قائداعظمؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی…. اصل حقیقت

روزنامہ نوائے وقت لاہور 24تا 26دسمبر 2012- ڈاکٹر صفدر محمود کا تین اقساط میں مضمون ”قائداعظمؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی“ شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے: ”قائداعظمؒ کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر انکے ساتھیوں اور خواہرزادوں نے کی تھی، جن کی قائداعظمؒ سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظمؒ کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے۔ انکی تقریروں میں جابجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے…..“

قائداعظمؒ 1892ءمیں لندن جاتے ہیں۔ 1896ءمیں وہ واپس آتے ہیں۔ اس چار سالہ قیام کے دوران میں شروع میں انہوں نے والد کی کاروباری فرم کی نمائندگی کی، پھر بیرسٹری کیلئے لنکنز اِن میں داخلہ لیا۔ لندن میں وہ مسز ایف ای پیج ڈریک کے ہاں paying guest ( کرایہ دے کر رہنے والے مہمان) کی حیثیت سے مقیم رہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ لکھتی ہیں:”مسز پیج ڈریک ایک مہربان بوڑھی خاتون تھی…..اور انہیں اپنے بیٹے ہی کی طرح سمجھتی تھی۔ مسز ڈریک کی ایک انتہائی حسین و جمیل بیٹی تھی جو قائد کی ہم عمر تھی۔ خوبرو مس ڈریک میرے بھائی سے بہت التفات رکھتی تھی مگر وہ اس ٹائپ کے نہیں تھے جو اس قسم کے معاشقوں وغیرہ میں خود کو ملوث کرتے۔ جبکہ مس ڈریک میرے بھائی پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔ وہ ہر وقت ان کا دل جیتنے کی کوشش میں لگی رہتی تھی۔ مگر وہ ہمیشہ اسکے ساتھ قابلِ احترام حد تک فاصلہ رکھتے تھے۔ (بحوالہ: میرا بھائی‘ مصنفہ فاطمہ جناح صفحہ 51 پبلشرز: آتش فشاں لاہور۔)

قائداعظمؒ جب لندن گئے تو وہ سولہ برس کے تھے۔ واپس ہندوستان آئے تو انکی عمر بیس سال تھی۔ واقعہ¿ مذکور اس عمر میں ہوا جب انسا ن کے بھٹکنے کے امکانات قوی ہوتے ہیں لیکن قائداعظمؒ مضبوط مذہبی تربیت اور واضح مذہبی رنگ کے سبب اچھائی پر پختہ رہے۔5جون 1893ءکو وہ بیرسٹر بننے کیلئے لِنکنز اِن میں داخلہ لیتے ہیں۔ دوسری اِنز کے مقابلے میں انہوں نے لِنکنزاِن کا انتخاب کیوں کیا؟ اس بارے محترمہ، قائداعظمؒ کی زبانی بیان کردہ تفصیل لکھتی ہیں: ”یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ”لِٹل گو“ کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے یہ امتحان پاس کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ میں یہ امتحان پاس کر لوں گا۔ میں نے لندن کی تمام اِنز میں جانے اور ان میں زیر تعلیم طلبا سے ملنے کا سوچا تاکہ ان میں سے کسی میں داخلے کیلئے اپنے ذہن کو پہلے ہی سے تیار کر لوں۔ اپنے استفسارات اور مختلف لوگوں سے تبادلہ¿ خیال کے نتیجے میں میں نے لِنکنز کی بجائے ایک دوسری اِنّ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن اس کے بعد میں نے لِنکنزاِن کے صدر دروازے پر دنیا کی نامور قانون ساز شخصیات کے ضمن میں اپنے عظیم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام بھی کندہ کیا ہوا دیکھا‘ چنانچہ اس موقع پر میں نے ایک طرح کی منّت مانی یا عہد کیا کہ ”لِٹل گو“ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میں لِنکنزاِن میں داخلہ لوں گا“۔ (صفحہ: 48)

ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا تو دعویٰ ہے کہ انگلستان سے واپسی کے بعد، اور وہ بھی 1938 میں، قائداعظم ؒکی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی لیکن اوپر بیان کئے گئے دونوں واقعات اسکی شدید نفی کرتے ہیں۔ اگر مولانااشرف علی تھانوی نے انکے پاس کوئی وفد بھیجا بھی تھا تو قائداعظمؒ میں مذہبی تربیت اور واضح مذہبی رنگ پوری شدومد کے ساتھ پہلے سے موجود تھا۔ مثلاً:-

جنوری 1931- گول میز کانفرنس ملتوی ہونے کے بعد قائداعظمؒ نے لندن میں ہی وکالت اور رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو برس بعد دسمبر کے آخری ہفتے میں قائداعظمؒ بمبئی پہنچتے ہیں۔مضمون نگار کے مطابق ”انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظمؒ کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے۔ انکی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے“۔ گویا اس سے پہلے انکی تقریروں میں نہ تو واضح مذہبی رنگ تھا اور نہ ہی ان میں خدا کے سامنے جوابدہی کا خوف تھا۔ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔ اور اختلاف محض شواہد اور حقائق کے سبب ہے۔ اسلامی شریعت کے ایک تسلیم شدہ مسئلہ وقف علی الاولاد کیخلاف 1873ءمیں بمبے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمانانِ ہندوستان میں ناراضی کی لہر دوڑ گئی۔ سرسید احمد خاں، سید امیر علی، علامہ شبلی نعمانی، خان بہادر مولوی محمد یوسف ایڈووکیٹ کلکتہ ہائی کورٹ اور دیگر مسلم زعما نے اس فیصلے کیخلاف سخت احتجاج کیا۔ برصغیر کی مختلف عدالتوں میں اس مسلمہ اسلامی قانون پر متضاد فیصلے ہوتے رہے۔ قطعی فیصلے کیلئے پریوی کونسل لندن کی طرف رجوع کیا گیا۔ 1894ءمیں پریوی کونسل نے وقف علی الاولاد کی تنسیخ کا فیصلہ دے دیا۔ وہ قانون جو صدیوں سے مسلمانوں کیلئے ایک مسلمہ حیثیت رکھتا تھا، اس پر پریوی کونسل کے فیصلے نے شدید ہیجان پیدا کر دیا۔ اور مسلمانوں نے اسے اپنے دین میں مداخلت تصور کیا۔ قائداعظمؒاس وقت لندن میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بعد کے شواہد نے ثابت کیاکہ انکے نزدیک بھی یہ فیصلہ دین اسلام میں مداخلت تھا۔ مثلاً، دسمبر 1906ءمیں انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں گرینڈ اولڈ مین آف انڈیا دادا بھائی نَوروجی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ قائداعظمؒ کانگریس کے ایک ڈیلی گیٹ منتخب ہوئے۔ 27دسمبر کو انہوں نے اس اجلاس میں تقریر کی۔ بہ قول سروجنی نائیڈو انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی ”پہلی عوامی تقریر کی اور ان کی تقریر وقف علی الاولاد پر تھی“۔ ڈاکٹر صفدر محمود وہ تقریر پڑھ لیں تو ان پر عیاں ہو گا کہ اس قدر اہم اور نازک مسئلے پر گہرے فقہی ادراک، شعور، وسیع مطالعے، مذہبی تربیت اور مذہبی رنگ کے بغیر ایسی تقریر ممکن نہ تھی۔

1909ءمیں منٹور مارلے اصلاحات وجود میں آئیں، جن کے تحت برصغیر میں پہلا جداگانہ انتخاب 1910ءمیں ہوا۔ قائداعظمؒ بمبے پریذیڈنسی کے مسلم حلقے سے امپریل لیجسلیٹو کونسل کے لئے منتخب ہوئے۔ وہ پہلے غیر سرکاری مسلمان ممبر تھے جنہوں نے اس کونسل میں پرائیویٹ مسودہ¿ قانون پیش کیا۔ اور وہ بل وقف علی الاولاد کا تھا۔ اور تاریخ تھی 17مارچ 1911ئ۔ اس دوران میں علامہ شبلی نعمانی اسے باقاعدہ ایک علمی اور دینی تحریک کے طور پر لانچ کر چکے تھے۔ 1908ءمیں انہوں نے تیس صفحات پر مشتمل ”مسئلہ وقف اولاد“ کے عنوان سے ایک رسالہ بھی لکھا تھا۔ قائداعظمؒ نے جب امپریل لیجسلیٹو کونسل میں مسودہ¿ قانون پیش کیا تو اپنی تقریر میں اس حوالے سے علامہ شبلی نعمانی کی خدمات اور ان کے علمی مرتبے پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ کافی بحث کے بعد 1913ءمیں یہ مسودہ ”قانون وقف علی الاولاد“ کے نام سے منظور ہو گیا۔ جہاں یہ قائداعظمؒکی ابتدائی پارلیمانی زندگی کا ایک شہہ زور کارنامہ ہے وہاں یہ قائداعظمؒ کے سینے میں موجزن اسلامی غیرت کا بھی پتہ دیتا ہے، کہ اسلامی غیرت کے سوال پر کوئی مصلحت ان کے سدِّراہ نہ ہوئی، جیسا کہ وقف علی الاولاد کے مسئلہ پر امپریل لیجسلیٹو کونسل میں اپنی ایک تقریر کے دوران میں اس مسودہ پر ”مصلحت عامہ“ کے اعتراض کے ذکر میں قائداعظمؒ بہ بانگ دُہل کہتے ہیں:-

”ہم نے مسلمانوں کے معاملات میں شرع محمدی کے مطابق عمل کرنا ہے، اس لئے مصلحت ِ عامہ، جو اسلامک جورس پروڈنس (فقہ) میں بالکل اجنبی چیز ہے، ہماری بحث سے بالکل غیر متعلق ہے۔ اور جہاں تک اسلامی جورس پروڈنس کا تعلق ہے، مصلحت ِ عامہ کوئی چیز نہیں“۔

ڈاکٹر صفدر محمود اپنے مضمون مذکور میں دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظمؒ کی تقریروں میں واضح اسلامی رنگ انگلستان سے واپسی کے بعد نظر آتا ہے اور وہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر ان کے ساتھیوں اور خواہر زادوں کی مذہبی تربیت سے۔ جبکہ امپریل لیجسلیٹو کونسل کا ریکارڈ بھی اس کی شدید نفی کرتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون کی تیسری قسط مورخہ 26دسمبر 2012ء، کالم نمبر ایک میں لکھتے ہیں کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے اس تبلیغی وفد سے قائداعظمؒ کی پہلی ملاقات 25 دسمبر 1938ءکو پٹنہ میں ہوئی تھی۔ اور بہ قول ڈاکٹر صاحب موصوف مولانا اشرف علی تھانوی کے اس تبلیغی وفد کی قائداعظمؒکے ساتھ ”دوسری ملاقات 12 فروری 1939ءکو دہلی میں شام رات بھر ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظمؒ نے کہا کہ ”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے“۔

قائداعظمؒ نے پہلی سیاسی تقریر 27 دسمبر 1906 کو کی تو مسلمانوں کے صدیوں پرانے مسلمہ قانون ”وقف علی الاولاد“ پر۔ پھر اسی حوالے سے امپریل لیجسلیٹو کونسل میں انہوں نے جو بھرپور اور شاندار کردار ادا کیا اس کی کچھ جھلک میں پیچھے دکھا چکا ہوں۔ 1916ءمیں وہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ کی ہستی ہندو کانگریس سے منواتے ہیں۔جو ان کا مسلمانوں کا لیڈر ہونے کے حوالے سے بھی ایک کڑیل کارنامہ ہے۔ 1917ءمیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر وہ مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے دکھ درد دور کرنے کی جدوجہد سے غافل نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود انہیں 12 فروری 1939ءسے قبل سمجھ میں ہی نہ آیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ بہت خوب!

یہاں ڈاکٹر صاحب اپنے موقف کی خود ہی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں:-”ذرا غور کیجئے۔ وہ(قائداعظمؒ) جون 1938ءمیں کیا کہہ رہے ہیں۔ اور ان کے باطن سے کیا الفاظ نکل رہے ہیں۔ ”مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے۔ اور وہ ہے قرآنِ پاک۔ قرآنِ پاک ہی میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے۔ اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآنِ پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے۔ آزادی، مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے میں بھی ان ہی تین چیزوں کے حصول کا متمنی ہوں۔ تعلیم ِ قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے۔ اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے مدارج طے کر سکتے ہیں“۔

یہ اقتباس دینے کے بعد ڈاکٹر صاحب، تیسری قسط کے شروع میں لکھتے ہیں کہ ”یہ الفاظ قائداعظمؒ کے قرآن حکیم پر گہرے تدبر اور سچے ایمان کی غمازی کرتے ہیں….. اور ابھی قائداعظمؒ کی ملاقات حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے تبلیغی وفد سے نہیں ہوئی تھی“۔

یہ لکھنا کہ قائداعظمؒ کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر ان کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی، جن کی قائداعظمؒ کے ساتھ پہلی ملاقات 25 دسمبر 1938ءاور دوسری ملاقات 12 فروری1939ءکو ہوتی ہے۔ تو 1934ءسے 25 دسمبر 1938ءتک محترم ڈاکٹر صفدر محمود کو قائداعظمؒ کے جو الفاظ قرآنِ حکیم پر گہرے تدبر اور سچے ایمان کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں، ان کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے نہیں بتایا وہ کس کے ساتھیوں اور خواہر زادوں کی مذہبی تربیت کا نتیجہ تھے۔ ظاہر ہے وہ الفاظ اور 34ءسے 25 دسمبر 38ءتک قائداعظمؒ کی تقاریر پر ”قرآنی تعلیمات کا گہرا اثر“مولانا تھانوی کے تبلیغی وفد کی سعی نہ تھا۔ تو پھر ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے میں کیا وزن رہ جاتا ہے کہ ”قائداعظمؒ کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر ان کے ساتھیوں اور خواہرزادوں نے کی تھی“۔

نواب بہادر یار جنگ بمبئی کے سرکاو¿س جی جہانگیر ہال میں اپنے زیر صدارت 1934ءکے منعقدہ جلسہ¿ میلاد النبی میں قائداعظمؒ کی تقریر کے بارے میں لکھتے ہیں:”خطبہ¿ صدارت ختم ہوا اور تکبیر کے نعروں میں محمد اور علی کے ناموں سے نسبت رکھنے والا عقل و دل کے جناحین پر خود بھی عرش کی سیر کرنے لگا۔ اور اپنے سامعین کو بھی فرش سے بلند کرنے لگا۔ تقریر مختصر تھی، جس کے ابتدائی جملے میرے لئے سند تھے۔ اور آخری حصہ قانونِ محمدی کا دنیا کے دوسرے مشہور قوانین خصوصاً ”رومن لا“ سے متقابل مطالعہ تھا۔ موجودہ قوانین کا ایک عالمِ متبحر، جس کی زندگی ”رومن لا“ کی ذُرّیات کو اپنی آغوش میں پرورش کرتے ہوئے گزری، جب محمدی قانون کے گوشے کھولنے لگا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیمِ مغرب کے شیدائیوں نے حُسنِ محمدی کے کیسے کیسے جلوے دیکھے ہوں گے“۔

سیرت نبوی پر قائداعظمؒ کی 1934ءمیں کی گئی اس تقریر کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ تب تلک ان کی مذہبی تربیت کے لئے مولانا اشرف علی تھانوی کے ساتھیوں اور بھانجوں کا تبلیغی وفد ان تک نہیں پہنچا تھا۔

”قائداعظمؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی“۔ اپنے اس مضمون کی پہلی قسط، پہلے کالم میں ڈاکٹر صفدر محمود رقم طراز ہیں:”…..قائداعظم ؒ کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی“۔ تفصیل مذکور ڈاکٹر صاحب کے اس موقف کی بھی نفی کرتی ہے۔ پتہ نہیں مضمون نگار نے کیسے باور کر لیا کہ قائداعظمؒ کی مذہبی تربیت نہ ہوئی تھی، جبکہ انہوں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ سخت مذہبی تھا۔ آپ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے اس بیان سے ہی اندازہ کر لیں کہ ”میرے والد کے کندھوں پر پھیلتے ہوئے کاروبار کی بھاری ذمہ داریاں تھیں۔ مگر میری والدہ کا اصرار تھا کہ محمد علی کو ہمارے آبائی گاو¿ں پانیلی سے دس میل کے فاصلے پر واقع گانود میں حسن پیرؒ کی درگاہ پر لے جا کر ان کی رسمِ عقیقہ وہاں ادا کی جائے۔ بچپن ہی سے میری والدہ نے اس درگاہ میں مدفون اس پیر کے عقیدت مندوں سے ان کی معجز نما قوتوں کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ اُن کی والدہ کی پیش گوئی نے انہیں یقین دلادیا تھا کہ ایک عظیم مستقبل محمد علی کا منتظر ہے۔ اس لئے بھی وہ اُسے حسن پیرؒ کی درگاہ پر لے جانا چاہتی تھیں۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق وہاں محمد علی کے سر کے بال اتارنے کی تقریب منعقد کی جانی تھی۔ بچے کی والدہ اپنی مَنّت پوری ہونے کے لئے مقدس پیر کی نوازشات طلب کرنا چاہتی تھیں“۔(میرا بھائی: صفحہ 21)

اس سمندری سفر کے دوران میں ان کی کشی طوفان میں پھنس گئی۔ سب مسافر پریشان ہو گئے۔ کچھ دیر بعد طوفان تھما اور کشتی اپنے سفر پر روانہ ہو گئی۔ اس بارے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ لکھتی ہیں:”…..کئی روز بعد میری والدہ نے والد کو بتایا کہ پریشانی کے اُن لمحات کے دوران میں انہوں نے مَنّت مانی تھی کہ اگر وہ سب بحفاظت اپنی منزل پر پہنچ گئے تو وہ گانود میں حسن پیرؒ کے مزار پر مزید ایک روز قیام کریں گی۔ اور اللہ تعالیٰ کی اِس رحمت پر ہدیہ¿ تشکر پیش کریں گی“۔ (صفحہ:21)

”حسن پیر کی درگاہ پر عقیقہ کی رسم سرانجام دینے کے بعد میرے والدین بالوں سے صاف سر والے ننھے مُنے بیٹے کو لےکر اپنے آبائی گاوں پانیلی آ گئے“۔(صفحہ:23)

مولانا اشرف علی تھانوی، ان کے ساتھیوں اور خواہر زادوں کی قیام پاکستان کے لئے خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن جوشِ عقیدت میں زور قلم کابھٹکاوتاریخ کی کوئی خدمت نہیں۔

اسی مضمون میں ایک جگہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ جب آل انڈیا مسلم لیگ انڈین اور پاکستانی مسلم لیگوں میں تقسیم کر دی گئی تو انڈین مسلم لیگ کے صدر نواب محمد اسمٰعیل خاں ہوئے۔ یہاں بھی ڈاکٹر صاحب سے بھول ہو گئی ہے۔ کیونکہ دو حصوں میں بٹنے کے بعد انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر میرٹھ کے مشہورو معروف نواب محمد اسمٰعیل خاں نہیں بلکہ مدراس کے مسٹر محمد اسمٰعیل چنے گئے تھے جو 1945ءمیں مدراس سٹیٹ مسلم لیگ کے صدر رہے تھے۔ اور اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کے چیف وہپ بھی رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں اولین پاکستانی ہائی کمشنر بھی رہے۔ مرحوم 48ءسے 72ءیعنی اپنی وفات تک انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے