپاتے۔ بدقسمتی ہے کہ ہماری کوئی بھی یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر 600یونیورسٹیز میں بھی نہیں ہے۔ کس قدر شرمناک حقیقت ہے اور اسکی ذمّہ دار حکومت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے