قیام پاکستان سے آج تک سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہتے رہے؟

چند برس قبل سابقہ وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک ٹی وی شو میں محترمہ کشمالہ طارق کو کہا تھا ، ’’ کہ میں تمہاری طرح کسی کے بیڈ روم سے ہو کر اسمبلی تک نہیں پہنچی‘‘۔

دو ماہ قبل خواجہ آصف نے شیریں مزاری اور فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے بدکلامی کی تھی ۔خواجہ آصف جو ’’کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ کے جملے سے خاصے مشہور ہوئے ۔ انہوں نے بد کلامی میں بھی کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا۔

پاکستان کی سیاست میں غلیظ زبان کا استعمال کافی پرانا ہے۔ لیاقت علی خان ، محترمہ فاطمہ جناح اور اور مولانا مودودی جیسی شخصیات کے خلاف گالم گلوچ اور گندی زبان استعمال کی گئی .

گورنر جنرل غلام محمد خان، جنرل ایوب خان ، بھٹو، شیخ مجیب الرحمان، گورنر موسی، خان عبد القیوم خان، خان عبدالولی خان، جنرل ضیاٰالحق، پرویز مشرف ، شیخ رشید ، شہباز شریف ، حیدر عباس رضوی، الطاف حسین، شاہی سید ، ذوالفقار مرزا ، عمران خان ، ایوب خان ، مولانا فضل الرحمان، رانا ثناٰللہ ، عابد شیر علی، طلال چوہدری، فواد چوہدری، بشری گوہر اور دانیال عزیز سمیت کئی ایسے سیاستدان ہیں ۔ جو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نہ صرف نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے بھی پکارتے رہے ہیں۔

اگر ان الفاظ کو اکھٹا کیا جائے تو پاکستانی سیاست کی گھٹیا زبان کی ایک لغت بنائی جا سکتی ہے۔

ان الفاظ میں کتا ، شرابی اور عورتوں کا رسیا ، گنوار، سیاسی غنڈہ، مکار لومڑ، کھال ادھیڑ کر جوتے بنانا، پتلون اتارنا، اتری پتلون کے بعد کیا نظر آنا ، سور کا بچہ ، چیر پھاڑ کے رکھنا ، لڑکیوں کا ویزے کے لئے ریپ کروانا ، چھوکری ، بزدل چوہیا ، شیطان کی خالہ، پوڈری، کوکین والا ، ہندوستان میں جوتے کھانے والے ، زر بابا، مداری ، ڈینگی برادران ، میسنا ، پینٹ کوٹ والا چوہا ، بدخصال ، کنجر، ریلو کٹا ، شامل ہیں۔ بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو یہاں لکھے بھی نہیں جا سکتے۔

حال ہی میں ناز بلوچ کے بارے میں انہوں نے ابرار الحق کو کہا کہ ’’وہ کسی کام کی نہیں تھی‘‘ ۔

کئی سیاسی رہنماوں نے ایک دوسرے کے ناموں کو بھی بگاڑ رکھا ہےجو اکثر سوشل میڈیا پر سیاسی کارکن ایک دوسرے کی قیادتوں کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ دانیال عزیز کا نام دانیال غلیظ ، عمران خان کا نام طالبان خان، طلال چوہدری کا نام دلال چوہدری، شہباز شریف کا نام شوباز شریف ،میاں صاحب کا نام میاں سانپ، مریم نواز بطور پانامہ رانی ،چوہدری نثار کا نام چوہی نثار ، حسین نواز کا نام ببلو مولانا فضل الرحمان کا نام مولانا ڈیزل اور شیخ رشید کو شیدا ٹلی لکھا اور پکارا جاتا ہے ۔

بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے میثاق جمہو ریت اور سیاسی مفاہمت کی پالیسی نے نوے کی دہائی کی سیاست کو دفن کر دیا تھا ، لیکن عمران خان نے اس کو پھر سے زندہ کر دیا۔

عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اوئے نوازے اور ڈینگی برادران کے الفاظ سے جو سفر شروع کیا تھا ۔ اس کا ردعمل آج عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کی صورت میں نظر آ رہا ہے

ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر کے الفاظ چیخ چیخ کر ان قیادتوں سے سوال کر رہے ہیں ۔ کہ کیا ہم آپ کو اسلئے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں ۔ کہ آپ تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال کر کے نئی نسل کو یہ سکھائیں کہ سیاست صرف ایک گندگی ہے جس میں شرافت ناپید ہے ۔ اور سیاست کے میدان میں وہی آئے جو بازاری زبان استعمال کرنا جانتا ہو۔ مہربانی فرما کریا زبان کو درست کریں یا تہزیب کے معنی بدل دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے