راجہ فاروق حیدرپرالزامات اوراخلاقی دیوالیہ پن

پانامہ لیکس جیسے غیر منطقی مقدمے اور اس پر احمقانہ بحث نے پاکستان کا سیاسی وسماجی ماحول اس قدر پر اگندہ اور تعفن زدہ کردیا ہے کہ دنیا بھر میں اس ملک کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔عام دستور یہ ہے کہ جو مقدمہ عدالت میں زیر کار ہواس پر کسی دوسرے فورم پر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی ۔مگر پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ سے لگاتار ٹی وی چینلز جو تمام تر اخلاقیات اور معاشرتی وقانونی حدود سے بالاتر ہیں، اس مقدمے پر سرعام رائے زنی کرتے رہے اور عدالت سے بالاتر ہو کر بحث ومباحثہ اور فیصلے سنائے جاتے رہے۔ اس بحث ومباحثہ میں تمام تر مذہبی ومعاشرتی اخلاقیات کو بالا طاق رکھ کر ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی رہی۔ پاکستان سے محبت کرنے والا طبقہ اس صورتحال سے سخت بے چینی کا شکار رہا۔ اسی طرح اہل کشمیر جو گزشتہ 70سال سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ مذہبی رشتے کی بنا پر ریاست کا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنے کہ خواہش مند بھی ہیں کے لیے یہ صورتحال سخت اذیت کا باعث بنی رہی۔ قطع نظر اس کے پاکستان کی سپریم کورٹ نے پانامہ کا کیا فیصلہ دیا ہے اس فیصلے کی روشنی میں پاکستان میں جوافراتفری اور بے چینی پیدا ہوئی ہے اور پاکستانی جو سیاسی ومعاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اس پر بحیثیت کشمیری ہمیں دکھ ہے۔اہل کشمیر پر سمجھتے ہیں کہ سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم پاکستان کشمیریوں کے لیے موثر وکیل کا کردار ادا کر سکتا ہے اور جب اس کے آئینی ادارے اس طرح انتشار اور بدنظمی کا شکار ہوں گے تو اس سے نہ صرف پاکستان دنیا میں بے وقعت اور بے توقیر ہوگا بلکہ اس سے پاکستان اور کشمیریوں کے دشمن بھارت کو تقویت ملے گی اور اہل کشمیر میں مایوسی کا پھیلنا فطری عمل ہے ۔

پانامہ لیکس مقدمے کے فیصلے کے بعد راجا فاروق حیدر خان نے بحیثیت وزیرا عظم آزادکشمیر اور آزادکشمیر کے عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے اسی دکھ کا اظہار کیا اور اس تکلیف دہ صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔مگر افسوس کے پاکستان کے پرائیویٹ نشریاتی اداروں جو تمام تر اخلاقیات سے بالا ترہیں اور جنہیں صحافت کے بنیادی اصولوں سے ذرا بھی آگہی نہیں ،نے وزیرا عظم آزادکشمیر کے بیان کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھا اور اُسے کانٹ چھانٹ کر اور سیاق وسباق سے ہٹ کر شائع اور نشر کیا جس کے بعد انہی اخلاق باختہ اور اخلاق سوز اداروں میں بیٹھے سازشی عناصر نے اپنی زبان درازی اور لاف زنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیرا عظم آزادکشمیر پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔

حیرت اس بات پر ہے کہ عمران خان نامی شخص سے لیکر ٹی وی چینلز کے اینکرتک ایسی بیہودہ زبان استعمال کی گئی جو اہل کشمیر کے لیے باعث توہین ہے ۔الزام لگانے اور غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کرنے والوں نے شاید کبھی اپنا آئین 1973نہیں پڑھا ۔اگر پڑھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ اس آئین میں کشمیر کی کیا حیثیت ہے۔اگر وہ اپنے آئین سے واقف ہوتے تو ہر گز ایسا مطالبہ نہ کرتے ۔کیونکہ آئین 1973میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اہل کشمیر استعصواب رائے کے زریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے ۔اہل کشمیر کو یہ حق اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی دیتی ہیں ۔آئین پاکستان کی روشنی میں آزادکشمیر ، پاکستان کا حصہ نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کی حدود (Jurisdiction)میں آتا ہے اس لیے سپریم کورٹ آف پاکستان ،آزادکشمیر کے کسی فرد یا حکمران کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی ،

رہ گئی غداری کی ہرزہ سرائی تو جب آئین پاکستان اور اقوام متحدہ اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق دیتا ہے تو پھر فاروق حیدر کا بیان مبنی بر حقائق ہے کہ جب تم اپنے ملک میں انارکی اور انتشار پھیلا کر اپنے ملک وقوم کو بے توقیر کرو گے تو اہل کشمیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے آزادہوں گے ۔پاکستان کے چینلز پر بیٹھنے والوں اور جلسوں میں لاف گزاف کرنے والوں کو معلوم ہوناچاہیے کہ اہل کشمیر اُن کے زر خرید نہیں کہ اُن کی مرضی سے جئیں اور اپنے جذبات اوراحساسات کا اظہار بھی اُن کی مرضی سے کریں ۔

یہ بات ایک اندھا بھی سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کے شکار ملک کے ساتھ کون اپنا مستقبل جوڑے گا۔اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ اہل کشمیر کو اگر بھارت آج تک زور زبر دستی سے اپنا مطیع نہیں بنا سکا تو پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بیٹھنے والے یہ زبان دراز اور جلسوں میں واہی تباہی بکنے والے سیاست دان بھی انہیں اپنا اطاعت گزار نہیں بناسکیں گے۔

راجہ فاروق حیدر کا بیان صد فیصد درست ہے کہ جب پاکستان میں ایسی سیاسی ابتری اور معاشرتی ومعاشی افراتفری پھیلے گی تو ریاست جموں وکشمیر کے اُس پار مصروف جدوجہد کشمیریوں کو کیا پیغام ملے گا اور جب وہ تمھاری اُچھل کود اور جہالت سے مایوس ہوں گے تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں بھی آزادہوں گے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا اخلاقی دیوالیہ پن اس سے بھی ظاہر ہے کہ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل’’سماء‘‘نے راقم سے رائے لی جس میں راقم نے تقریباً یہی باتیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں کا اظہار کیا مگر ٹی وی کے متعصب اور بدیانت عملے نے راقم کی باتوں کو کانٹ چھانٹ کر اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا جس کی مذمت کرنا راقم کا حق ہے ۔میری باتوں کی اصل ریکارڈ نگ مذکورہ ٹی وی کے نمائندے امیر الدین مغل کے پاس محفوظ ہے اور اُسے سوشل میڈیا پر دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔میرے علاوہ ایک اور قلم کار سجاد میر کے ساتھ بھی یہی گھٹیا کھیل کھیلا گیا اور اصل گفتگو کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نشر کیا گیا ۔

ہم کشمیری اُن تمام اداروں اور اشخاص کو بتادینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا مذہبی رشتہ ضرور ہے مگر اس رشتے کے تقدس کو اگر آپ نے پامال کیا اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کی ہرزہ سرائی کی تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ماضی سے سبق سکھیں اہل بنگال کو بھی آپ نے اسی طرح اپنا غلام سمجھا تھا، نتیجہ سامنے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے