آپ ٹا ئیگر ہیں یا پٹواری؟

یاروں نے بیچ کی کوئی راہ چھوڑی ہی نہیں۔ سوئے دار یا کوئے یار ۔اس گلی کی تیسری جانب کوئی رستہ نہیں۔گلی کوچوں میں قاضیانِ خود معاملہ کی عدالتیں لگ چکی ہیں ، سمری ٹرائل ہو رہا ہے، مدعی نہ شہادت ، حساب پاک ہوا،یہاں فیصلہ محفوظ نہیں ہوتا، موقع پر سنا دیا جاتا ہے۔ آپ نواز شریف پر تنقید کرتے ہیں تو آپ ٹائیگر ہیں اور آپ عمران خان سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتے ہیں تو آپ پٹواری ہیں۔یہ تو ہم نے سن رکھا تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے ، اب تو مگر پورے سماج سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ فیصلہ کر لے اس نے کس کے حصے کا بے وقوف بن کر رہنا ہے۔

صدر بش نے کہا تھا: آپ ہمارے ساتھ نہیں تو آپ ہمارے دشمن کے ساتھ ہیں۔احباب کے لہجوں میں بھی بش کی رنگینی گفتار ہے۔ ایک ہی سوال ہے: ’’کیا آپ ہمارے قائد کے حصے کے بے وقوف ہیں‘‘۔اس کا جواب اگر آپ نفی میں دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ہمارے قائد کے حریف کے حصے کے بے وقوف ہیں۔آپ کو ٹائیگر ہونا چاہیے اور اگر آپ ٹائیگر نہیں ہیں تو آپ پٹواری ہیں۔اور آپ کو پٹواری یا نون غنہ ہونا چاہیے اور اگر آپ پٹواری یا نون غنہ نہیں ہیں تو آپ ٹائیگر ہیں۔

آپ نواز شریف کی بادشاہت کو جمہوریت کہتے ہیں ،آپ انہیں میرا سلطان سمجھ کر اطاعت کرتے ہیں ،آپ ان کی محبت میں ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں، آپ خاندان شریفاں کے حق حکومت کوغلام ابن غلام ابن غلام بن کر قبول کرتے ہیں ،آپ پانامہ لیکس کی روشنی میں شریف خاندان کی صداقت امانت ا ور دیانت کی قسم اٹھاتے پھرتے ہیں اور ان کی معاشی واردات کو ان کی بصیرت و فضیلت کے باب میں رقم کرتے ہیں تو آپ ایک اچھے سچے پاکستانی ہیں جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے ، آپ گاہے سوال اٹھا دیتے ہیں، آپ قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں، آپ پانامہ کیس کا حوالہ دینے کی گستاخی کر بیٹھتے ہیں،آپ اپنی کم علمی کی وجہ شہباز شریف اور جسٹس قیوم کی گفتگو کو انصاف اور قانون کی دنیا میں مینارہ نور سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں،آپ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور حدیبیہ پیپر ملز کی بات لے بیٹھتے ہیں، آپ یہ سوال اٹھانے کی جرات کر بیٹھتے ہیں کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کیوں چھپائی جا رہی ہے، آپ عالم وجد میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر نہیں اٹھا لیتے کہ میاں صاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو پھر آپ جمہوریت دشمن ہیں، آپ یہودی سازش کا مہرہ ہیں، آپ غلیل والوں کے ایجنٹ ہیں اور جی ہاں سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ایک ٹائیگر ہیں۔

دوسری جانب بھی یہی حکیمانہ بصیرت کارفرما ہے۔آپ صبح شام کپتان خان کو ایک دیوتا بنا کر پوجتے رہیں ، ان کے جھوٹے قصیدے پڑھتے رہیں، ان کے ڈنڈ پیلنے سے لے کر ان کی پشاوری چپل تک کے سہرے لکھتے رہیں، اور آپ عالم وجد میں جھوم جھوم کر اعلان کرتے رہیں کہ آپ کا کپتان خان کے جلسے میں نچنے کو بڑا دل کرتا ہے تو آپ نونہال انقلاب ہیں اورآپ کی عظمت کو سلام ، آپ ہی وہ بطل حریت ہیں جو نیا پاکستان بنائے گا، آپ کا ضمیر زندہ ہے،آپ صحافی ہیں تو عظیم صحافی ہیں، تجزیہ کار ہیں تو آپ اس دور کے سقراط ہیں ۔لیکن اگر آپ سوال اٹھاتے ہیں، آپ پوچھتے ہیں کہ بانوے میں آپ ریٹائر ہوئے ، یہ تو بتائیے اس محل کے خرچے کہاں سے پورے ہو رہے ہیں، آپ گستاخی کر بیٹھتے ہیں کہ جناب کے پی کے میں جو کچھ آپ نے بہایا کیا وہ دودھ اور شہد کی نہریں تھیں، آپ غلطی سے اکبر ایس بابر کی پیٹیشن کا حوالہ دے بیٹھتے ہیں، آپ اپنی حیرت سے مجبور ہو کر سوال کرتے ہیں کہ کیا مریدوں کے نذرانوں کی منی ٹریل مل سکتی ہے،آپ اے ٹی ایم سے لے کر ہیلی کاپٹر کے سفر تک پر سوال اٹھا دیتے ہیں، آپ پوچھ بیٹھتے ہیں کہ نا اہلی صرف مالی کرپشن پر ہوتی ہے یا اخلاقی کرپشن پر بھی ہو سکتی ہے،آپ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ جناب آپ نے تو احتساب کرنا تھا پھر آپ نے اپنے ہی صوبے کے احتساب کمشنر کو برطرف کیوں کر دیا، آپ کو کیا خوف ہے کہ کے پی میں ابھی تک ان کی جگہ پر احتساب کرنے کے لیے کوئی نیا آدمی بھی آپ تعینات نہیں کر سکے،آپ سوال پوچھ لیں کہ جناب زیب اللہ خان اور وزیر اعلی پرویز خٹک کے باہمی دلچسپی کے امور کیا ہیں،یہ آپ کے ایم این اے ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ پرچے دے کر امتحان کیسے پاس کر لیتے ہیں، نئے پاکستان میں یہ سہولت سب کو حاصل ہو گی یا صرف مراد سعید کو حاصل ہو گی، آپ یہ پوچھنے کی گستاخی کر لیں کہ خبر لیک ہونے پر وی سی کے خلاف تو کارروائی کر دی گئی مراد سعید کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ،یا آپ یہ سوال کر لیں کہ جناب وہ کیا معجزہ ہے آپ کے پاس کہ جو آپ کو چھوڑ کر جائے وہ تو لوٹا کہلاتا ہے لیکن جب کسی دوسری جماعت سے کوئی کوئی لوٹا ہو کربنی گالہ پہنچتا ہے تو ضمیر کا سپاہی اور بطل حریت کہلایا جاتا ہے۔آپ کے لوٹے میں کیا ٹونٹیاں دو ہوتی ہیں یا اس کی پیندے چار ہوتے ہیں کہ وہ باقی لوٹوں سے مختلف ، ممتاز اور سربلند ہو کر پھرتا ہے،تو پھر آپ کی خیر نہیں،نونہالانِ انقلاب آپ کو گندی اور غلیظ گالیاں دیں گے کیونکہ آپ بک چکے ، آپ نے لفافہ لے لیا، آپ کا ضمیر نیلام ہو گیا،آپ تبدیلی نہیں چاہتے،آپ غلام ابن غلام ہیں، اور آپ پٹواری ہیں۔

ہر گروہ کے پاس لوگوں کی عزتیں اچھالنے کے ماہرین موجود ہیں۔ان کا طرز گفتگو اتنا ادبی ہوتا ہے کہ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی پطرس بخاری کے کچھ مضامین یاد آ جاتے ہیں۔انہوں نے اتنی دھول اڑا دی ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ ان کی گفتگو سنتے ہوئے بسا اوقات آدمی شرمندہ ہو جاتا ہے کہ اتنا زوال آ گیا ہے۔ہر دو دربار سے بلاوا آتا ہے اور گداگرانِ سخن کی لائن لگ جاتی ہے۔ہر بارگاہ پر چند قلم فروش سر جھکائے ، جالب کے مشورے پر عمل پیرا ہیں کہ : اب قلم سے ازار بند ہی ڈال۔ایسا کریہہ ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اب تعفن اٹھنے لگا ہے۔معاشرہ کب تک اس ٹھیکیداری نظام کے ہاتھوں یرغمال رہے گا۔اس گھٹن کو توڑنا ہو گا اور یہ بات پوری قوت سے کہنا ہو گی کہ ہم کسی کے دشمن ہیں نہ کسی کے پالتو۔ہمیں کسی ایک سے انتقام لینا ہے نہ کسی دوسرے کے نامہ اعمال کی تیرگی کو حسن کا نام دینا ہے۔کوئی ایک فرشتہ ہے نہ دوسرا شیطان۔غلط کو غلط کہا جائے گا اور درست کو درست۔ خوبی کی تحسین ہو گی اور خامی پر تنقید۔کسی کے حصے میں آنے والے بے وقوف نہیں، ہم پاکستان کے آزاد شہری ہیں۔

یاد رہے پاکستان میں صرف ٹائیگر اور پٹواری نہیں رہتے، عام شہری بھی بستے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے