گالی اورگولی کے درمیان کشمیریوں کی اوقات!

گذشتہ دو روز سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر چلتی ’ کشمیری اور پاکستانی بحث ‘ کو سن سن کر کبھی خون کھولتا ہے ، کبھی سر میں درد ہوتا ہے ، کبھی رونا آتا ہے ، اور کبھی جذبہ انتقام ابھرنے لگتا ہے ، دو واقعات یاد آتے ہیں ، جو کبھی تاریخ کی کتابوں میں پڑھے اور پھر بھول بھلیاں ہو گئے ، لیکن اب اپنی پور جزئیات کے ساتھ یاد آ رہے ہیں

قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ۵۰ کی دہائی میں ایک کابینہ کا اجلاس ڈھاکہ میں تھا ، اس میں کسی عمارت کے لئے واش روم اسیسریز کا بجٹ منظور ہو رہا تھا ، تو ڈھاکہ والوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے لئے بھی اسی بجٹ کی منظوری دی جائے ، مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک محترم نے کہا کہ بنگالیوں کو کیا ضرورت ہے واش روم کی وہ تو درختوں کے پیچھے فارغ ہو جاتے ہیں ، قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ اس وقت بنگلہ دیش کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی تھی

دوسرا واقعہ ، کشمیر کی سیاست مذہب و قومیت کا عجیب ملغوبہ ہے ، نہ تو نیشنلزم اور مذہب ساتھ چل پاتے ہیں نہ الگ ہوتے ہیں ، میر واعظ مولانا یوسف شاہ مرحوم پاکستان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر الحاق کے زبردست حامی تھے ۔ ۱۹۶۴ میں جب آزاد کشمیر آئینی ارتقا کے مراحل سے گذر رہا تھا ، اور آزاد کشمیر کو نام نہاد ترامیم کا لالی پاپ دے کر ’بے دست و پا کیا جا رہا تھا تو سرور عباسی لکھتے ہیں کہ یہ سب دیکھ کر مولانا یوسف شاہ بولے ، ’آج اگر رائے شماری ہوتی ہے تو آزاد کشمیر کے لوگ انڈیا کو ووٹ کریں گے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کو کیونکہ دونوں اپنی اطراف کی حکومتوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ چکے ہیں’

پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی تھا ، میری دلچسپی نہیں ، پاکستان میں کوئی بھی ہو حکمران ، کشمیریوں کی قسمت وہی رہی ہے ، وہی رہے گی ، جب تک وہ لاحاصل و لایعنی توقعات اور سہاروں پر بھروسہ کریں گے ، جرم ضعیفی کی سزا ان کو ملتی رہے گی ۔ لیکن گذشتہ ایام میں بدقسمتی کی بات یہ ہوئی کہ ہمارے وزیر اعظم پانامہ کی اس جنگ میں کود پڑے اور پریس کانفرنس میں نہ صرف عمران خان کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ایک اور مبہم جملہ بول گئے ، جس کو نہ صرف پاکستانی میڈیا نے غیر ضروری طور پر اچھالا انڈین میڈیا کو بھی پروپیگنڈہ کا موقع مل گیا ۔

وزیر اعظم نے جو مبہم بیان دیا وہ جملہ کچھ یوں تھا ’بحیثیت کشمیری مجھے یہ سوچنا ہوگا کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت جوڑ رہا ہوں ‘ اس کے بعد میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا ، بات کو پورا سمجھے بغیر غداری کا مقدمہ چلانے ، استعفیٰ طلب کرنے اور گالیاں دینے لگ گئے یہ سمجھے بغیر کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے ۔ اس کے حق خود ارادیت کا آپ ہی پر چار کرتے ہیں ، یہ سمجھے بغیر کہ ان پر غداری کا مقدمہ نہیں چل سکتا ، ہم عادی ہیں یہ سب نجی محفلوں میں سننے کے ، مجھے وہ وقت بھی یاد آیا جب کالج کے زمانے میں مجھے ایک پاکستانی لڑکی نے گالی دے کر بتایا تھا کہ میں کشمیری ہوں ، اور اس کے بعد پاکستان میں ایک طویل عرصہ تک رہتے ہوئے گا ہے بگاہے اس قسم کے جملوں کا سامنا کرنا پڑا ، اب کان عادی ہو گئے ہیں

دوسری جانب ، کشمیر میں آج ایک ملی ٹینٹ مارا گیا ، اس کے بعد انڈین میڈیا پر بیٹھے لوگوں کی گفتگو خون کھولا رہی تھی ، تقریبا روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ انڈین میڈیا کے کسی نہ کسی چینل پر بیٹھے لوگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بلا کر اپنے تئیں ذلیل کر رہے ہوتے ہیں ، سوشل میڈیا پر ویڈیوز کے کمنٹس میں گالیوں کے طومار ہوتے ہیں ، آج زی نیوز کے ایک پروگرام میں محبوبہ مفتی ، جس نے بھارت سرکار کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، کو بھی الزام دیا جا رہا تھا کہ اس کی سرکار میں سنگ باز اور الگا وادی کھلی چھٹی منا رہے ہیں ، یہ وہ محبوبہ مفتی ہے ، جس کوکشمیر کے عوام بھارت نواز ہونے کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں ، بھارت کے عوام الگا وادیوں کی سرپرستی کرنے پر گالی دیتے ہیں ۔

اور پھر مجھے اپنے وزیر اعظم کا وہ جملہ یاد آیا کہ بحیثیت کشمیری میں کس قوم کے ساتھ اپنی قسمت جوڑوں ؟ انہوں نے یہ صرف عمران خان کے ’نئے پاکستان ‘ کا انکار کرتے ہوئے کہا لیکن اس کا ردعمل جو پاکستان سے آرہا ہے ، اب ہر کشمیری سوچے گا ، کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت جوڑوں ۔ اس انڈیا کے ساتھ جس نے پچھلے صرف ایک سال میں ۱۵۰۰۰ لوگوں کو زخمی کیا ، ۷۰۰ کی بینائی چھینی ، یا اس پاکستان کے ساتھ ، جو صرف ایک زبان کی پھسلن پر اتنے گئے ہیں ، کہ کشمیریوں کو بار بار انکی ’اوقات‘ یاد کروا رہے ہیں ۔

اب یہ اوقات کیا ہے؟ اندھی محبت سے اچانک کھلنے والی آنکھوں سے دیکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ کشمیری اس پار ہو یا اس پار ، اس کا نصیب اور اوقات گالی اور گولی ہے ، دینے والا کوئی بھی ہو۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کبھی نہیں سمجھیں گے ، کہ گالی اور گولی سے ، یا بزور بازو ، وہ چپ کروا سکتے ہیں ، دبا سکتے ہیں ، وفاداری نہیں خرید سکتے ۔ وفاداری دل کے رشتوں سے ہوتی ہے ، عرصہ پہلے ایک ڈرامے کے لئے لکھا ایک جملہ یاد آرہا ہے ـ تمہارے (کشمیر کے )مسائل کا حل صرف ایک ہے ، صرف ایک ، تہمارا اپنے اوپر اعتماد اور تمہارے حصوں کا اتحاد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے