کشمیریو! اپنے پاجامے میں‌رہو!

’’کیا یہی قائد اعظم کاپاکستان، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ مجھے سوچنا ہو گاکہ مجھے کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت کوجوڑنا ہے اگر یہی قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان ،یہ عجیب بات ہے‘‘ (واضح رہے کہ مذکورہ جملے پر آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدرنے عمران خان کے یوم تشکر والےجلسے سے تقریبا سات گھنٹے قبل وضاحت کر دی تھی) فاروق حیدر کے اس جملے کو لے کر پاکستانی میڈیا اور سیاستدانوں کی طرف سے ’’کشمیر کے وزیر اعظم اور کشمیری قوم‘‘ کے خلاف جو ناشائستہ اظہاریے سامنے آئے ہیں، وہ کشمیری قوم کی توہین کے مترادف ہیں۔

تحریک انصاف کے ایک راہنما فیاض الحسن چوہان (جو اکثر ٹی وی مباحثو ں میں‌پارٹی کا دفاع کرتے ہیں)نے پیمرا کی جانب سے بند کئے گئے چینل کی غیرقانونی طور پر جاری ٹرانسمیشن کے دوران کہا کہ ” میں راجہ فاروق حیدر کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس کی کسی بات کا جواب دوں۔مغرب کے بعد وہ ویسے بھی ہوش و حواس میں نہیں ہوتا۔ دن کو بھی ٹُن حالت میں تھا کہ اس نے یہ بات کہ دی۔

کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔۔۔ ان کی اوقات۔۔۔ ان کی شکلیں۔۔ ان کے کرتوت۔۔ ان کی کرتوتیں یہ والی کہ یہ بات کریں کہ کس سے الحاق کریں۔ ایک صوبیدار میجر ان کو کان سے پکڑ کر اقتدار سے اتارنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ۔ان کے اخلاق۔۔ ان کے کردار۔۔ ان کے اٹیچوڈ۔۔جو آج کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم بنے بیٹھے ہیں۔۔ میں خبردار کروں گا انہیں کہ اپنی اوقات کے اندر رہیں۔ اپنے پاجامے کے اندر رہ کر بات کرو۔۔ جتنی تمھاری مینٹیلیٹی ہے نا۔۔جتنی تمھاری ورتھ اور کریڈیبیلیٹی ہے نا۔۔ اس سے دائیں بائیں۔۔ ”

یہ تو اس چینل پر جاری ایک حالات حاضرہ کے مباحثے میں فیاض چوہان کی جانب سے اونچی اور کرخت بلکہ انتہائی تحقیر آمیز آواز میں کہی گئی باتیں تھیں۔اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں شیخ رشید وزیر اعظم آزاد کشمیر کو جوتیاں مارنے کی بات کر چکے ہیں جبکہ عمران خان وزیر اعظم آزاد کشمیرکو’’ذلیل ‘‘ کہہ چکے ہیں۔آصف زرداری، قمرالزمان کائرہ ، اعتزاز احسن جیسے سیاستدانوں کے علاوہ اوریا مقبول، عامر لیاقت اور کئی دوسرے ٹی وی اینکرز سمیت کئی کالم نگار وزیر اعظم آزاد کشمیر کو غدار کہہ چکے ہیں۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر اپنے بیان کی وضاحت بھی کر چکے ہیں، اس کے باوجود طوفان تھمنے میں نہیں آ رہا۔ حساس اداروں والے صحافیوں سے پوچھ رہے ہیں کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کا مطلب کیا تھا ، یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تیسری پریس کانفرنس (31جولائی 2017) کے بعدکچھ فوجی افسران بھی وزیر اعظم آزاد کشمیر کے اسلام آباد سیکرٹریٹ(جو کشمیر ہاؤس میں ہے) میں آتے جاتے دکھائی دیے ۔

فاروق حیدر کے اس بیان پر اس قدر اشتعال کیوں؟ یہ سوال کئی پہلوؤں سے سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔

سب سے پہلی بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ پاکستان کے مختلف میڈیا ہاؤسز کی آپس کی جنگ نے فاروق حیدر کے بیان (جبکہ وہ ملک کی گرما گرم سیاسی صورت حال میں سامنے آیا تھا)کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر حملے کئے جس پر بات بڑھی اور اس ویڈیو کلپ کو انڈین میڈیا نے لیا اور پروپیگنڈہ شروع کردیا ،جس نے ایک عام سے معاملے کو شدیدحساس بنا دیا اور اب اس کا خمیازہ کشمیری قوم کو پاکستانی سیاسی رہنماوں کی گالیوں کی صورت میں مل رہا ہے۔

اس بیان پر پاکستان کی سیاسی قیادت اور اینکرز کی جانب سے سامنے آنے والے رد عمل کا دوسراپہلو یہ ہے کہ وہ اور پاکستان کی دیگرسیاسی قیادت کس طرح کا کشمیر چاہتی ہے۔ کشمیر تو ابھی تک منقسم و متنازع خطہ ہے اور آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں

پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کے مطابق :

When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and that State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.

’’جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان اور اس ریاست کا تعلق ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا‘‘۔

پاکستان کا آئین ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک جمہوری طریقے کی حمایت کرتا ہے اور اس کا حق دیتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اگر پاکستان کے ساتھ رہتے ہیں تو ان کا پاکستان سے تعلق کیا ہو گا، وہ بھی ریاست کے عوام ہی طے کریں گے۔لیکن پاکستانی سیاسی اشرافیہ کا عملی رویہ دیکھ کر شاید کشمیری سیاستدان مستقبل سے آگاہ ہو گئے تھے اور اسی بنا پر ’’ میر واعظ مولانا یوسف شاہ مرحوم جو پاکستان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر الحاق کے زبردست حامی تھے لیکن جب1964ء میں آزادکشمیر آئینی ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا تھا اور آزادکشمیر کو نام نہاد آئین کا لالی پاپ دے کر بے دست و پا کیا جا رہا تھا تو سرور عباسی کے بقول یہ سب دیکھ کر مولانا یوسف شاہ بولے’ ’آج اگر رائے شماری ہوتی ہے تو آزاد کشمیر کے لوگ انڈیا کو ووٹ کریں گے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کو‘‘

پاکستان کی سیاسی قیادت کس قسم کا کشمیر چاہتی ہے ، وہ ہم دو دنوں میں دیکھ چکے ہیں۔اس کے بعد یہ کہنا کسی صورت غلط نہ ہو گا کہ کشمیری کچھ اور سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ اس رویے کے رد عمل کی عکاسی 2010 میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 44 فیصد کشمیری مکمل آزادی چاہتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے فیاض الحسن چوہان نے پوری کشمیری قوم کو جس طرح لتاڑا اور انتہائی درشت لہجے میں کہتارہا کہ الحاق پر بات نہیں کر سکتے ،اسے شاید یہ علم نہیں کہ اس تنازع کا فیصلہ کشمیریوں کے ووٹ سے ہونا ہے اور وہی الحاق اور آزادی پر بات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور اس میں بنیاد بننے والے وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔

اگر فیاض الحسن چوہان کے بیان کو کشمیر کے اختیارات کے پیرائے میں دیکھا جائے تو پوری کشمیری قوم تو نہیں البتہ کسی حد تک کشمیر کی سیاسی قیادت پر ان کی باتیں صادق آتی ہیں کیونکہ یہ حقیقت کو کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ عملی طور پر آزاد حکومت کو جی او سی مری دیکھتا ہے(غیر علانیہ طور پر) جبکہ حریت کانفرنس ایک کرنل کے تابع ہے (یعنی عملا دو آرمی افسر کشمیر کے معاملات دیکھ رہے ہیں)۔

ایک تیسرا پہلو اس صورت حال میں یہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان کشمیر کی آئینی حیثیت سے نابلد ہیں۔ آصف زرداری، شیخ رشید ،شیریں مزاری ، اعتزاز احسن اور سردار عتیق احمد خان سمیت کئی ایک نے مطالبہ کیا کہ فاروق حیدر کے خلاف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جائے ۔ کوئی ان سیاسی رہنماؤں کو بتائے کہ پاکستان کا آئین آزاد کشمیر میں قابل عمل نہیں ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے باشندے پر آئین پاکستان لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس آئین کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا باشندہ پاکستان کا شہری نہیں ہے۔

حالیہ واقعے نے ایک بات کا احساس شدت سے دلایا کہ ریاست جموں وکشمیر کو جو نقصان ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے دیا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ باہر کی سیاسی جماعتوں نے ریاستی جماعتوں کا کردار تقریباًختم کر دیا ہے ، جس سے ریاست کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔ مسلم کانفرنس ہو یا نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ہو یا جموں کشمیر پیپلز پارٹی یہ جماعتیں کسی طور ریاست کی نمائندگی کرتیں تھیں لیکن باہر کی جماعتوں سے ریاست کے سیاستدانوں کی ڈوریں مکمل طور پر باہر والوں کے کنٹرول میں چلی گئی ہیں، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کی توجہ کا مرکز مظفرآباد اور سری نگر کے بجائے اسلام آباد اور دہلی بن گئے۔

اس سب کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ مسئلہ کشمیر کی ابتدا سے کشمیری عملی طور پر اپاہج اور بے اختیار ہیں اور دیر تک ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اس کا واحد حل کے ایچ خورشید کے فارمولے کے تحت آزاد حکومت کو بااختیار اور نمائندہ حکومت بنانا ہے تاکہ مقامی کشمیری قیادت اپنی جماعتوں کے سربراہان کی خوشنودی کے بجائے اپنی زیادہ تر صلاحیتیں اپنے مقامی مسائل کے حل پر صرف کرنے لگا سکیںں اور بقول فیاض چوہان ”اپنے پاجامے تک کی رہیں”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے