مشاہیرِ اردو کے حقیقی نام(سوم)

مشاہیِر اردو کے حقیقی ناموں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کومیری امید سے زیادہ پسند کیا گیا۔قارئین اور دوستوں نے میری توقعات سے بڑھ کر حوصلہ افزائی کی۔پروفیسر حبیب گوہرؔ نے جن الفاظ میں حوصلہ افزائی کی وہ کسی گوہر سے کم نہ تھے۔ شوکت اقبال مصورؔ کا اقبال بلند ہو کہ ان کی محبتیں میرے اعتماد کو نمو بخشتی ہیں۔میرے نزدیک یہ کام اتنا اہم نہ تھا جتنا احباب کی تحسین نے بنا دیا یہی وجہ بنی کہ اردو کے مزید کچھ مشاہیر کے ناموں کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوا اور قارئین کے سامنے لایا۔میرا ارادہ ہے کہ اس کام کو مزید وسعت دوں اور زیادہ سے زیادہ ایسے ادبا ،شعرا ، محققین اور ناقدین کے حقیقی نام محبانِ اردو تک پہنچاؤں۔اس امید کے ساتھ کہ اب کے بھی قارئین کی دل چسپی کا سامان ہو گا مزید کچھ نام پیشِ خدمت ہیں۔

حسرتؔ موہانی:

حسرتؔ موہانی یکم جنوری،۱۸۷۵ء کو بھارت کے ضلع اناؤ کے قصبے موہان میں پید ا ہوئے۔آپ کے والد سید اظہر حسین نے آپ کا نام’’سید فضل الحسن‘‘ رکھا۔ادبی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سید فضل الحسن نے اپنے لیے حسرتؔ تخلص پسند کیا جس پر موہان کی نسبت سے موہانی کا لاحقہ لگا کر حسرتؔ موہانی ہو گئے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہی نام حسرت ؔ موہانی آپ کی پہچان بن گیا ۔حسرت ؔ موہانی ۱۳،مئی ۱۹۵۱ء کو دامِ اجل میں آئے۔

؂ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

فانی ؔ بدایونی:

یاسیت کے امام کے طور پر پہچان رکھنے والے شاعر فانی ؔ بدایونی کا جنم تو ادبی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہوا۔ ۱۸۷۹ء میں بدایون شہر میں ’’شوکت علی خان‘‘ پیدا ہوئے۔فانی ؔ بدایونی کی شاعری میں غم و الم اور درد و غم کی گہری چھاپ ملتی ہے۔فانی ؔ ۱۲،اگست ،۱۹۴۱ء تک بقیدِ حیات رہے۔
؂ فانی ؔ وہ بلا کش ہوں غم بھی مجھے راحت ہے
میں نے غمِ راحت کی صورت بھی نہ پہچانی

شورشؔ کاشمیری:

اردو کے بلند پایہ شاعر، ناثر،صحافی،اور خطیب آغا شورش ؔ کاشمیری نے ۱۴ ،اگست ، ۱۹۴۷ء کو جب لاہور میں جنم لیا تو نام ’’عبدالکریم‘‘ تجویز ہوا۔یہی ’’عبدالکریم‘‘ بڑا ہوا تو اپنے جوشیلے اندا ز اور بے باک تقاریر کی بدولت شورش ؔ کاشمیری بن گیا۔شورش ؔ کاشمیری نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کی تصانیف میں دیگر کتب کے ساتھ ساتھ آپ کی خود نوشت ’’بوئے گل ،نالۂ دل،دودِ چراغ محفل ،،مشہور ہے۔ ختم نبوت کا یہ داعی ۲۴،اکتوبر ،۱۹۷۵ء کو لقمۂ اجل بن گیا۔

؂ اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں
جیسے ہر نفع کے رستے میں زیاں گزرے ہے

میر امنؔ دہلوی:

دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو کے اس ادیب کے حالاتِ زندگی بہت کم دستیاب ہوئے ہیں۔’’باغ و بہار‘‘ اور ’’گنجِ خوبی‘‘ کے مصنف میر امنؔ دہلوی کا حقیقی نام’’میر محمد امان‘‘تھا۔میر امن دہلوی کی اصل پہچان ان کی ۱۸۰۳ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’باغ و بہار‘‘سے بنی۔

مرزا ادیبؔ :

اردو کے معروف ادیب اورڈراما نگارمرزا ادیب ۴،اپریل،۱۹۱۴ء کو جب لاہور میں پیدا ہوئے تو نام’’دلاور حسین علی‘‘رکھا گیا۔مرزا ادیب کی کتابوں میں پہاڑ کی چوٹی پر، شیشے کی دیوار، ساتواں چراغ،صحرا نورد کے خطوط،فصیلِ شب،قاطع برہان،لہو اور قالین،چچا چھکن اور آپ کی خود نوشت مِٹی کا دیا مشہور ہیں۔اردو دنیا کا یہ معروف ادیب ۳۱،جولائی،۱۹۹۹ء کو انتقال کر گیا۔

میر انیسؔ :

اردو کے بڑے مرثیہ گو میر انیسؔ نسل در نسل شاعر تھے۔میر انیسؔ کے پڑدادا میر غلام حسین ضاحکؔ ،دادا میر غلام حسن حسنؔ ،باپ میر مستحسن خلیقؔ سبھی شاعر تھے۔۱۸۰۱ء میں لکھؤ میں پیدا ہونے والے میر انیس ؔ کا حقیقی نام’میر ببر علی رضوی‘‘ تھا۔ابتدا میں اپنے لیے ’’حزیں‘‘تخلص پسند کیالیکن امام بخش ناسخ ؔ کے کہنے پر بدل دیا اور انیس ؔ ہو گئے۔اردو مرثیے کو بامِ عروج پر پہنچانے کے بعد ۱۸۷۴ء میں انتقال ہوا۔

؂ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؓ کی مداحی میں

مرزا دبیر:

جہاں انیسؔ کا ذکر ہو وہاں دبیرؔ کی بات نہ کرنا زیادتی تصور ہو گی۔اردو مرثیے کو جتنا عروج انیس ؔ نے دیا اتنا ہی ثروت مند دبیرؔ نے بنایا۔دبیرؔ کی ولادت ۱۸۰۳ء میں دہلی شہر میں ہوئی۔آپ کا اصل نام’’مرزا سلامت علی ‘‘تھا جب کہ دبیر ؔ تخلص کیا۔۷۲ بر س کی عمر ہوئی تو ۱۸۷۵ء میں لقمۂ اجل بنے۔

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیرِ کفن کانپ رہا ہے
ہر قصرِ سلاطینِ زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

پریم چند:

اردو کے اولین افسانہ نگار کے بارے اختلاف کے باوجود پریم چند کے مرتبے سے انکار ممکن نہیں ہے۔ منشی پریم چند کے نام سے تو اک جہاں واقف ہے لیکن اکثر لوگ ان کے مکمل نام سے آگاہ نہ ہوں گے۔ ہم بتلائے دیتے ہیں منشی پریم چند کا پورا نام’’نواب دھنپت رائے سری واستو‘‘تھا۔ان کی ولادت۳۱،جولائی ،۱۸۸۰ء کو بنارس میں ہوئی جب کہ وفات ۱۸،اکتوبر ،۱۹۳۶ ء کو ہوئی۔ ترقی پسند تحریک کا ابتدائی خطبہ بھی پریم چند نے دیا۔ آپ کے نمائندہ افسانوں میں کفن،عید گاہ، دنیا کا سب سے ان مول رتن، بڑے بھائی صاحب، دو بیل،پنچائت ،زیور کا ڈبا اور بوڑھی کاکی وغیرہ ہیں۔پریم چند نے ناول نگاری میں بھی نام کمایا ان کی تحریروں میں پسے ہوئے طبقے اور مظلوم لوگوں کی عکاسی نظر آتی ہے۔

شوکت ؔ تھانوی:

شوکت ؔ تھانوی اردو کے معروف مزاح نگار،صحافی،ڈراما نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔شوکتؔ تھانوی جن کا اصل نام’’محمد عمر‘‘ تھا ۰۳،فروری،۱۹۰۴ء کو ریاست اتر پردیش کے گاؤں ’’تھانہ بھون‘‘میں پیدا ہوئے علاقے کی نسبت سے تھانوی کہلائے جب کہ تخلص شوکت ؔ تھا۔تقسیم کے بعد کراچی آ گئے جہاں ۰۴،مئی،۱۹۶۳ء کو۵۹ برس کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ شوکت ؔ تھانوی کی تصانیف میں راجا صاحب۔نورتن، دیکھا جائے گا،شیطان کی ڈائری،بکواس،طوفانِ تبسم،بیر بل و ملا دو پیازہ وغیرہ کے علاوہ ایک شعری مجموعہ گہرستان بھی ہے۔

؂ یہ بت کدہ ،یہ کلیسا ،یہ مسجدیں ،یہ حرم
یہ سب فریب ہیں اور ایک سنگِ در کے فریب

کوملؔ جوئیہ:

اردو اور سرائیکی زبان کی خوب رو شاعرہ کوملؔ جوئیہ نے ناساز گار ماحول میں رہتے ہوئے بھی اپنی شناخت بنائی۔کومل ؔ جوئیہ کا نام ادبی حلقوں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ ۰۹،نومبر،۱۹۸۳ء کو پنجاب کے ضلع خانی وال کی تحصیل کبیر والا کے گاؤں سندھیلیاں والی میں جنم لیا۔گھر والوں نے نام شازیہ تجویز کیا۔والد کے نام کا لاحقہ لگا تو’’شازیہ خورشید‘‘ ہو گئیں۔شادی کے بعد اپنے شوہر علی عمران کا نام آیا تو شازیہ خورشید کی بہ جائے ’’شازیہ علی‘‘کہلائیں۔ کومل ؔ جوئیہ نہایت زود گو اور بسیار نویس شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع زمانے کے دکھ اور عورت کے مسائل ہیں ۔ کوملؔ جوئیہ کا ایک شعری مجموعہ’’ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے جب کہ دوسرا مجموعہ’’کاش‘‘ اشاعت کے قریب ہے۔

؂ تیری آنکھوں میں مچلتا ہوا طوفانِ سکوت
شہر کا شہر ڈبو سکتا ہے کوملؔ جوئیہ

نازؔ خیالوی:

’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘جیسی شہرۂ آفاق نظم جسے نصرت فتح علی خان نے اپنی خوب صورت آواز اور دل کش انداز سے امر کر دیا نازؔ خیالوی کا شاہکار ہے۔ناز ؔ خیالوی ۱۲،دسمبر،۱۹۴۷ء کو فیصل آباد کے گاؤں’’جھوک خیالی‘‘میں پیدا ہوئے۔ناز ؔ خیالوی کے نام سے لازوال شہرت سمیٹنے والے اس شاعر کا اصل نام’’محمد صدیق‘‘تھا۔آپ نے مجرد زندگی بسر کی اور ۱۲،دسمبر ،۲۰۱۰ء کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔

؂ لا تعداد پرائے چاند ستاروں سے
لاکھوں درجے بہتر اپنا ایک دیا

حفیظؔ جون پوری:

اردو زبان کے باکمال شاعر حفیظؔ جون پوری۱۸۶۵ء میں جون پور میں تولد ہوئے۔گھر والوں نے ’’محمد علی‘‘نام رکھا جو بعد ازاں ’’حافظ محمد علی‘‘ ہو گیا لیکن ادبی دنیا میں حفیظ ؔ تخلص پسند کیا،جون پور کی وجہ سے جون پوری ہوئے۔حفیظؔ جون پوری ۲۴،مئی ۱۹۱۸ء کو دامِ اجل میں آئے۔ آپ کی ایک غزل کا مطلع ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے۔

؂ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہو تی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے