جیسا دِکھتا ہے ویسا ہونا ضروری نہیں

گزشتہ دنوں ایک پرانی پاکستانی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا اور فلم دیکھتے دیکھتے ہی ایک ڈائیلاگ کانوں میں پڑا کہ "ضروری نہیں جیسا باہر ہو ویسا ہی اندر بھی ہو”۔ یہ ڈائیلاگ سننا ہی تھا کہ ایک خواہش پیدا ہو گئی کہ اس موضوع کو بھی زیر بحث لانا چاہیئے۔ آج وہی ڈائیلاگ جس نے مجھے لکھنے پر اکسایا، میرے کالم کا عنوان ہے۔

اپنی روز مرہ زندگی میں ہمارے بہت سے مشاہدات ایسے ہوتے ہیں کہ اس حقیقت کو ماننا پڑ جاتا ہے مثلا پھلوں میں خربوزہ خریدتے ہوئے ہم بڑی احتیاط سے اچھی طرح سے پکا ہوا خربوزہ خریدتے ھیں لیکن گھر میں لانے کے بعد جب اس کو کھانے کے لئے کاٹا جاتا ہے تو اکثر اوقات وہ پھیکا نکل آتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ بڑا خربوزہ ہمیشہ میٹھا نکلے اور چھوٹا ہمیشہ پھیکا۔ نتائج اکثر اس کے برعکس بھی ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کا معاملہ تربوز خریدتے ہوئے بھی پیش آتا ہے- ہم نہیں جانتے کہ خریدا جانے والا تربوز اندر سے لال ہے بھی سہی کہ نہیں اور اگر لال ہے تو میٹھا ہے بھی سہی کہ نہیں۔

یہ پوری تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ بات کو اچھی طرح سے سمجھا جا سکے۔ یہ معاملہ صرف پھلوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتا بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے ۔ ہم دنیا میں بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں بارات کے موقع پر دلہن اپنے عروسی لباس میں سنجیدہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس دلہن کے سنجیدہ بیٹھنے کی وجہ سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دلہن خوش نہیں ہے ۔ دن اسی طرح گزرتے گئے اور بقول لوگوں کے وہ "نا خوش” دلہن آج بھی خوش وخرم زندگی گزاررہی ہے۔

اسی طرح جب کسی کے گھر فوتگی کے موقع پر جایا جاتاہے وہاں بھی لوگ ان کے عزیزواقارب کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی کم رو رہا ہے یا نہیں رو رھا اس پر فورا تبصرہ کر دیا جاتا ہے کہ اس شخص کو اپنے عزیز کے اس دنیا سے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اس کا وہ عزیز اپنے عزیز کے جا نے کے غم میں بستر مرگ پر پڑا ہوتا ہے تو پھر ہماری سوچ کا زاویہ بدلتا ہے۔ہم تب اپنی سوچ بدلتے ہیں جب ہم روزانہ اس شخص کو اپنے عزیز کی قبر پر جاتا دیکھتے ہیں۔

لوگ اس لئے بغیر سوچے سمجھے تبصرہ کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مطابق دوسروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خوشی کا اظہار صرف ہنس کر نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سنجیدہ انسان کبھی بھی خوش نہیں ہو سکتا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ جی نھیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی غم کے موقع پر نہیں رویا اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص دکھی نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ شخص اپنے غم کو چھپانے کا ہنر جانتا ہو۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان خوش بھی ہوتا ہے ، دکھی بھی ہوتا ہے، غصہ بھی کرتا ہے اور پیار بھی کرتا ہے۔ کوئی بھی انسان ان جزبات سے عاری نہیں ہوتا ۔ مگر ان جزبات کے اظہار کا طریقہ ہر انسان کا مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے طریقے کے مطابق دوسروں کو پرکھنا نہیں چاہئے۔ دوسروں کو جانچنا اور پرکھنا ویسے ہی ایک قسم کی معاشرتی برائی ہے۔ اس قسم کی برائی کا مرتکب ہونے والا شخص کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ حقیقت تو یہ ہے ” ضروری نہیں جیسا باہر ہو ویسا ہی اندر بھی ہو”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے