بنی گالا کی تعمیرات غیر قانونی؟

اسلام آباد کے مشرق میں راول ڈیم کے قریب واقع بنی گالا کی وجہ شہرت وہاں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور نامور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ ہے۔

لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے بنی گالا کی تعمیرات اور وہاں واقع عمران خان کی رہائش گاہ کے غیر قانونی ہونے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔

خود سپریم کورٹ نے بھی ایک موقع پر عمران خان کی رہائش گاہ کو غیر قانونی قرار دیا۔

بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ اور اس سے متعلق چہ مگوئیوں میں اُس وقت اضافہ ہوا، جب کچھ ہفتے قبل عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف نوٹس لینے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو متحرک کرنے کی درخواست کی۔

لوگوں نے عمران خان کی جانب سے اس خط کے بعد حیرانگی کا اظہار کیا کہ جب بنی گالا میں موجود تمام تعمیرات بشمول ان کے گھر کے، غیر قانونی ہیں تو پھر انہوں نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی جانب سے بنائی جانے والی تعمیرات کے خلاف نوٹس لینے کی درخواست کیوں کی؟

لیکن کیا واقعی ایسا ہے کہ عمران خان کی رہائش گاہ سمیت بنی گالا کی تمام عمارتیں غیر قانونی ہیں؟

ملک کے عام عوام اوراسلام آباد کے شہری بنی گالا کو ایک رہائشی علاقے کے طور پر جانتے ہیں، جہاں گزشتہ 3 دہائیوں میں اعلیٰ اور درمیانے طبقے کے کئی لوگوں نے اپنی شاندار رہائش گاہیں بنائیں۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔

ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔

یہاں تک اسلام آباد کی تعمیر کے ماسٹر پلان کی سرکاری دستاویزات میں بھی بنی گالا کے علاقے کو نیشنل پارک کے لیے مختص جگہ قرار دیا گیا، مگر بعد ازاں یہاں رفتہ رفتہ پہلے امیر طبقے اور پھر متوسط طبقے کے لوگ آباد ہونا شروع ہوئے۔

آج اگر گوگل میپ کو بھی استعمال کیا جائے گا تو اس میں بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بنی گالا جیسا عالمی شہرت یافتہ علاقہ درحقیقت غیرقانونی طور پر قائم ہوا۔

بنی گالا میں ابتدائی طور پر 1980 میں گھروں کی تعمیر ہونا شروع ہوئیں، اسلام آباد کے پڑوس میں واقع ہونے کی وجہ سے علاقے کا بنیادی ڈھانچہ اچھا بنا ہوا تھا، جس کی وجہ سے علاقے نے بلڈرز کی توجہ حاصل کرلی، جنہوں نے گھروں کی تعمیر کے بعد سی ڈی اے کے مقابلے میں کم دام پر فروخت کرنا شروع کیا اور یوں یہاں آبادی بڑھنے لگی۔

چند ہزار روپوں کے عوض لوگوں نے بنی گالا میں ایک کنال کا پلاٹ حاصل کرنا شروع کیا اور یوں لوگوں نے نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی پلاٹ خریدے اور اس طرح یہ علاقہ ایک بڑے رہائشی علاقے میں تبدیل ہوگیا۔

بلڈرز نے بنی گالا میں حاصل کی گئی زمین کے کاغذات کو قانونی بنانے کے لیے دستاویزات میں یہ تحریر کرنا شروع کیا کہ انہوں نے یہ زمین وہاں کے رہائشی گاؤں کے افراد سے حاصل کی، جو سی ڈی اے کی مداخلت کے بغیر حاصل کی گئی۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کے شہری علاقوں کے لیے سی ڈی اے جب کہ بنی گالا جیسے دیہی علاقوں کے لیے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ایڈمنسٹریشن (آئی سی ٹی اے) مجاز اختیار رکھتا ہے، جو تمام دیہی علاقوں میں تعمیرات سمیت دیگر کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔

بنی گالا میں جب غیرقانونی تعمیرات زیادہ ہونے لگیں تو سی ڈے اے نے وہاں تجاوزات کے خلاف پہلے 1990 اور بعد ازاں 1992 میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔

سی ڈی اے کا 1992 میں شروع کیا گیا آپریشن 2 دن تک جاری رہا، جس میں چند ہلاکتیں اور کئی افراد زخمی بھی ہوئے، جس کے بعد متاثرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 1998 میں بنی گالا کے رہائشیوں کے حق میں فیصلہ دیا، بعد ازاں 1999 میں سپریم کورٹ نے بھی ایسا ہی فیصلہ دیا۔

عدالتی فیصلے سے بنی گالا جیسے علاقے کے لیے بنائے گئے اسلام آباد کے مقامی قانونی ضابطے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشن 1992 پر بھی اثرات پڑے، اس ضابطے کے مطابق بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 کو رہائشی عمارتوں سے محفوظ قرار دیا گیا تھا، مگر وہاں تعمیرات ہوچکی تھیں۔

بعد ازاں انتظامیہ نے اسی ضابطے میں 2005 میں تبدیلیاں کیں، جس میں بنی گالا زون 4 میں محدود پیمانے تک رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی، بعد ازاں 2010 میں اس ضابطے میں مزید ترامیم بھی کی گئیں، جن کے تحت زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں اور پلازے بنانے کی اجازت دی گئی۔

زوننگ قوانین میں ترامیم کے بعد بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں بنانا قانونی بن گیا تھا، مگر پھر سی ڈی اے حکام نے ان تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا، جس پر لوگ حیران رہ گئے کہ پہلے حکام نے خود ہی اس عمل کو قانونی قرار دیا اور اب اسے غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے۔

سی ڈی اے کی اسی دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بنی گالا میں موجود عمران خان کی رہائش کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔

اگرچہ عمران خان نے قانونی طور پر زمین خردیدی، اسی طرح دیگر افراد نے بھی قانونی طور پر زمین حاصل کی اور خود انتظامیہ نے بنی گالا میں تعمیرات کو قانونی قرار دیا تو اب اسے غیر قانونی قرار دینے کی منطق کیا ہے؟

اس حوالے سے مباحثوں کا حقیقتاً کوئی نتیجہ نہیں نکلنا، جب تک اس علاقے کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے سی ڈی اے کی گذشتہ پالیسیوں، زوننگ قواعد میں تبدیلیوں اور بنی گالا کے رہائشیوں کی جانب سے تعمیرات کا ایماندارانہ جائزہ نہ لیا جائے، اس جگہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے بدعنوان اشرافیہ یا حکومتی عہدیداران پر تنقید سے بنی گالا سے متعلق وہی گمراہ کن تصورات برآمد ہوں گے، جیسے میڈیا پر پیش کیے جاتے ہیں۔

تبدیلی اُسی وقت آئے گی، جب ایک ایسا کلچر بنایا جائے جہاں نہ صرف دوسروں کے اعمال پر ان پر تنقید کی جائے، بلکہ خود اپنی جانچ اور احتساب بھی کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے